• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ : یاد کا بوڑھا شجر

Updated: June 20, 2024, 1:46 PM IST | Quratul Ain Khurram Hashmi | Mumbai

’’ابا جان کہاں ہیں؟‘‘ صبا نے آہستگی سے پوچھا تھا کیونکہ بڑی بھابھی غضب ناک تیوروں سے اسے گھور رہی تھی۔ ’’آگیا تمہیں بڑے میاں کا خیال؟ پتا بھی ہے کہ بڑے میاں پچھلے کئی دنوں سے شدید بیمار ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

’’ابا جان کہاں ہیں؟‘‘ صبا نے آہستگی سے پوچھا تھا کیونکہ بڑی بھابھی غضب ناک تیوروں سے اسے گھور رہی تھی۔ ’’آگیا تمہیں بڑے میاں کا خیال؟ پتا بھی ہے کہ بڑے میاں پچھلے کئی دنوں سے شدید بیمار ہیں۔ ڈاکڑ نے انہیں مکمل بیڈ ریسٹ بتایا ہے مگر وہ ہیں کہ کچھ سنتے ہی نہیں! تھوڑی طبیعت بہتر ہوتی ہے چھڑی کے سہارے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے، پرانے اسٹور روم میں پہنچ جاتے ہیں۔ اللہ بخشے ضرور تمہاری مرحومہ اماں جان نے کوئی خزانہ یا راز وہاں چھپایا ہوگا۔ جس کی خبر صرف بڑے میاں کو ہی ہے تبھی بڑے میاں گھنٹوں وہاں کچھ نہ کچھ تلاش کرتے رہتے ہیں اور سمجھدار اتنے ہیں کہ کچھ پوچھو تو خاموشی کی چادر اوڑھے ٹکر ٹکر چہرہ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘ صبا نے گہری سانس لے کر اس کے چہرے پر سے نظر ہٹائی تھی۔ لوگوں کو اکثر احساس نہیں ہوتا ہے کہ غصہ اور نفرت اچھے بھلے چہرے کے نقوش بگاڑ کر اسے خوفناک بنا دیتے ہیں۔ ’’میں ابا میاں کو دیکھتی ہوں!‘‘ صبا وہاں سے خاموشی سے اٹھ کر اس بڑے سے گھر کے کونے میں بنے پرانے اسٹور روم میں چلی آئی جہاں اماں کے زمانے کا پرانا سامان اور فرنیچر پڑا اپنی مدت پوری کر رہا تھا۔
 پیلے بلب کی روشنی میں صبا نے، سفید کپڑوں میں ملبوس، اپنے کمزور اور نحیف ہاتھوں سے ادھر ادھر پڑی چیزیں ہٹاتے کچھ ڈھونڈتے، ابا میاں کو اداسی سے دیکھا تھا۔ صبا نجانے پچھلے کتنے برسوں سے اپنے باپ کو کسی ان دیکھی چیز کی تلاش میں برف کی سل کی طرح قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھ رہی تھی۔ تلاش کا سفر ظاہری مسافت رکھتا ہو یا باطن کی تہہ در تہہ پرتیں کھولتا ہو۔ اس میں وجود، جسم ایسے ہی گھلتے ہیں جیسے تیز دھوپ میں پگھلتی برف! تلاش اپنا خراج فنا کی صورت میں لیتی ہے۔ اب یہ فنا کس پیمانے پر اور کتنی تیزی سے ہوتی ہے یہ اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے! اپنی اپنی چاہ پر منحصر ہوتا ہے۔ جس کی جتنی چاہت ہوگی اس کا حاصل بھی اتنا ہی ہوگا۔ ’’ابا جان! کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟‘‘ صبا نے نرمی سے باپ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔ ابا جان نے چونک کر خالی خالی نگاہوں سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔ اس وقت ابا جان کے چہرے پر اتنی بے بسی تھی کہ صبا کا دل تڑپ کر رہ گیا۔
 ’’ابا جان! کیوں اپنے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اذیت دے رہے ہیں؟ سب کہتے ہیں کہ آخری عمر میں پروفیسر صاحب کسی ذہنی مرض کا شکار ہوگئے ہیں مگر ابا جان! دنیا چاہے کچھ بھی کہے مگر ایک بیٹی کا دل جانتا ہے کہ اس کا باپ پاگل نہیں ہے! بھلا جو شخص آج بھی ماضی حال کی سب سمجھ بوجھ رکھتا ہو۔ آج بھی اپنے طالب علموں میں علم کا خزانہ بانٹتا ہو، ایسا شخص بھلا ذہنی طور پر ناکارہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نہیں جانتی کہ آپ کی تلاش کیا ہے؟ آپ کی زبان تک یہ سچ کیوں نہیں آتا ہے مگر ابا جان میں آپ کو اتنا بے بس اور لاچار بھی نہیں دیکھ سکتی ہوں! زندگی میں وہ مقام بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب ہم اپنے پیاروں کو بے بسی کی سرد تہہ میں لمحہ بہ لمحہ اترتے دیکھتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کر پاتے ہیں۔‘‘ صبا نے روتے ہوئے باپ کے جھریوں بھرے کمزور ہاتھوں کو تھاما تھا۔ ابا جان نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا اور اس کا سر تھپکتے ہوئے کمزور لہجے میں بولے تھے، ’’مَیں نے تمہاری اماں کو لیدر کا ایک چھوٹا بیگ دیا تھا جس میں....‘‘ اسی وقت آہٹ ہوئی تو دونوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا، جہاں پر تجسس نظروں سے دیکھتی کان لگائے، بڑی بھابھی کھڑی تھی۔ ان دونوں کے دیکھنے پر گڑبڑا کر غصے سے بولی تھی، ’’اچھا تو بڑے میاں نے گاؤں والی زمین کے کاغذ کسی لیدر کے بیگ میں چھپائے ہوئے ہیں۔ مجھے پہلے ہی شک تھا کہ زمیں کے کاغذ گم ہونے والی بات سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ دیکھو ذرا خدمت ہم لوگ کریں اور سارا اثاثہ بیٹی لے جائے۔ واہ جی کیسا انصاف کیا بڑے میاں نے۔‘‘ بڑی بھابھی تیز تیز بولتی ہوئی وہاں سے چلی گئی مگر صبا جانتی تھی کہ یہ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوگی۔
 ایسا ہی ہوا شام تک عدالت لگ چکی تھی اور فرد جرم اس پر عائد کرتے ہوئے اسے سب کچھ سچ سچ بتانے کو کہا تو وہ افسردگی سے مسکرا کر اپنے بڑے بھائی سے بولی تھی، ’’بھائی! ابا جان نے بہت پہلے ہی اپنے سب اثاثے، اپنا سب کچھ ہم تینوں بہن بھائیوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ احمد بھائی اپنا حصہ لے کر دبئی جا چکے ہیں، رہ گئے آپ اور میں تو ہمارے پاس بھی اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ جہاں تک گاوں والی زمین کی ملکیت کی بات ہے تو ابا جان بہت سال پہلے ہی اس زمین کو گاوں کے بچوں کے اسکول کیلئے وقف کرچکے ہیں۔ پھر ایسی بات کرنے یا سوچنے کا کیا فائدہ؟‘‘
 ’’ہاں میں جانتا ہوں مگر وہ تمہاری بھابھی کہہ رہی تھی کہ....‘‘ بڑے بھائی نے شرمندہ لہجے میں کچھ کہنا چاہا تھا۔ ’’بھائی ہر رشتہ اپنی اپنی جگہ پر سچ اور جھوٹ کے تناسب سے مل کر ہی بنتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ کس رشتے میں کتنا سچ ہے اور کس رشتے میں کتنا جھوٹ، اس کا فیصلہ ہر خردمند انسان خود کرتا ہے۔‘‘
 اس رات صبا کو ابا جان کی بگڑتی حالت کے پیشِ نظر وہاں رکنا پڑا۔ ابا جان تین دن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے اور پھر ایک صبح خاموشی سے خالق ِ حقیقی سے جا ملے۔ موت کی آہٹ سے پھیلا سناٹا، دل کی ہر رگ میں اپنے پنجے بہت اندر تک گاڑ دیتا ہے کہ ایک بار ہی سہی مگر موت کی اذیت سارے جسم میں جمود طاری ضرور کر دیتی ہے۔ مگر اس دل چیرتے سناٹے کو زندگی کی ایک چہکار ہی درہم برہم کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے، شاید زندگی کی تیز رفتاری اسی لئے ہے کہ اپنے پیاروں کی موت کے غم کو کسی حد تک بھلایا جا سکے، موت کی سرد چاپ سے، زندگی کی آہٹ کشید کی جاسکے۔ ابا جان سے محبت کرنے والے، انہیں یاد کرنے والے بہت سے لوگ اور بھی تھے جن کی تربیت اور کامیابی میں ابا جان کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ وہ لوگ بھی اپنے پیارے اور شفیق استاد کی موت کا افسوس کرنے جوق در جوق آرہے تھے۔
 ’’پروفیسر صاحب جیسے نیک لوگ بہت کم ہوتے ہیں، میں ایسے بہت سے غریب اور مستحق طالب علموں کو جانتی ہوں، جن کی تعلیم کا خرچ پروفیسر صاحب نے بخوشی اٹھایا ہوا تھا۔‘‘ وہ خاتون کافی دیر سے وہاں بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔ ابا جان کو آج اس دنیا سے گئے ہوئے دس دن گزر چکے تھے۔ ’’ویسے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی....! سنا ہے کہ پروفیسر صاحب آخری دنوں میں عجیب بہکی بہکی باتیں کرتے تھے؟ کیا سچ میں وہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوگئے تھے؟‘‘ اس عورت کے پوچھنے پر بڑے بھائی افسوس بھرے انداز میں بولے تھے، ’’جی بس! آخری دن ان کے کچھ ایسے ہی گزرے ہیں۔ بس اللہ کی جو مرضی....‘‘ صبا نے ایک نظر سامنے بیٹھے، ذی ہوش لوگوں پر ڈالی تھی۔ جو کتنی آسانی سے کسی کو پاگل ہونے کا سرٹیفکیٹ دے رہے تھے۔ ان لوگوں کے پاس اس بات کا کامل یقین تو تھا کہ ابا جان ذہنی مریض بن گئے تھے مگر اس بات کے پیچھے کون سے عوامل تھے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی۔ صبا کسی سے کیا کہتی کیونکہ یہ بھی سچ ہے کہ ابا جان پچھلے کچھ برسوں سے کسی گمشدہ چیز کی تلاش میں پریشان ریتے تھے۔ پہلے پہل ابا جان کی تلاش کی کسی کو خبر نہیں ہوئی، کیونکہ وہ یہ کام بہت خاموشی سے کرتے تھے اور سب اپنی اپنی زندگی میں اتنے مگن اور گم تھے کہ ابا جان کے معمولات میں تبدیلی آنے کی خبر نہیں ہوئی۔ مگر جب ابا جان کی تلاش میں تیزی اور شدت آنی لگی تو سب چونک پڑے۔ سارے گھر میں اماں کی وفات سے کچھ پہلے ہی نیا سامان لایا گیا تھا۔ اماں کے زمانے کی سب چیزوں کو پرانا کہہ کر گھر کے سب سے آخر والے کونے میں بنے اسٹور روم میں پہنچا دیا تھا۔ ان دنوں ابا جان، اماں کی بیماری سے بہت پریشان اور حواس باختہ تھے کہ کسی اور بات کا ہوش ہی نہیں رہا تھا اور پھر اماں کی وفات کے کچھ عرصے بعد تک ابا جان گم سم رہے مگر پھر نجانے انہیں کیا یاد آیا کہ وہ بے چین ہو کر پرانی چیزیں کھنگالنے لگے۔
 اپنی تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے پہلے یہ کام چھٹی والے دن کرتے تھے۔ مگر جب ابا جان اپنی اس ذمہ داری سے بھی سبکدوش ہوگئے تو وہ اکثر ہی پرانے اسٹور روم میں پائے جانے لگے تھے۔ پہلے اس بات کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کر دیا گیا مگر آخر کب تک....! گھر کی دونوں بہوئیں روز روز کی اس تلاش سے چڑنے لگی تھیں کیونکہ ابا جان اکثر گھر کے بچوں کو بھی اپنے ساتھ سامان اٹھانے یا گھسیٹنے میں لگا لیتے تھے۔ بچے یہ کام بہت شوق سے کرتے اور اتنے ہی شوق سے ان کی مائیں، اس بات پر ان کی پٹائی کرتی تھیں۔ ان دنوں چھوٹے بھائی باہر جا چکے تھے اور بہت جلد اپنے بیوی، بچوں کو بھی اپنے پاس بلانے والے تھے۔ وہ وقت بھی بہت جلد آ گیا، جب نظر کے سامنے رہنے اور بسنے والے، پردیسی بن گئے۔ ابا جان کا آنگن بہت سی آوازوں سے خالی ہوگیا تھا۔ ابا جان کی تلاش میں اب شدت آتی جا رہی تھی۔
سردی ہوتی یا شدید گرمی، وہ موسم کی سختی کی پرواز کئے بغیر، اسٹور روم میں پہنچ جاتے اور اپنی زندگی کے آخری دنوں تک بھی یہ لگن لگی رہی۔ جو ان کے ساتھ ہی مٹی کا حصہ بن گئی تھی۔
 آج دو مہینے کے بعد صبا پھر اسی پُرانے اسٹور روم کے دروازے پر نم آنکھیں لئے کھڑی تھی۔ اسٹور کا سب سامان کاٹھ کباڑ والوں کو بیچا جا چکا تھا جو تھوڑا بہت باقی تھا وہ بھی ردّی کے بھاؤ بیچا جا رہا تھا۔ جب اس سامان کو استعمال کرنے والے اپنے پیارے اور عزیز لوگ ہی زندہ نہ ہوں تو اس سامان کی کیا اہمیت رہ جاتی تھی۔
 مگر نجانے کیوں صبا کو آج بھی ہر چیز پر اپنے والدین کا شفیق لمس محسوس ہو رہا تھا۔ وہ آج بھی گزرے لمحوں کے لہراتے سائے، پُرانے در و دیوار پر دیکھ رہی تھی۔ اماں اور ابا  جان نے کبھی بہت محبت اور چاہ سے یہ سب بنایا تھا۔ جو آج اتنی بے دردی سے کوڑیوں کے دام بک رہا تھا۔ شاید یہ ہی زمانے کا چلن ہے پرانی چیزوں کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں۔ مگر کیا یادوں کی جگہ بھی کوئی چیز لے سکتی ہے؟ یہ بیٹیاں بھی ناں! ہمیشہ ماں باپ کے آنگن سے وابستہ ہر چیز سے گہری محبت اور وابستگی رکھتی ہیں۔ بابل کے آنگن کی آس اور امید ہمیشہ ان کے دل کو گھیرے رکھتی ہے مگر آج صبا کی یہ آس بھی کہیں کھو گئی تھی۔ صبا نے ڈوپٹے کے پلو سے اپنی نم آنکھوں کو آہستگی سے صاف کیا اور خاموشی سے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
 جب سامان کو اٹھواتے، بڑے بھائی کی نظر اس پر پڑی تو وہ اپنی خجالت چھپانے کے لئے بولے، ’’مَیں نے تو بار بار تمہیں کہا تھا کہ اگر ان چیزوں میں سے تم کچھ لینا چاہو تو شوق سے لے جاؤ مگر تم نے منع کر دیا۔‘‘
 ’’جی بھائی مَیں نے کب کہا کہ آپ نے مجھے روکا ہے کسی بات سے!‘‘ صبا نے نرمی سے ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا جیسے کسی اپنے کے عیب پر پردہ ڈال کر اسے معتبر بنانا چاہ رہی ہو اور یہ ہنر بھی اس نے اپنے والدین سے ہی سیکھا تھا۔
 ’’دیکھو نہ صبا ہم خوامخواہ، ایسے ہی ابا جان پر شک کرتے رہے۔ اسٹور خالی کروایا تو سامان کے نیچے سے لیدر کا یہ بیگ مل ہی گیا اور مزے کی بات ہے اس میں کچھ بھی خاص نہیں ہے۔ سوائے کچھ پرانے حساب، کتاب کے! ابا جان بھی ناں۔ پتا نہیں کیوں اسے ڈھونڈتے رہتے تھے۔‘‘
 بڑی بھابھی نے کھوکھلی سی ہنسی ہنستے ہوئے ہاتھ میں پکڑا بیگ اس کی طرف بڑھایا تھا۔ جسے صبا نے خاموشی سے تھام لیا اور افسردہ لہجے میں بولی، ’’ہم نہیں صرف آپ ابا جان پر شک کرتی تھیں۔ ہمارے لئے ابا جان سچ اور ایمانداری کا پیکر تھے۔ ویسے آپ کے منہ سے ’’ابا جان‘‘ سن کر اچھا لگا، چاہے ان کے مرنے کے بعد ہی سہی آپ نے اپنے اور ان کے رشتے کا احترام تو کیا.... اور اس بیگ کے لئے بہت شکریہ کہ آپ نے اسے بھی ردّی سمجھ کر پھینک نہیں دیا اور اگر آپ لوگوں کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں اس انمول خزانے کو اپنے پاس رکھنا چاہوگی۔‘‘
 ’’انمول خزانہ؟‘‘
 اب کی بار دونوں میاں بیوی چونکے تھے۔ ان کے حساب سے اس میں سب بے کار چیزیں تھیں۔ بڑے بھائی نے سوچتی ہوئی نظروں سے بیوی کی طرف دیکھا تھا جیسے اس سے پوچھ رہے ہوں کہ تم نے اچھی طرح بیگ کی تلاشی لی تھی ناں!
 ’’ایسا کیا ہے اس میں؟‘‘ بڑی بھابھی نے پرتجسس لہجے میں پوچھا تھا۔
 صبا نے خاموشی سے بیگ کھولا اور چند بوسیدہ اوراق کے ساتھ ساتھ کالے رنگ کی ایک ڈائری بھی برآمد کی۔ اور مدھم آواز میں کہنے لگی، ’’مرنے سے ایک رات پہلے ابا جان نے اپنی تلاش کا راز کھولا تھا!‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو کے شفاف قطرے نکل کر ہاتھ میں پکڑی چیزوں پر ایسے گر رہے تھے جیسے تازہ قبر پر بکھرے سرخ پھولوں کی پتیوں پر اوس کی نمی ٹھہر جائے!
 ابا جان.... نے بتایا تھا کہ جب ان لوگوں نے زندگی کا نیا سفر شروع کیا تھا تب ان کے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ اماں کی بہت سی چھوٹی، بڑی خواہشوں کو پورا کر پاتے، مگر ابا جان کو اماں سے بہت محبت تھی اور وہ ان کی ہر خواہش کو پورا کرنا چاہتے تھے اس لئے ابا جان کے اصرار کرنے پر ہی ان دونوں نے یہ ڈائری لکھنا شروع کی تھی۔ جس میں اپنے اپنے احساسات اور روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی بے شمار باتیں ہوتیں۔ جب ابا جان کی مصروفیت بے تحاشا بڑھ گئیں کہ وہ اماں کو وقت نہیں دے پاتے تھے، تب اماں نے یاددہانی کے طور پر اس ڈائری پر وہ سب کچھ محفوظ کرنا شروع کر دیا تھا، جو وہ کہنا چاہتی تھیں یا ابا جان سے شیئر کرنا چاہتی تھیں، ابا جان اکثر رات کو دیر سے گھر آتے تھے اور سونے سے پہلے مطالعہ کرنا ان کی عادت میں شامل تھا۔ اس ڈائری کو پڑھ کر وہ اماں کی دن بھر کی مصروفیات اور احساسات سے واقف رہتے تھے۔ اس لئے کبھی ان میں کسی قسم کی غلط فہمی یا ذہنی فاصلہ پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ جب جب ابا جان اور اماں ایک دوسرے سے ناراض ہوتے، یا کسی کو کسی کی کوئی بات بری یا تکلیف دہ لگتی تو وہ بھی اس ڈائری میں لکھ دیتے۔
 اس طرح دونوں زندگی کی گہماگہمی اور مصروفیت میں بھی ایک دوسرے کے دل کے حال اور سوچوں سے واقف رہتے تھے! مگر کئی برسوں کے بعد، وقت کی تیز رفتاری اور بچوں کی ذمہ داریوں میں گم ہو کر یہ سلسلہ موقوف تو ہوگیا تھا مگر ابا جان اور اماں نے اسے اپنے ’انمول خزانے‘ کا نام دے کر بہت سنبھال کر رکھا تھا کہ جب سب ذمہ داریوں سے فراغت پالیں گے تو ایک دوسرے کی سنگت کو پھر سے محسوس کرتے ہوئے، گزرے دنوں کو مل کر یاد کیا کرے گے....! اس وقت گزرے لمحوں کو پھر سے دہرائیں گے اور اپنی تنہائی کو، اپنے ماضی سے سجائیں گے! مگر افسوس کہ اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔
 بہت سال پہلے اماں کی اچانک وفات نے ابا جان کو بالکل تنہا کر دیا تھا۔ جب تک اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں ابا جان مصروف رہے اماں کی یادوں سے لڑنا ان کے لئے آسان رہا مگر اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں وہ یاد ماضی کے گرداب میں الجھتے، اپنے ’انمول خزانے‘ کو ڈھونڈتے رہے مگر کامیاب نہ ہوسکے جیسے جیسے ان کی تنہائی کا صحرا پھیلتا گیا، وہ یاد کی پرچھائیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے، خود یاد کا بوڑھا شجر بن گئے تھے اور آپ سب یہ سمجھتے رہے کہ وہ کسی ذہنی مرض کا شکار ہو گئے ہیں، جبکہ وہ صرف اپنی تنہائی اور اکیلے پن سے لڑنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کرتے تھے....
 صبا نے گہری سانس لے کر بات ختم کی تھی اور گم سم سے کھڑے، احساسات سے عاری، ان بتوں پر نظر ڈالی تھی جو محبت، ایثار، سادگی، وفاداری کے اصل ذائقوں سے بھلا کب آشنا تھے!
 ’’اور تو سب ٹھیک ہے مگر مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی....‘‘ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد صبا نے پرسوچ انداز میں کہا تو دونوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
 ’’ابا جان کی سب جائیداد اور اثاثے ان کی اولاد میں شرعی لحاظ سے تقسیم کر دیئے گئے ہیں مگر اس دن سے میں اس سوچ میں ہوں کہ اس ’انمول خزانے‘ کی وراثت کسے ملنی چاہئے؟ بیٹوں کو یا بیٹیوں کو؟ کون اس وراثت کا اصل حقدار ہے؟ کیا یادوں، احساسات، محبت کے اثاثے بھی، سب اولادوں میں برابر تقسیم کئے جا سکتے ہیں؟ کیا اسے بھی دینا کے بازار میں نیلام کیا جاسکتا ہے؟ کیا ان جذبوں کی بولی بھی لگتی ہے بازاروں میں؟ میرے پاس ان سب سوالوں کے جواب تو نہیں ہے مگر ایک خوف ضرور ہے کہ کل جب ہمارے بچے، بڑے ہو کر وراثت کے دعویدار ہوں گے تو کیا ہماری طرح وہ بھی صرف مادی چیزوں کی ہی وراثت مانگیں گے؟ کیا ہم بھی یاد کا بوڑھا شجر بن کر اپنی اپنی جان لیوا تنہائی کا آخری پہر کاٹیں گے؟ اسی لئے، مَیں یہ ’انمول خزانہ‘ اپنے سب بچوں میں تھوڑا تھوڑا کرکے ضرور تقسیم کروں گی تاکہ آنے والے وقت میں، وہ اپنے والدین کو یاد کا بوڑھا شجر بننے سے بچا سکیں۔‘‘
 صبا نے لیدر کے بیگ کو مضبوطی سے بند کیا اور دہلیز پار کر گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK