تمہیں یاد ہے میری گزشتہ تحریر نے جب حقیقت کا رنگ اختیار کیا تو ہم دونوں دنگ رہ گئے تھے.... میں نے قلم اس یقین کے ساتھ اٹھایا ہے کہ یہ تحریر بھی حقیقت کا شکل اختیار کرلے.... ہمارے درمیان کی مسافتیں ختم ہوجائیں .... ہجر کا باب مکمل ہو اور وصل کی راحتیں میسر ہوں ....
بہت مشکل ہے قرطاس پر ان رنگوں کو بکھیرنا جو ہماری اداس زندگی کی عکاسی کرتے ہیں .... یا سادے کاغذ پر وہ تحریر کرنا جس سے ہماری زندگی کی ویرانیوں کا اظہار ہو.... مَیں ہجر کی ویرانیوں کو لکھنا نہیں چاہتی.... اگر مَیں نے مقید خیالات کو آزادی کا پروانہ نہ دیا تو میری آنکھیں خون آشام ہوں گی.... چہرہ ویران اور جسم مفلوج.... میرے ہر خیال سے دل کی دھڑکن تک صرف تم مسلط ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ اس قید سے باہر آؤں ....
مَیں نے طے کیا ہے کہ مَیں ان خیالات کو قرطاس پر بکھیر کر انہیں آزاد کر دوں گی.... اور ہر اس کیفیت کو تحریر کروں گی جس سے صرف میں، تم واقف ہو.... اور وہ رب.... جس نے نہ جانے کس مصلحت و حکمت کے تحت ہمیں ملا کر ہجر کے تپتے صحرا میں طویل مسافت کے لئے چھوڑ دیا.... لوگ سمجھتے ہیں بچھڑنا آسان ہے.... شاید ان لوگوں نے مقدس پیغامات نہیں پڑھے.... جن میں لکھا ہے کہ جدائی آنکھوں کا نور لے جاتی ہے.... جیسے یعقوبؑ کی آنکھیں .... کیا ہجر کی صدیوں کا اختتام ہوگا....؟
یہ خوش فہمی یا شاید امید.... یا یقین.... مجھے وصل کا الہام ہوتا ہے.... پتہ نہیں یہ الہام حقیقت کے منظر میں کب ڈھلے گا.... لیکن میں کہتی ہوں .... ہم ملیں گے....
تمہیں یاد ہے میری گزشتہ تحریر نے جب حقیقت کا رنگ اختیار کیا تو ہم دونوں دنگ رہ گئے تھے.... میں نے قلم اس یقین کے ساتھ اٹھایا ہے کہ یہ تحریر بھی حقیقت کا شکل اختیار کرلے.... ہمارے درمیان کی مسافتیں ختم ہوجائیں .... ہجر کا باب مکمل ہو اور وصل کی راحتیں میسر ہوں ....
کبھی کبھی شدتِ غم سے آہ نکلتی ہے اور بے اختیار یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں : کاش! ہماری راہیں ایک دوسرے سے کبھی نہ ٹکرائی ہوتیں .... ان راہوں کے ٹکراؤ نے منزل کو دھندلا کردیا ہے.... کچھ واضح نہیں ہے.... بس لمحوں کی خوشگوار رفاقت کے بعد صدیوں کا ہجر نصیب میں درج کردیا گیا.... ہجر کا درد جان لیوا ہوتا ہے سانسیں عطا کرکے دل کو درد سے بھر دیا جاتا ہے نہ زندگی سے فرار نہ ہی موت سے رفاقت....
لیکن مجھے الہام ہوتا ہے.... ہم ملیں گے....
میری تحریر کا اختتام وصل پر ہے.... ہم ملیں گے....
راٹینگ ٹیبل کے سامنے کھڑکی سے آتی ہواؤں نے حنین کے بالوں کو بکھیر دیا.... ڈائری کے صفحات پھڑپھڑانے لگے.... قلم لمحوں میں خشک ہوچکا تھا....
اب بکھرے بال، پھڑپھڑاتے صفحات اور خشک قلم سے اسے کوئی سروکار نہیں رہا قلم ایک جانب رکھ کر اس نے ایک گہری سانس خارج کی.... الہام.... یقین.... وصل!