سمیر دوربین سے اطراف کے علاقے پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اچانک اسے دور سمندر میں ہلچل نظر آئی اور بڑی کشتی کا اوپری حصہ دکھائی دیا۔ سمیر نے خطرہ جان کر فوراً کیپٹن سے رابطہ کیا اور الرٹ کا سائرن بجا دیا۔ لوگ بچاؤ کے لئے تیار ہوگئے۔
EPAPER
Updated: November 25, 2024, 12:45 PM IST | Prof Zohra Modak | Mumbai
سمیر دوربین سے اطراف کے علاقے پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اچانک اسے دور سمندر میں ہلچل نظر آئی اور بڑی کشتی کا اوپری حصہ دکھائی دیا۔ سمیر نے خطرہ جان کر فوراً کیپٹن سے رابطہ کیا اور الرٹ کا سائرن بجا دیا۔ لوگ بچاؤ کے لئے تیار ہوگئے۔
اوشین شپنگ کمپنی کا جہاز ’’اوشی‘‘ پوری رفتار سے سمندر کے پانی کو چیرتا ہوا منزل کی طرف گامزن تھا۔ آسمان پر نمودار ستاروں نے پانی کو نقرئی پیراہن عطا کر دیا تھا۔ پُر شور لہریں جہاز کے ڈیک (عرشے) پر ٹکرا ٹکرا کر سمندر کی قوت کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ کیڈیٹ سمیر عرشے پر کھڑا ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔ دور بین سے سمندر کے حالات کا جائزہ لے رہا تھا۔ چہرے پر ڈیوٹی سے نالاں ہونے کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔ اسے سمندری سفر اور جہازوں سے سخت نفرت تھی۔ وہ کیڈیٹ بن کر بحریہ کا حصہ بنے گا یہ اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ مگر حالات کے دھاروں نے اس کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا تھا۔ والدین کی محبت اور فرمانبرداری اسے اس پیشے میں لے آئی۔
اس کے والد انڈین بحریہ کے بڑے آفیسر تھے اور سمیر کو اسی پیشے میں آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ تینوں بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹا تھا۔ بڑا بھائی تمکین انجینئر تھا۔ منجھلا سہیل ڈاکٹر۔ دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی پسند پوری کر لی۔ برق سمیر پر گری۔ وہ تو کیٹرنگ کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا۔ دراصل چھوٹا اور ماں کا لاڈلا ہونے کی وجہ سے وہ ماں کے ساتھ باورچی خانہ میں زیادہ وقت گزارتا تھا۔ ماں کا ہاتھ بٹاتے بٹاتے اس کے دل میں کھانا پکانے کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ ماں کی نگرانی میں وہ کھانا پکانے میں ماہر ہوگیا۔ شوق اور مہارت دونوں نے مل کر اسے کیٹرنگ میں داخلہ لینے کا جنون پیدا کر دیا مگر ماں باپ اور خاندان کے عزیز و اقرباء نے اس کا خوب مذاق اڑایا، ’’اب تم باورچی بنو گے اور ہمارے نام پر بٹہ لگاؤ گے۔ ‘‘ سمیر کے لاکھ سمجھانے پر کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ حکم صادر کر دیا گیا کہ وہ شیپنگ کمپنی میں کیڈیٹ کے طور پر انٹرویو دے گا۔ شوق فرمانبرداری کی بھینٹ چڑھ گیا۔ انٹرویو ہوا اور کامیابی کے بعد اوشی جہاز پر بحیثیت کیڈیٹ اس کا تقرر ہوگیا۔
یہاں اسے تمام آفیسروں کے احکام بجا لانے ہوتے تھے۔ انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ کبھی کبھی وہ جھنجھلا جاتا مگر مرتا کیا نہ کرتا والا معاملہ تھا۔ اس وقت کافی رات گزر چکی تھی نیند سے اس کی آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں مگر کیپٹن شرما کا آرڈر تھا کہ جاگتے رہو اور مستعد رہو۔ دراصل جس سمندری حصے سے ان کا جہاز گزر رہا تھا بڑا خطرناک علاقہ تھا۔ یہاں سمندر میں سمندری قزاقوں کے حملوں کا خطرہ تھا۔ یہ قزاق موقع پاتے ہی جہازوں پر ٹوٹ پڑتے تھے اس یمنی سمندر میں سومالی قزاق زیادہ خطرناک تھے۔ یہ لوگ اچانک حملہ کرکے جہاز اور اس کے عملے کو قید کر لیتے تھے۔ مزاحمت کرنے پر جان سے مار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ جہاز اور اس کے عملے کو ہتھیاروں کے زور پر ان کے علاقوں میں لے جا کر رہائی کے لئے کمپنی سے کروڑوں روپیوں کی مانگ کرتے تھے۔ نہ ملنے پر عملے کے لوگوں پر ظلم کی انتہا کرکے ان کو قریب المرگ کر دیتے۔ اگرچہ سمندر میں بچاؤ کرنے والی کوسٹ گارڈ کشتیاں بھی تھیں مگر قزاق ان پر نظر رکھ کر موقع پا کر ہی حملہ کرتے تھے۔ اسی لئے کیپٹن شرما فون کرکے سمیر کو احکامات دیئے جا رہے تھے۔
سمیر دوربین سے اطراف کے علاقے پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اچانک اسے دور سمندر میں ہلچل نظر آئی اور بڑی کشتی کا اوپری حصہ دکھائی دیا۔ سمیر نے خطرہ جان کر فوراً کیپٹن سے رابطہ کیا اور الرٹ کا سائرن بجا دیا۔ لوگ بچاؤ کے لئے تیار ہوگئے۔ سمیر نے بھی اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ مگر یہ کیا؟ تھوڑا نزدیک آنے پر کشتی کے ’’کوسٹ گارڈ‘‘ کا پرچم صاف دکھائی دینے لگا۔ اس نے کیپٹن کو خبردار کیا اور خطرہ ٹل جانے کا سائرن بجا دیا۔ زندگی کے اس پہلے مرحلے پر اس نے اطمینان کی سانس لی۔ کوسٹ گارڈ کے ایک افسر کا سفید یونیفارم صاف نظر آرہا تھا۔ بالکل نزدیک آنے پر آفیسر نے عرشے پر آکر سمیر سے ہاتھ ملا کر پوچھا، ’’کوئی خطرہ تو نہیں ؟‘‘ کبھی کبھار ایک دو قزاق ہی جہاز پر آتے تھے اور کیپٹن کو قابو میں کر جہاز کو ان کے علاقوں کے سمت موڑنے پر مجبور بھی کرتے تھے۔ سمیر نے نفی میں جواب دے کر حیرت سے آفیسر کی جانب دیکھا جو کوئی مرد نہیں بلکہ ایک خوبرو دوشیزہ تھی۔ ’’اس اوشی جہاز کے کیپٹن رانا ہیں کیا؟‘‘
اس نے جواب میں بتایا کہ ’’کیپٹن شرما جہاز کے کیپٹن ہیں۔ ‘‘ آفیسر نے سمیر سے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنا نام ’پیاری‘ بتایا۔ کہنے لگی عام طور پر چونکہ اوشین کمپنی کے جہاز بہت قیمتی سامان سے لدے ہوتے ہیں، قزاقوں کے لئے منافع بخش ہوتے ہیں اس لئے قزاقوں کے حملے کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
سمیر نے کبھی کسی خاتون کوسٹ گارڈ کے بارے میں نہیں سنا تھا اس لئے ہمت کرکے پوچھ بیٹھا کہ ’’آپ نے اس مشکل پیشے کو کیوں چنا؟‘‘
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ، ’’میری کہانی تو بڑی عجیب ہے۔ سمیر کو اب دلچسپی پیدا ہورہی تھی کہ اس آفیسر کی کہانی جان لے۔ سمیر نے کہا، ’’مَیں آپ سے جاننے کا خواہشمند ہوں۔ ‘‘ مسکراتے ہوئے اس نے کہنا شروع کیا، ’’پانچ سال پہلے میں اوشی جہاز کے کیپٹن رانا کی شریک حیات ان کے ساتھ اسی جہاز پر سفر کر رہی تھی۔ کیپٹن رانا سے میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ کیپٹن رانا کے والد اور میرے پاپا بڑے گہرے دوست تھے۔ دونوں خاندانوں میں بڑی محبت تھی۔ ہمیشہ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ مَیں اور رانا دونوں اپنی اپنی تعلیم مکمل کرنے میں مشغول تھے۔ ہم دونوں کے مزاج ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ میں مشرقی تہذیب کی پروردہ ایک سیدھی سادی لڑکی تھی اور وہ مغربی تہذیب پر جان دینے والی اسمارٹ نوجوان۔ ان کے والدین جب میرا رشتہ مانگنے آئے تو میں بہت جزبز ہوئی۔ میں نے اپنے والدین سے دبے دبے لہجہ میں اس رشتے سے انکار کیا۔ کیپٹن رانا بھی اس رشتے کے خلاف تھے۔ وہ کالج کے زمانے ہی سے ان کی ساتھی ’مونا‘ سے محبت کرتے تھے اور اسے اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتے تھے۔ ہم دونوں کے لاکھ انکار کے باوجود ہمیں شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا۔ شادی کے بعد رانا مجھ سے کھنچے کھنچے ہی تھے۔ مَیں نے ہر مشرقی لڑکی کی طرح اسے اپنی قسمت کہہ کر قبول کر لیا۔ چھٹی ختم ہونے پر انہیں جہاز پر جانا تھا۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب انہوں نے ان کے ماں باپ سے مجھے جہاز پر لے جانے کی اجازت مانگی۔ میری خوشی کی بھی انتہا نہ تھی۔ ان کے ساتھ رہنے کا تصور ہی میرے لئے کافی تھا۔ جہاز پر ہماری آمد پر کیپٹن رانا کی شادی کی خوشی میں تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ مجھے پھولوں اور تحفوں سے لاد دیا گیا۔ رانا کے مزاج میں بڑی تبدیلی آگئی تھی ان کی محبت پا کر میں سرشار ہوگئی۔ جہاز کا عملہ ہماری محبت کا امین بن گیا۔ دن رات مسرتوں کے داعی بن گئے۔ پھر وہ رات مجھے آج بھی یاد ہے۔ ہمارا جہاز اسی یمنی سمندر کو پار کر رہا تھا۔ چاندنی رات نے سمندر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیئے تھے۔ رانا اور میں اس خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے ڈیک پر چلے آئے۔ ریلنگ پر جھکے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہم کھو سے گئے۔ ہوائیں میرے بالوں کو منتشر کر رہی تھیں۔ رانا پیچھے مڑے اور میرے بالوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر سلجھانے لگے۔ اس سے پہلے کہ مَیں مڑتی مَیں سمندر کی لہروں کی لپیٹ میں ڈوب رہی تھی۔ مَیں چلّائی، ’’رانا مجھے بچا لو، رانا مجھے بچا لو۔ ‘‘ مجھے یقین تھا کہ وہ مجھے بچا لیں گے مگر صرف ایک زبردست قہقہہ سننے کے بعد مَیں ڈوب گئی۔ آج بھی مَیں اوشی جہاز پر اُن کے منصوبہ بند دھوکے کا انتقام لینے آئی ہوں اور میری یہ تلاش جاری رہے گی۔ ‘‘سمیر کو اس پر بڑا رحم آیا۔ اس نے نظریں اٹھائیں اور اسے دلاسہ دینے کے لئے آگے قدم بڑھایا مگر یہ کیا! وہاں نہ کوئی دوشیزہ تھی اور نہ ہی سمندر میں کوئی کشتی۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ چیف آفیسر کے کیبن میں لوگوں کے درمیان تھا جو اسے بیہوش پا کر ڈیک سے اٹھا لائے تھے اور یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ تھکان کی وجہ سے وہ بیہوش ہوگیا تھا۔ وہ رات کا واقعہ سنا کر مذاق کو موضوع بننا نہیں چاہتا تھا مگر سوچوں میں گم تھا کہ وہ کون تھی؟ خواب، حقیقت یا دھوکہ؟ اُس کی بے ربط سوچوں کو کیپٹن شرما کے فون اور احکام نے دور کر دیا اور وہ بوجھل قدموں سے ڈیوٹی انجام دینے چل پڑا۔
(افسانہ نگار برہانی کالج، ممبئی سے وابستہ رہی ہیں )