• Tue, 04 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : وہ مجھ سے بہتر ہے

Updated: February 04, 2025, 4:29 PM IST | Maryam Bint Mujahid Nadwi | Mumbai

زندگی کا سارا غم صرف مجھے ہے اور باقی سب خوش ہیں؟ ایسا سوچنا ہماری غلطی ہے، اسی پہلو کو بیان کرتا افسانہ۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

’’کس کی شادی ہے؟‘‘ نجمہ نے پسینے سے تر چہرے کو اپنے دوپٹے سے پوچھتے ہوئے اپنی بھابھی سے پوچھا۔ موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ میں کچن سے باہر آنا کسی نعمت سے کم نہیں۔ ’’ارے بھابھی شادی کا کارڈ نہیں ہے، یہ تو میری بھابھی کی بہن کی نند الماس کی بیٹی ماہرہ نے نیٹ کا امتحان پاس کیا ہے بس اسی لئے ایک چھوٹی سی دعوت ہے۔‘‘ سچ میں! اتنی دورکا رشتہ پھر بھی دعوت دی انہوں نے! وہ بھی صرف ایک امتحان پاس کرنے پر! حیرت سے اپنی بھابھی کو تکتی نجمہ کو اپنی بیٹی کی شادی یاد آگئی جس میں وہ کتنے کم لوگوں کو دعوت دے پائی تھی اور یہ تو صرف امتحان پاس ہونے کی خوشی میں اتنی بڑی دعوت دے رہی ہے۔ نجمہ بھی ہمیشہ سے اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتی تھی لیکن اس کے پیچھے اور چار بیٹیوں کی تعلیم کا بوجھ وہ نہیں اٹھا سکتی تھی۔ نجمہ اپنی بھابھی کی باتیں سنتے سنتے اپنا مؤازنہ الماس سے کر رہی تھی۔ اپنی بھابھی کے جانے کے بعد نجمہ کتنی دیر تک اپنی قسمت کو کوس رہی تھی۔ اپنی ہر ایک کمی کو شمار کرتے کرتے نہ جانے وہ کب نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔

 ’’ماہرہ خدا کیلئے ایسی باتیں مت کرو۔‘‘ ۲؍ گھنٹے سے الماس اپنی بیٹی کو سمجھا رہی تھی لیکن وہ بضد تھی۔ ۳۰؍ ہزار کا فراک ماہرہ کو بہت ہی سستا لگ رہا تھا۔ اور اسے وہ ۲؍ لاکھ کا امپورٹڈ لہنگا ہی چاہئے تھا تاکہ لوگوں کو معلوم بھی ہو کہ اس نے نیٹ پاس کیا ہے اور وہ سب سے مختلف لگے۔ الماس اور واصف پہلے ہی پریشان تھے کیونکہ ان کے بچے کبھی امریکہ تو کبھی کسی ملک کی سیر پر ہوتے جس میں کافی پیسہ خرچ ہو رہا تھا اور پھر ان کی پڑھائی پر بھی بہت پیسہ خرچ ہو رہا تھا۔ مہنگے اداروں میں تعلیم پھر ٹیوشن کی بھاری فیس، یہ بوجھ ان کے لئے بہت تھا اور ان کے بیٹے بھی کاروبار سنبھالنے کے بجائے گھومنے پھرنے میں وقت ضائع کر رہے تھے۔ کاروبار میں نقصان کی وجہ سے واصف پر پہلے ہی بہت قرض بڑھ چکا تھا۔ جس وجہ سے اس کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ مگر اسکے بچوں کو اس کی صحت کی کوئی فکر نہیں تھی۔ الماس نے ہر طریقے سے اپنے بچوںکو سمجھانے کی کوشش کر چکی تھی مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ آخر انہیں ۲؍ لاکھ کا لہنگا ہی لینا پڑا جس کی وجہ سے وہ قرض کے سمندر میں اور نیچے چلے گئے۔

 ’’کب سے تیار ہو رہی ہو؟ دیر ہورہی ہے ویسے بھی تم کتنا بھی اپنے اس چہرے پر تھوپ لو، کوئی تبدیلی تو آنے سے رہی....‘‘ آبان یہ کہہ کر باہر چلا گیا۔ اب تک تو فاطمہ کو اس کے طنز کی عادت ہوجانی چاہئے تھی مگر آبان کا ہر طنز اسے نئے سرے سے تکلیف دیتا۔ آئینے کے سامنے بیٹھی فاطمہ اپنا اداس چہرہ اور ٹوٹا دل لے کر دروازہ تکتی رہی۔ اس کی شادی آبان سے صرف دادا کی مرضی سے ہوئی تھی۔ گھر میں کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ ایسا ہو اور نہ ہی کسی نے سوچا تھا کہ ایسا ہوگا۔ مگر اس میں سب سے زیادہ نقصان فاطمہ کا ہی ہوا تھا۔ ہر وقت طعنے سنننے کو ملتے۔ اس کا گھر بہت کشادہ تھا مگر وہاں رہنے والوں کے دل بہت چھوٹے تھے۔ وہ کبھی کبھی سوچتی کہ کاش اس کی شادی اس عالیشان گھر میں ہونے کے بجائے ایک معمولی سے گھر میں ہوتی تو وہ بھی ان میں گھل مل جاتی مگر جہاں وہ آج کھڑی تھی تو اسے ایسا لگتا کہ وہ موتیوں کے بیچ میں ایک کالا پتھر ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہے، کیونکہ اس گھر میں ہر چیز کی قدر اس کی قیمت کے ذریعہ طے کی جاتی تھی اس کے اندر موجود اچھائی کے ذریعہ نہیں۔ اور یہی وجہ تھی کہ آبان اسے کسی تقریب میں اپنے ساتھ نہیں لے کر جاتا کیونکہ وہ اس کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھی۔ لیکن اس بار الماس جو اس کی بیسٹ فرینڈ اور آبان کی کزن بھی تھی، نے بہت اصرار کیا تھا کہ اس تقریب میں ضرور آنا۔
 جب فاطمہ خیالات کی اس دنیا سے واپس لوٹی تو اس نے محسوس کیا کہ چند آنسو اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے تھے اور اس کی آنکھوں میں کاجل پھیل کر اس کے رخساروں پر آبشار کی طرح بہہ نکلا۔ انہیں ضبط کرنے اور اپنی آوازوں کا گلا گھونٹنے کیلئے اس نے اپنا دوپٹہ منہ میں ٹھوس دیا۔ کچھ ثانیے بعد اس نے باتھ روم کا رخ کیا۔ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے منہ پر مار کر اس نے اپنا میک اپ پھر سے شروع کردیا کہ یہ اس کی مجبوری تھی۔ اس نے سوچا کہ کہنے والے نے غلط کہا تھا: زندگی زندہ دلی کا نام ہے بلکہ زندگی اک مجبوری کا نام ہے۔ اور یہ سوچ کر وہ پھر سے تیاری میں لگ گئی۔

 پارک ہال اس شہر کا سب سے اچھا ہال تھا۔ جہاں آج قمقموں اور جگمگاتی لائٹوں نے سماں باندھ دیا تھا۔ جہاں آج چہل پہل کچھ زیادہ ہی تھی کیونکہ واصف بدلانی کی لاڈلی بیٹی نے نیٹ پاس کیا تھا۔ جس میں ہر خاص و عام مدعو تھا۔ فاطمہ اپنا میک اپ دوبارہ فکس کر چکی تھی اور اس انجانی محفل میں گھلنے ملنے کی کوشش میں لگ گئی تھی۔ حالانکہ مدعوئین سے تعارف کے دوران اسے ایک عجیب سا احساس گھیر لیتا تھا کہ وہ اس بہت بڑے ہجوم میں بھی بالآخر اک اجنبی ہی ہے۔ بہرحال اس نے اپنا دھیان اپنے وجود سے دوسری جگہ منتقل کرنا چاہا تو اسے سامنے نجمہ آتی دکھائی دی۔ نجمہ اس کی اسکول کی سہیلی تھی۔ دوسروں کے جھلملاتے ہوئے چہروں میں اس کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کر اس نے سوچا کہ اسے کیا تکلیف ہوسکتی ہے۔ واجبی شکل و صورت اتنی پیاری فیملی اور واجد بھائی بھی کتنی عزت کرتے ہیں۔ نجمہ اس کی طرف ہی آرہی تھی۔ نجمہ نے فاطمہ کے پرشکوہ ہیئر اسٹائل اور اس قدر جگمگاتے ہوئے کپڑے اور میک اپ سے تر چہرے میں اور کاجل سے لدی آنکھوں میں اداسی کے جگنو دیکھے تو اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کس چیز کی کمی ہوسکتی ہے، عالیشان گھر اتنے امیر لوگ.... اور اس سے پہلے کہ وہ اپنا موازنہ اس کی زندگی سے کرتی الماس ان دونوں کے قریب آئی۔ سلام دعا کے بعد اس نے ان سے تحفے لئے۔ اتنے میں نجمہ کی بیٹی بھاگتی ہوئی آئی اور آئس کریم دلانے کیلئے کہا۔ نجمہ نے اسے منع کر دیا الماس کچھ کہنے ہی والی تھی کہ وہ بچی بغیر ضد کئے واپس کھیلنے چلی گئی۔ وہاں سے دوسرے مہمانوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اس نے بڑے باکمال طریقے سے واصف کی خراب طبیعت کی فکر، اتنا بڑھا ہوا قرض اور نافرمان بچوں کے غم کو ایک مسکراہٹ سے چھپانے کی نہایت کامیاب کوشش کی تھی۔ ادھر پیچھے نجمہ سجاوٹ اور ماہرہ کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اس کی زندگی تو پھول کی طرح ہے مگر اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ اگر زندگی پھول کی مانند ہے تو اس میں کانٹے لازمی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK