آبان اور اس کے بڑے بھائی کا آفس سے گھر آتے وقت ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اور گھر پر تو گویا مصیبت کا پہاڑ ہی ٹوٹ گیا تھا۔ مہینے کے آخری روز ویسے بھی بچت کرکے گزارنے پڑتے اور ایسے میں یہ حادثہ
EPAPER
Updated: April 10, 2025, 12:24 PM IST | Maryam Mujahid | Mumbai
آبان اور اس کے بڑے بھائی کا آفس سے گھر آتے وقت ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اور گھر پر تو گویا مصیبت کا پہاڑ ہی ٹوٹ گیا تھا۔ مہینے کے آخری روز ویسے بھی بچت کرکے گزارنے پڑتے اور ایسے میں یہ حادثہ
نور ایک شوخ و چنچل لڑکی تھی۔ بچپن ہی سے اس کو کسی کے برابھلا کہنے کی کوئی پروا نہ تھی، اس کو جی میں جو آئے وہی کرنے میں مزاآتاتھا۔ خاص کر ایسے کام جو روایت سے ہٹ کر ہوں۔ مثلاً شمع سے توا گرم کرکے آملیٹ بنا لینا، گھر میں ضائع شدہ چیزوں کو استعمال میں لانے کیلئے نت نئے طریقے ڈھونڈنا، پکاتے وقت کھانے میں عجیب عجیب چیزوں کا اضافہ کرکے نئے ذائقے کی تلاش کرنا۔ آج اس کا نکاح تھا، اس نے اپنے چہرے کو فطری طریقے پر سجانے کیلئے آج بھی کچھ عجیب سے پیسٹ چہرے پر لگا لئے تھے۔ اس کو دیکھ کر اس کی سہیلی کوثر کی چیخ نکل گئی جس کو سن کر نور بری طرح ڈر گئی، کوثر آ گے بڑھی اور نور کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لئے رونے والی شکل بنا کر اسے گھورنے لگی، ’’کیا تمہیں اس سے برا وقت نہیں ملا تھا اپنا دماغ استعمال کرنے کا؟ شکل دیکھی ہے اپنی آئینے میں، بھوت لگ رہی ہو تم، اگر کسی نے تمہیں ایسے دیکھ لیا نا تو تمہارے ساتھ ساتھ میری بھی شامت آجائے گی۔‘‘ ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ کر وہ نور کو باتھ روم میں لے گئی اور اس کا میک اپ اتارنے لگی جو یقیناً کسی چڑیل سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ نور بنا کچھ کہے اپنا چہرہ دھونے لگی۔ ’’اس سے اچھا وقت بھی تو نہیں تھا نا، اگر میرا یہ آئیڈیا کام کر جاتا تو میرے جیسا میک اپ کسی کا نہ ہوتا اور میرے ویورز بھی تو بڑھتے۔‘‘ ’’مگر نور بی بی تمہارا یہ آئیڈیا فیل ہی نہیں بری طرح فیل ہوگیا ہے اور بارات بس آنے ہی والی ہے۔ تمہاری شادی اس مہذب گھرانے میں کرانی ہی نہیں چاہئے تھی نجانے تم ان لوگوں کا کیا حال کرو گی۔‘‘ دانت پیستے ہوئے کوثر نے کہا، ’’اب اپنے سسرال میں ایسی حرکتیں مت کرنا نہیں تو وہ لوگ دوسرے دن ہی چلتا کر دیں گے۔‘‘ نور نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے کاجل کی موٹی تہہ کو صاف کرتے ہوئے کوثر کو ٹوکا، ’’اپنے منہ سے اچھی بات بھی نکال لیا کرو کبھی۔‘‘ ان دونوں کی نوک جھوک نجانے کتنی دیر تک چلتی لیکن بارات آچکی تھی۔ اس کے بعد نور نے کوئی بھی اوٹ پٹانگ حرکت نہیں کی اور اپنے انوکھے آئیڈیازکو ساتھ لئے سسرال آگئی۔
’’امی! نمک کی جگہ شکر ڈالنا سمجھ میں آتا ہے مگر گڑ....‘‘ سحرش نور کی دیورانی، نے بات کو درمیان میں چھوڑ دیا اور ساس کے تاثرات جانچنے لگی۔ دراصل پچھلی رات نور نے اپنے سسرال میں پہلی بار کھانا بنایا، اسے یہاں آئے صرف دو دن ہی ہوئے تھے لیکن جب دال کا برتن دسترخوان پر رکھا گیا تو کاڑھے کی خوشبو نے سب کو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ آمنہ بیگم نے پتیلے کا ڈھکن تھوڑا اور ہٹایا اور کالی دال کو دیکھا جس میں ٹماٹر کے بڑے بڑے ٹکڑے اور کالا زیرہ تیر رہے تھے۔ انہوں نے ہنس کر آبان کی طرف دیکھا، ’’تم اسکے شوہر ہو اسی لئے تم پہلے نور کے ہاتھوں کا کھانا چکھو۔‘‘ نور نے خوش ہو کر اپنے شوہر کی جانب دیکھا۔ آبان نے بھی ہنس کر اس اعزاز کو واپس کر دیا، ’’نہیں امی وہ آپ کی بہو ہے، پہلے آپ پھر میں۔‘‘ نور کی نظریں اپنی ساس کی طرف مڑیں۔ دونوں نے آس لگائے کھڑی نور کو دیکھا۔ آمنہ بیگم نے چمچے میں دال لی اور اسے چکھا، اس کے بعد انہیں سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے باہر ڈھکیلے یا اندر۔ بالآخر اسے اندر ڈھکیل کر انہوں نے نور کی طرف دیکھا، ’’بیٹا نور، اس میں کیا ڈالا ہے؟‘‘ اپنے منہ میں کبھی میٹھا، تیکھا، کڑوا اور کبھی چکنا ذائقہ محسوس کرتے ہوئے انہوں نے نور سے پوچھا۔ سحرش نے انہیں بتایا کہ اس نے اس میں گڑ ڈالا تھا۔ سب حیرت سے نور کی طرف دیکھنے لگے۔ سحرش نے آلو کی سبزی دسترخوان پر رکھی۔ ’’شاید اس نے غلطی سے ڈال دیا ہوگا۔‘‘ بات کو ختم کرکے سب کھانا کھانے لگے۔ دن گزرنے لگے اور سب نور کی حرکتوں سے واقف ہوگئے۔ کئی بار دسترخوان پر ایسی چیزیں دیکھنے کو ملتیں جن کا تصور ہی تصور سے باہر ہوتا۔ کھانے میں ہی نہیں دوسری چیزوں میں بھی نور کا دماغ بہت چلتا تھا۔ اپنے ساس کے سر کی مالش کرتے ہوئے نور کھانے کا تیل استعمال کیا کیونکہ بقول اس کے یہ بالوں کیلئے زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ اور اگلے دن ہی آمنہ بیگم کے سر میں چیونٹیوں کے کاٹنے کی وجہ سے جگہ جگہ زخم ہوچکے تھے۔ اور ایک بار گھر میں مکھیاں بہت بڑھ گئیں تو آمنہ بیگم نے ان کیلئے ایک خاص دوا منگوائی۔ لیکن اس کے بعد بھی مکھیاں کم نہیں ہوئیں۔ گھر میں سب پریشان تھے کیونکہ ہر طرف مکھیاں ہی دیکھنے کو ملتیں۔ صبح الارم کے بجائے مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے نیند بیدار ہوتی، کھانا کھاتے وقت، بناتے وقت مکھیاں ہی مکھیاں آس پاس منڈلاتی رہتیں۔ ایک دن آبان کسی کام سے بالکونی میں گیا تو اسے مکھیاں ہی نہیں بلکہ چیونٹیوں کی بھی فوج دیکھنے کو ملی اس کی نظر پھولوں کے گملوں کی طرف گئی۔ اس نے سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور چلا کر نور کو آواز لگائی، ’’یہ کیا ہے؟‘‘ غصہ سے لال چہرہ اور آواز میں بیزاری، ’’تم میں عقل کی اتنی کمی ہوگی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، پورے گھر میں سب پریشان ہیں ان مکھیوں سے اور تم.... تم انہیں روز شہد فراہم کرکے انہیں بڑھا رہی ہو۔‘‘ نور ڈر کے ماری سہمی اپنی صفائی پیش کرنے لگی، ’’وووہ نا! گملوں میں شہد ڈالنے سے پھول میں خوشب....‘‘ ’’بند کرو اپنی بکواس، گملوں میں شہد کون ڈالتا ہے؟ مہربانی کرو اور اپنے ان آئیڈیاز کو اپنے پاس ہی رکھا کرو، آئندہ میں کبھی اس طرح کی حرکتیں نہ کرو اور یہ سب جلدی سے صاف کرو۔‘‘حکم صادر کرتا وہ چلا گیا۔ آنکھوں میں آنسو لئے نور نے سب صاف کیا۔
آبان اور اس کے بڑے بھائی کا آفس سے گھر آتے وقت ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اور گھر پر تو گویا مصیبت کا پہاڑ ہی ٹوٹ گیا تھا۔ مہینے کے آخری روز ویسے بھی بچت کرکے گزارنے پڑتے اور ایسے میں یہ حادثہ.... جو بھی جمع کیا ہوا تھا ان دونوں کے علاج پر صرف ہوگیا تھا۔ آبان کے سر میں شدید چوٹ آئی تھی اور ذیشان کے پیر میں فریکچر آگیا تھا۔ دونوں گھر تو آگئے تھے مگر آفس جانے کے قابل ایک بھی نہیں تھا۔ آفس سے بھی مدد کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ کچھ دنوں پہلے ہی آمنہ بیگم کے آنکھ کے آپریشن کے لئے وہ لوگ مدد لے چکے تھے۔ اور ماہ رمضان میں بھی اچھی خاصی رقم وہ لوگ خرچ کرچکے تھے۔ گھر میں مایوسی اور غم نے قدم رکھا، بات یہاں تک پہنچ گئی کہ چاول دال بھی ناپ تول کر استعمال کرنا پڑھ رہے تھے۔ ان کے رشتہ دار بھی ان جیسے حالات سے دوچار تھے۔ مہینے کے آخر میں وہ بھی زیادہ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ گزرتے دن اداسی اور نا امیدی کی چادر اوڑھے گزر رہے تھے۔
نور ہال میں آئی جہاں گھر کے سبھی افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ وہ دن تھا جب مشکل سے رات کے کھانے جتنا راشن باقی رہ گیا تھا۔ باہر کا موسم بھی گرم ہو رہا تھا اور تیز ہوائیں باہر موجود گلاب کے پھولوں کو چھیڑ رہی تھی۔ وہ یہ سوچ کر آئی تھی کہ اب یہ اداسی کی چادر سمٹ جائے گی اور سب اس سے بہت خوش ہوں گے، ’’امی وہ.... مجھ.... مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔‘‘ نور نے ہچکچاتے ہوئے بات شروع کی۔ سب کی نظریں اس پر گڑی تھیں۔ آبان کے ساتھ جھگڑے کے بعد ہی یہ حادثہ پیش آیا تھا اور وہ اس میں اتنا الجھ کر رہ گئی تھی کہ ایک لمحے کیلئے بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔ اس کے سر پر کافی گہری چوٹ آئی تھی مگر ڈاکٹر نے کہا تھا آپریشن کی ضرورت نہیں۔ مکمل دیکھ بھال سے وہ ٹھیک ہوجائے گا۔ ’’دیکھئے مجھے آپ سب کو اس کے بارے میں پہلے ہی بتا دینا چاہئے تھا مگر اس دن جب میں نے آبان سے یوٹیوب چینل کی بات کی تھی تو انہوں نے سخت الفاظ میں منع کر دیا تھا مگر جب تک میرے کافی سبسکرائبرز ہوچکے تھے۔ میں شادی سے پہلے سے یہ کر رہی ہوں۔‘‘ نور سانس لینے کے لئے رکی اور کمرے میں موجود ہر فرد کے چہرے کا جائزہ لینے لگی، ’’مَیں نے جو بھی اوٹ پٹانگ حرکتیں کی ہیں وہ سب میرے ویورز کو پسند آئی ہیں۔ مجھے اس طرح چھپانا نہیں چاہئے تھا مگر میں ڈر رہی تھی کہ آپ مجھے منع کر دیں گے۔‘‘ نور کی آواز رندھنے لگی، ’’لیکن آج مجھے یوٹیوب کی طرف سے ایک بڑی پے منٹ آئی ہے۔‘‘ آنسوؤں کے درمیان اس نے مسکراتے ہوئے وہ پیسے اپنی ساس کے ہاتھ پر رکھے۔ ’’امی! پلیز آپ یہ رکھ لیجئے۔ مجھے پتہ ہے آپ اس کے خلاف ہوں گی مگر....‘‘ ساس نے ایک خفگی بھری نظر بہو پر ڈالی اور اس کے پیسے واپس کردیئے، ’’بی بی! ہمیں نہیں چاہئے۔ جیسے بھی ہے گزارا کر لیں گے۔ میں نے میرے بھائی سے کہا ہے کہ وہ ہمیں کچھ رقم ادھار دے دے۔‘‘ نور اپنی ساس کے اس جملے سے بجھ کر رہ گئی۔ اس کی ساس اور دیگر لوگوں کے چہروں پر چھائی ناپسندیدگی نے اس کے دل کے ہزار ٹکڑے کردیئے تھے۔
نور انہی اداس خیالات سے ابھرنے کی کوشش میں تھی کہ اچانک اس کے شوہر آبان نے کہا، ’’امی جان! میں جانتا ہوں کہ یہ سب آپ کی سوچ کے خلاف ہے مگر ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اس قسم کے اقدامات لازمی ہوجاتے ہیں۔ دوسری بات، رقم ادھار لینا ویسے بھی ہم سب کو ایک بوجھ تلے دبا دے گا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں نور کی بات مان لینی چاہئے۔‘‘ آبان کی والدہ نے ابھی کچھ کہنے کے لئے اپنے لبوں کو جنبش دی ہی تھی کہ نور درمیان میں بول پڑی، ’’اور تو اور امی جان، میں نے یہ کمائی کچھ اس طریقے پر کی ہے کہ نہ میری کوئی تصویر یا ویڈیو میرے چینل پر ہے نہ ہی میرا مکمل نام۔ بس مجھے بچپن ہی سے کچھ نیا کرنے کی عادت تھی اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے کچھ ویڈیوز اس چینل پر عام کئے ہیں، جو آج تک مجھے خود سمجھ میں نہیں آیا کہ ناظرین کو اتنے پسند کیوں آتے ہیں؟ اور مجھے اتنے لائیکس اور سبسکرائبرز کیوں ملتے ہیں؟ شاید انسان کی کچھ ہٹ کے کرنے کی جستجو ہی ہمارے جیسے لوگوں کے فن کو زندہ رکھتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر نور خاموش ہوگئی، اسے احساس ہوا کہ اس نے شاید کچھ زیادہ ہی بول دیا ہے۔ لیکن اسے حیرت تب ہوئی جب اس کی ساس اور گھر کے دیگر افراد مسکراہٹ لبوں پر سجائے اس کو دیکھ رہے تھے۔ گویا کہ آج گھر کی عدالت میں نور مقدمہ جیت چکی تھی۔ نور کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے جب اس کی ساس نے کہا، ’’شاید ہم لوگ ہی غلط تھے۔ ہم لوگ نور کی تخلیقی صلاحیت کو روایتی ذہن سے جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ جبکہ یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر آج تک انسان نے کامیابی حاصل کی ہے۔‘‘ یہ سب دیکھ کر نور دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی کہ آج نہ صرف یہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو سسرال میں پہلی بار پذیرائی ملی تھی بلکہ اس کو آئندہ کچھ انوکھا کرنے کا پروانہ بھی مل چکا تھا۔