’’یار! تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔‘‘ فارحہ کے لہجے نے اس کے تجسّس کو بڑھا دیا تھا بھلا فارحہ کو اس سے کیا کام ہوسکتا ہے۔ ’’ہاں بولو نا کیا بات ہے؟‘‘ صائمہ نے وارفتگی سے پوچھا۔
EPAPER
Updated: February 11, 2025, 12:56 PM IST | Naziya Munawwar Hussain | Mumbai
’’یار! تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔‘‘ فارحہ کے لہجے نے اس کے تجسّس کو بڑھا دیا تھا بھلا فارحہ کو اس سے کیا کام ہوسکتا ہے۔ ’’ہاں بولو نا کیا بات ہے؟‘‘ صائمہ نے وارفتگی سے پوچھا۔
’’ہیلو! فارحہ بتاؤ کیسے یاد کیا؟‘‘ فون کی اسکرین پر اس کی دبئی ریٹرن دوست کا نمبر دیکھ کر صائمہ کی بانچھیں کھل گئی تھیں۔
’’یار! تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔‘‘ فارحہ کے لہجے نے اس کے تجسّس کو بڑھا دیا تھا بھلا فارحہ کو اس سے کیا کام ہوسکتا ہے۔
’’ہاں بولو نا کیا بات ہے؟‘‘ صائمہ نے وارفتگی سے پوچھا۔
’’اس دن جب مَیں تمہارے گھر آئی تھی تو تمہاری نند لائبہ مجھے بہت اچھی لگی تھی۔ دراصل میری ساس میرے دیور کے لئے لڑکی ڈھونڈ رہی ہے تم نے اس دن دیکھا تھا نا میرے دیور کو۔‘‘ فارحہ مسلسل بولے جا رہی تھی اور اس کا دماغ شائیں شائیں کر رہا تھا۔
فارحہ اس کی بہت عزیز دوست تھی۔ اس کی دوستی فارحہ سے اسکول کے بعد کالج میں بھی برقرار رہی۔ صائمہ کی شادی ایک مڈل کلاس گھرانے میں ہوئی تھی جبکہ فارحہ شادی کے بعد دبئی میں مقیم ہوگئی تھی لیکن ان دونوں نے ایک دوسرے سے کبھی بھی تعلق نہیں توڑا تھا عید ہی کو صحیح لیکن وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کو میسیج ضرور کر لیا کرتی تھیں۔ شادی کے بعد کی روٹین اور بچوں کی پیدائش کے بعد تو جیسے صائمہ کی مصروفیات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔ اس کے شوہر بینک میں کام کرتے تھے محدود آمدنی تھی۔ خوش قسمتی سے اسے سسرال بھی بہت اچھا ملا تھا۔ اسے بڑی بہو ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا ایک چھوٹا دیور اور ایک غیر شادی شدہ نند تھی جو ہر فن مولا تھی۔ لائبہ ایک خوبصورت اور سگھڑ لڑکی تھی گھر کے کاموں میں طاق تو تھی ہی پڑھائی میں بھی بہت ذہین تھی اس کی وجہ سے صائمہ کو گھر کے کاموں میں بہت آسانی ہو جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے یکے بعد دیگرے دو بچوں کی پیدائش کے بعد بھی اسے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس کے دونوں بچے لائبہ کے پاس ہی زیادہ رہتے تھے۔ سسر کا انتقال اس کی شادی سے قبل ہی ہوگیا تھا اسے کہیں بھی جانا ہوتا تو وہ مزے سے لائبہ کے پاس بچوں کو چھوڑ کر چلے جایا کرتی تھی۔
اس دن بھی اس نے فارحہ کے گھر جانے کا پلان بنایا تھا اپنی دانست میں سب سے مہنگا لباس زیب تن کیا تھا۔ نک سک سے تیار ہو کر وہ آئینے میں خود کو نہار ہی رہی تھی کہ آئینے میں اسے اپنے پیچھے لائبہ کا عکس نظر آیا جو سادہ سے کاٹن کے لباس میں بھی غضب ڈھا رہی تھی اس کی دودھیا رنگت، کمر سے نیچے آتے لمبے بال، خوبصورت بڑی بڑی آنکھیں اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتے تھے۔ صائمہ کا حلق تک کڑوا ہوگیا تھا۔
’’بھابھی! وہ ارحان کو مَیں نے دلیہ کھلا دیا ہے وہ آپ کے پاس آنے کی ضد کر رہا تھا۔‘‘
’’اسے میرے سامنے کیوں لے کر آئی ہو؟ تمہیں پتہ ہے نا بچّے ماں کو جاتے ہوئے دیکھ کر کتنی ضد کرتے ہیں۔ اسے اپنے کمرے میں ہی سلا دو۔‘‘ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے بھابھی۔‘‘ لائبہ گھبرا کے ارحان کو اپنے کمرے میں لے گئی۔
جیسے ہی وہ فارحہ کے کوٹھی نما گھر میں داخل ہوئی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ اس نے کبھی خوابوں میں بھی اتنا خوبصورت گھر نہیں دیکھا تھا۔ پورچ میں ڈرائیور سمیت گاڑیاں نوکر چاکروں کی ریل پیل اسے فارحہ کی قسمت پر رشک آنے لگا۔ فارحہ نے بہت ہی خوش دلی کے ساتھ اس کا خیر مقدم کیا تھا۔
’’بھابھی مَیں کام سے باہر جا رہا ہوں۔ اپ یہ فائل بھائی کو دے دینا۔‘‘ وہ فارحہ ہے کے ساتھ گپّے لڑانے میں مصروف تھی تو ایک وجیہہ نوجوان نے اس کو چوکنے پر مجبور کر دیا تھا موصوف فارحہ کے دیور تھے۔
سارا دن فارحہ کے گھر گزارنے کے بعد جب وہ اپنے گھر میں داخل ہوئی تو اس کا موڈ سخت خراب تھا۔ اچھا خاصا دو منزلہ گھر اب اسے کھنڈر نظر آنے لگا تھا۔ اس کے اندر ایک جنگ چھڑ گئی تھی۔ کیا ہوتا اگر اسے بھی فارحہ جیسا شوہر اور گھر مل جاتا۔ اب اسے اپنے والدین پر غصہ آنے لگا جنہوں نے اس کی شادی اسد سے کر دی تھی لیکن وہ جس کرب و درد سے گزر رہی تھی اس کا ذکر وہ کسی سے بھی نہیں کرسکتی تھی۔ سارے لوگ اس کی قسمت پر رشک کرتے تھے کہ ایک پیار کرنے والا شوہر دو خوبصورت بچے اور اسے ایک اچھا سسرال ملا ہے لیکن اب اسے یہ ساری چیزیں جیسے حقیر اور کمتر نظر آنے لگی تھی۔
طبیعت خرابی کا بہانہ بنا کر وہ دو دن تک منہ لپیٹے بیڈ پر ہی پڑی رہی۔ اس کے شوہر گھر میں واحد کمانے والے تھے لیکن ایک دکان بھی تھی جس کا کرایہ بھی آتا تھا جس سے اماں نے لائبہ کے لئے اچھا خاصا جہیز جمع کر لیا تھا۔ انہیں شوہر کے جانے کے بعد لائبہ کی حد سے زیادہ فکر تھی وہ اپنی زندگی میں ہی لائبہ کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی بہو کے بد اخلاقی کو بھی نظر انداز کر دیا کرتی تھی۔ اس دن بھی انہوں نے بیٹے سے لائبہ کے لئے اچھا لڑکا ڈھونڈنے کے لئے کہا تھا۔ بہو کو بھی وقتاً فوقتاً وہ یاد دہانی کراتی تھی لیکن اس وقت تو وہ حامی بھر لیتی تھی بعد میں سرے سے اس بات کو فراموش ہی کر دیتی تھی۔ کبھی کبھی وہ اسد کے سامنے جھنجھلا جاتی کہ کیا یہ اماں ہر وقت لائبہ کی شادی کی رٹ لگائے رہتی ہیں کیا ہمیں فکر نہیں ہے، کیا میں اس کی دشمن ہوں۔ شوہر کو کان بھرنے کا ایک بھی موقع بھلا وہ کیسے جانے دیتی۔
ان ہی دنوں فارحہ نے اپنے دیور حمزہ کے لئے لائبہ کا رشتہ مانگ لیا تھا۔ فارحہ نے تو بس جیسے لائبہ کی رٹ ہی لگا رکھی تھی۔ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے دیور سے لائبہ کا رشتہ کرانا چاہتی تھی۔ اسے کیا معلوم تھا کہ فارحہ کو اپنے گھر پر دعوت کے لئے مدعو کرنا اسے اتنا بھاری پڑ جائے گا۔ جب سے فارحہ نے لائبہ کو دیکھا تھا وہ اس کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ کوکنگ، سگھڑاپے اور خوش اخلاقی کی بھی گرویدہ ہوگئی تھی۔
اس دن بھی فارحہ کا فون آگیا تھا۔ وہ رشتہ لیکر آنے کیلئے بضد تھی اور صائمہ کے سامنے فارحہ کا عالیشان بنگلہ، خوبصورت دیور گھومنے لگے اسکے سینے پر تو جیسے سانپ لوٹنے لگے تھے۔ جس چیز سے وہ محروم تھی بھلا کیسے وہ لائبہ کیلئے برداشت کرتی۔ اُونہہ! ہم رہیں گے اس کھنڈر میں اور لائبہ مہارانی اس عالیشان بنگلے میں راج کریگی۔ قطعی نہیں! آخر کار اس نے بڑی ہی سہولت سے فارحہ سے معذرت کر لی تھی کہ لائبہ اپنے خالہ زاد سے منسوب ہے۔ بچپن میں ہی اس کا رشتہ طے ہو چکا ہے۔ حالانکہ یہ بات جھوٹی تھی اس طرح یہ معاملہ بھی نپٹ گیا۔ اب اس کی فکر میں اضافہ ہونے لگا کہ اگر لائبہ کیلئے ایسی ہی رشتے اماں یا اسد کے سامنے آنے لگے تو وہ تو کبھی منع نہیں کرینگے۔ آخر اس نے اپنے جاننے والے کے توسط سے لائبہ کا رشتہ ایک مڈل کلاس گھرانے میں طے کر دیا۔ لڑکا لائبہ سے پندرہ سال بڑا تھا لیکن خوش شکل تھا اس کی آمدنی محدود تھی اس پر گھر کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ تین بہنوں کی بھی ذمہ داری تھی۔ اب جا کر صائمہ کو تھوڑا سکون ملا کہ ساری زندگی لائبہ نندوں کی ذمہ داری نبھاتے نبھاتے گزار دے گی۔ اماں اور اسد نے شروع میں اس رشتے کی مخالفت کی تھی کہ لڑکے پر بہت زیادہ ذمہ داریاں ہیں اور خود کا گھر بھی نہیں ہے لیکن صائمہ نے انہیں راضی کرکے ہی دَم لیا۔ اس طرح کچھ ہی دنوں میں لائبہ رخصت ہو کر اپنے سسرال چلی گئی۔
وقت کے پہیے نے کروٹ لی اور برسوں بیت گئے۔ صائمہ کا ایک بیٹا اور بیٹی دونوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا تھا۔ اس دوران اس کی ساس بھی ملک عدم سدھار گئی تھی اور اس نے اپنی اکلوتی اور پیاری بیٹی کی شادی انتہائی تگ و دو کے بعد ایک بہت عالیشان اور امیر گھرانے میں کی تھی۔ اس دوران اس کے شوہر کو فالج کا اٹیک ہوا تھا اور وہ بستر پر ہو کر رہ گئے تھے۔ اس کی بیٹی ردا کے ساتھ شروع میں تو سسرال اور شوہر کا رویہ اچھا تھا بعد میں ان کے اصلی چہرے سامنے آنے لگے اور انہوں نے ردا پر کبھی نہ ختم ہونے والے ظلموں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
ایک دن تو حد ہوگئی جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا سامنے اس کی جان سے پیاری بیٹی اس کے جگر کا ٹکڑا بدحال بد حواس کھڑی ہوئی تھی جگہ جگہ نیل کے نشان تھے۔ شاید پھر سے اس کے شوہر نے نشے کی حالت میں اس کی پٹائی کی تھی۔ اس کے ہونٹ کے کنارے سے خون بہہ رہا تھا اس نے تو کبھی ردا کو پھول کی چھڑی سے بھی نہیں مارا تھا۔ صائمہ کی چیخ نکل گئی اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنے پاس لائبہ کو پایا۔ لائبہ دھیرے دھیرے اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی، ’’گھبرانے کی بات نہیں ہے بھابھی، اب ردا ٹھیک ہے۔ میں نے حسن سے بات کی ہے۔ لائبہ نے اپنے شوہر کا ذکر کیا، ان کے دوست کمشنر ہیں۔ ہم ان لوگوں کو ایسے ہی تھوڑی چھوڑ دیں گے۔ ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ لائبہ اسے مسلسل تسلی دئیے جا رہی تھی۔ اس نے غور سے لائبہ کا جائزہ لیا۔ ان گزرے برسوں اور مشکل حالات نے لائبہ کے روپ کو چھین لیا تھا۔ شادی سے پہلے بھی وہ محنتی اور ہونہار تھی تو شادی کے بعد بھی اس نے شوہر کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ کئی چھوٹے موٹے کام کئے۔ ٹیوشنز دئیے۔ کئی برسوں کی مسلسل محنت کے بعد اسے خود کا گھر نصیب ہوا تھا۔ مسلسل تین نندوں کی شادی کی ذمہ داریوں نے اس کی کمر کو توڑ کر رکھ دیا تھا لیکن لائبہ نے نہایت خوش اسلوبی سے سارے فرائض کو انجام دئیے تھے۔ اس کی ساس بستر پر تھی لیکن ان کی زبان لائبہ کو دعائیں دیتے نہ تھکتی تھی۔ اس کا لائبہ سے نظریں ملانا مشکل ہوگیا تھا گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹکنے لگا۔
’’پلیز! تھوڑی دیر مجھے اکیلا چھوڑ دو۔‘‘ اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا لیکن وہ کہاں بھاگتی اور کس کس سے بھاگتی۔ ماضی میں اسکے کئے گئے اعمال اپنا پھن پھیلائے کھڑے تھے۔ اس کا کیا ہوا اسکے سامنے یوں آئیگا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ کیا ہوجاتا اگر وہ لائبہ کیلئے آسانیاں پیدا کر دیتی، کیا ہو جاتا اگر لائبہ اس عالیشان محل میں راج کرتی، نہیں لیکن اسکے اندر جو حسد کا جذبہ تھا جس نے اسے کبھی لائبہ کیلئے اچھا سوچنے نہیں دیا تھا۔ اگر اس نے لائبہ کیلئے اچھا نہیں کیا تھا تو وہ لاکھ اچھا چاہنے کے باوجود اپنی بیٹی کیلئے بھی بھلا نہ کرسکی۔ اس نے جان بوجھ کر لائبہ کو مشکلات کے سمندر میں ڈھکیلا تھا لیکن لاکھ چاہنے کے باوجود بھی وہ اپنی بیٹی کو بھی وہ عیش و عشرت کی زندگی نہیں دے سکی جو اس کا کبھی خواب تھا۔ کون کہتا ہے کہ صرف مرد عورتوں پر ظلم کرتے ہیں عورت بھی عورت پر کم ظلم نہیں کرتی کبھی بھابھی بن کر تو کبھی ساس یا نند بن کر یا کبھی کسی اور رشتے کے روپ میں.... لیکن وہ کیسے بھول گئی کہ اوپر والے کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی لائبہ نے تو پھر بھی اپنا گھر بسا لیا تھا لیکن اس کی بیٹی کا گھر اجڑ گیا تھا۔
صائمہ تہی داماں تھی، شوہر بستر پر اور اس کا بیٹا اس کی طرح بداخلاق تھا۔ سارا دن دوستوں میں گزارتا اسے کسی کی فکر نہیں تھی۔ کہیں پڑھے گئے الفاظ اسکے گرد گردش کرنے لگے کہ ’’انسان جو درد دوسروں کو دیتا ہے اس کا مزہ چکھے بغیر وہ نہیں مرتا‘‘ وہ شکستہ قدموں سے کمرے کے باہر جانے لگی کہ اسے اپنے کئے گئے اعمال کی سزا تو بھگتنی ہی تھی۔
وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹا دے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتا ہے!