چاروں جانب صرف ایک ہی رنگ موجود تھا۔ اس رنگ نے وہ تاثیر پائی تھی کہ اس نے تمام رنگوں کو پیچھے کردیا۔ جیسےقدرت نے سرخ رنگ کو خاص انہیں کے لئے مختص کردیا ہو۔
EPAPER
Updated: November 27, 2023, 1:29 PM IST | Fatima Yusuf | Mumbai
چاروں جانب صرف ایک ہی رنگ موجود تھا۔ اس رنگ نے وہ تاثیر پائی تھی کہ اس نے تمام رنگوں کو پیچھے کردیا۔ جیسےقدرت نے سرخ رنگ کو خاص انہیں کے لئے مختص کردیا ہو۔
چاروں جانب صرف ایک ہی رنگ موجود تھا۔ اس رنگ نے وہ تاثیر پائی تھی کہ اس نے تمام رنگوں کو پیچھے کردیا۔ جیسےقدرت نے سرخ رنگ کو خاص انہیں کے لئے مختص کردیا ہو۔
ملبے کے ڈھیر پر بیٹھا محمد خاموش نگاہوں سے اپنے اطراف پر نگاہیں ڈال رہا تھا۔ اس کے اپنے ہاتھ پاؤں زخمی تھے۔ لیکن جو گھاؤ دل کو لگے تھے اس کی تکلیف ساری تکلیفوں پر سبقت لے گئی۔ وہ ہار رہا تھا اس کی ہمت ٹوٹ رہی تھی وہ رو رہا تھا لیکن اس کی آنکھیں پھر بھی خالی تھی۔
یہ چیختے پکارتے لوگ، یہ سرخ زمین، یہ جابجا پڑے ملبے، ایمبولینس کے سائرن اس کے لئے کچھ نیا نہ تھا۔ وہ ان حالات کا عادی تھا۔
برسوں پہلے ہونے والے حملوں کے نتیجے میں اس کا گھر پہلے ہی اجڑ چکا تھا۔ رہی سہی کسر اب کی بمباری نے پوری کردی۔ اس نے اپنی بہن کو دم توڑتے دیکھا تھا لیکن وہ چاہ کر بھی اسے بچا نہ سکا۔ اس کی بہن اس سے بہت دور جاچکی تھی۔ وہ یتیم تو تھا ہی اب مکمل تنہا ہوچکا تھا۔
وہ جس سرزمین سے تعلق رکھتا تھا وہاں کے لوگ زندگی سے لطف اٹھانے والوں میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ ان کے لئے ہر دن طلوع آفتاب کے ساتھ ایک نئی آزمائش ملاقات کے لئے آتی ہے۔
اسے صبر کی عادت ہوچکی تھی۔ لیکن وہ آج مکمل طور سے ٹوٹ چکا تھا۔ اس کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا ظالموں کے سینے چیر کر ان کا دل نکال کر پھینک دیں۔ وہ درندوں کے ساتھ درندگی کا معاملہ کرنا چاہتا تھا لیکن وہ فی الوقت خواہش کرسکتا تھا اور رو سکتا تھا کیونکہ محمد صرف ۱۴؍ سال کا ایک بچہ تھا ۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھا عقب سے سائرن کی آوازوں پر پلٹا۔ منظر دیکھ کر اس کا دل کا دھڑکنا بھول گیا۔ ایک ننھی سی جان کو لے جایا جا رہا تھا۔ محمد کے لئے دیکھنا دوبھر ہوگیا۔ اس نے آنسو بھری آنکھیں آسمان پر ٹکا دی۔
لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا
اس کی بہن کی خوبصورت سی آواز اسے سنائی دینے لگی یوں جیسے اس کا کندھا تھپتھپا کر اسے تسلی دے رہی ہو۔
ہمیشہ کی طرح محمد نے آنسو صاف کئے اور مسکرانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔
اس نے اپنی لہو لہو ہوئی شہادت کی انگلی دیکھی اور اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے گھر کی آدھی بچی دیوار پر کچھ لکھا اور ہجوم میں شامل ہوگیا جہاں ظالم کے ظلم کی دہائیوں کا شور تھا۔ دیوار پر سرخ رنگ سے لکھا لفظ ’’مجاہد‘‘ بہت سی اشک بہاتی آنکھوں میں چمک پیدا کررہا تھا۔