Inquilab Logo

اردو میڈیم کے اردو اساتذہ پر طلبہ کے تئیں دہری ذمہ داری ہوتی ہے

Updated: May 15, 2023, 1:39 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

اردو پڑھانے والے اساتذہ سے ان کے طریقۂ تدریس سے لے کرانہیں پیش آنے والی دشواریوں تک کے مختلف موضوعات پر کی گئی گفتگو ملاحظہ کریں۔ تیسری قسط

Teaching Urdu is a very important responsibility because it is from school that the new generation gets to know Urdu
اردو کی تدریس نہایت اہم ذمہ داری ہے کیوں کہ اسکول ہی سے نئی نسل اردو سے واقف ہوتی ہے

ہم اور آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اردو ہماری مادری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی ممتاز ترین زبانوں میں سے ایک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کو دنیا کی اہم زبان کا درجہ حاصل ہے۔یہ زبان اتنی پیاری اور میٹھی ہے کہ مختلف مذاہب،مختلف طبقہ اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی روز مرہ کی زندگی میں اسے استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود اس کے مستقبل کے تئیں  اندیشے ظاہر کئے جاتے  ہیں۔  ان حالات میں اگراردو زبان کے فروغ و ترقی، اسکا وقار اور اسکی ساکھ برقرار رکھنی ہے تو ہمیں بنیاد کو درست کرنا ہوگا۔ ہمیں طلبہ کی سطح سے شروعات کرنی ہو گی کیوں کہ جب ہم نئی نسل کی آبیاری اردو زبان سے کریں گے تبھی ہمیں اس کا پھل ملے گا۔مختلف اسکولوں میں  اردو پڑھانے والے  ہمارے اساتذہ  اس زبان کی حفاظت کا ہراول دستہ ہیں۔  یہ اساتذہ اردو کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتوں میں ہم نے مختلف اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے والے اساتذہ عبد الرحیم ریاض احمد ، انیسہ انصاری ، شاداب اقبال مومن اور شاہنواز دادا میاں سے  اردو کی تدریس کے سلسلے میں گفتگو کی تھی ۔ اس ہفتے بھیونڈی کےمشہور ادارہ رئیس ہائی اسکول کے اردو کے استاد عامر اصغر قریشی  اور ممبئی میونسپل کارپوریشن کے استاد عمران امین سے گفتگو کی۔
      رئیس ہائی اسکول بھیونڈی میں آٹھویں ، نویں اور دسویں   جماعت میں  اردو کی تدریس  انجام دینے والے عامر اصغر قریشی نے کہا کہ اردو ذریعہ تعلیم کی اسکولوں میں زباندانی کی تدریس کا فریضہ انجام دینے والے اساتذہ پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اول تو درسی کتاب کی تدریس، دوم طلبہ میں اپنی زبان کے تئیں محبت اور دلچسپی پیدا کرنا تا کہ آج کمرہ جماعت میں تعلیم حاصل کرنے والا بچہ مستقبل میں اچھا قاری  بن سکے۔ جہاں تک بات ہے طریقہ تدریس کی تو اس ضمن میں عرض کرتا چلوں کہ طریقہ تدریس کا انحصار پوری طرح سے سبق پر مشتمل ہوتا ہے کہ کس سبق کی تدریس روایتی طریقہ سے کی جائے اور کس سبق میں جدید وسائل کا استعمال کیا جائے۔  عامر اصغر قریشی جو ادارہ تکمیل کی دوسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور رسالہ کے نوجوان مدیر بھی ہیں، نے کہا کہ رئیس ہائی اسکول میں خاص طور پر یہ طریقہ رائج ہے کہ اردو کے تئیں دلچسپی پیدا کرنے کے  لئے سب سے پہلے تو کلاس روم میں دوران تدریس طلبہ کو شہر اور بیرون شہر منعقد ہونے والی ادبی تقریبات  کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ بچوں کے  لئے شائع ہونے والی کتابوںکا تعارف پیش کیا جاتا ہے، بچوں کے رسائل کا مطالعہ کرنے، تعلیمی انقلاب کا مطالعہ، لائبریری کی سیر، نظم خوانی، قصہ گوئی اور دیگر مقابلوں کا انعقاد کرکے اردو کے تئیں طلبہ کی دلچسپی  اوران کے جذبہ کو ابھارا جاتا ہے۔  عامر اصغر نے طریقہ تدریس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ طریقہ تدریس کا انحصار زیر تدریس سبق پر ہوتا ہے کہ اسے کس طرح پڑھایا جائے۔ اسکول میں جدید تعلیمی لوازمات سے لیس آڈیو ویژول روم کی سہولت بھی ہے۔ علاوہ ازیں کلاس روم میں اسمارٹ اسکرین بھی موجود ہے جس کا استعمال تدریس کو دلچسپ بنانے کے  لئے گاہے بگاہے کیا جاتا ہے ۔ قواعد کی تدریس ، ہیں اور کا فرق،  واحد جمع ، جملوں کی بندش اور ایسی متعدد قواعد کی غلطیوں کو کیسے دور کرتے ہیں ، اس سوال کے جواب میں عامر اصغر نے کہا کہ زباندانی کے استاد پر سب سے بڑی ذمہ داری یہی عائد ہوتی ہے کہ اس کا طالب علم اپنی روز مرہ کی زندگی میں شائستہ زبان کااستعمال کرے ۔ اس کے  لئے استاد کو خود اپنے تلفظ کی جانب توجہ دینا چا ہئے کیونکہ کلاس روم میں استاد جس طرح کی زبان استعمال کرے گا بچے اس کی نقل کریں۔ اگر زباندانی کا استاد غیرمعیاری زبان استعمال کرتا ہے ،’ہے اور ہیں‘ میں فرق نہیں کرتا تو طلبہ اس کی  ہی طرح زبان استعمال کریں گے اس  لئے ٹیچر جب خود بلند خوانی کرے یا طلبہ سے بلند خوانی کرائے تو نون غنہ، ہے اور ہیں کا فرق ذہن میں رکھ کر تدریس کرنی چا ہئے۔ دوران تدریس  واحد جمع، جملہ بندی اور قواعد میں کی جانے والی عام غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سبق مکمل کیا جائے تو طلبہ کو سمجھنے میں کافی آسانی ہو گی۔مضمون نویسی اور املا نویسی کے تعلق سے عامر نے کہا کہ یہ دونوں اصناف طلبہ کی تحریری مہارت کے لئےانتہائی ضروری  ہیں۔ وہ خود اپنی کلاس میں  اکثر املا نویسی کرواتے ہیں جبکہ مضمون نویسی کے لئے زائد وقت نکالتے ہیں۔ ریاضی ، سائنس یا انگریزی کے ٹیچر کے مقابلے اردو کے ٹیچر کو کم اہمیت دی جاتی ہے ؟ اس سوال پر عامر اصغر ،جو  بال بھارتی کی درسی کتاب کی تیاری کے لئے منعقد کئے جانے والے ورکشاپس میں مبصر کی حیثیت سے شامل ہوتے رہے ہیں ، نے کہا کہ ایسا تو انہیں کبھی محسوس نہیں ہوا کیوں کہ ہر مضمون کی اپنی اہمیت ہے۔ کم از کم ہمارے ادارہ کی سطح پر تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں اردو زباندانی کے اساتذہ کو دوسروں کے مقابلے زیادہ عزت و توقیر دی جاتی ہے۔ 
  ماہم میں واقع ممبئی میونسپل کارپوریشن کی ویر ساورکر مارگ میونسپل اردو  اسکول میں طلبہ کو اردو زباندانی پڑھارہےعمران امین نے بتایا کہ وہ اپنی کلاس میں  ماہرین تعلیم کے تیار کردہ طریقہ تدریس کو اپناتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ۲۰۱۰ءمیں اسکولوں کا تعلیمی معیار بہتربنانے کے لئے امریکی کنسلٹنسی کے ساتھ ایک پروجیکٹ  شروع کیا گیا تھا جس میں ماہرین تعلیم نے مختلف طریقہ تدریس کے سلسلے میں ہمیںکافی طویل ٹریننگ دی تھی۔ عمران امین یہ تربیت حاصل کرنے والے چند ابتدائی اساتذہ میں سے تھے اور پھر انہوں نے کئی ٹیچرس کو یہ تربیت دی۔ انہوں نے بتایا کہ تقریباً  ۷؍ سال تک یہ پروگرام چلایا گیا تھا ۔ پروگرام بند ہونے بعد بھی ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ  اسی طریقے سے بچوں کو پڑھائیں۔ اس طریقے پر انہوں نے مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس طریقہ تدریس میں اردو پڑھاتے وقت پہلے سبق کے مشکل اور نئے الفاظ تختہ سیاہ پر لکھ کر اچھی طرح سے بلند خوانی کروائی جاتی ہے۔ جب ہر بچہ ان مشکل الفاظ سے مانوس ہو جاتا ہے تو سبق کا مختصر خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔پھر خلاصے سے متعلق مختصر سوال پوچھے جاتے ہیں جس سے بچوں کو سبق سے متعلق کافی حد تک معلومات مل جاتی ہے۔ اس کے بعد سبق باقاعدہ پڑھانا شروع کیا جاتا ہے۔ سبق کی تفہیم کے بعد آخر میں مشقی سوالات  دئیے جاتے ہیں ۔ 
 عمران امین جو ’’اردو انسائیکلوپیڈیا برائے یو جی سی نیٹ و دیگر مقابلہ جاتی امتحانات‘‘ جیسی کارآمد کتاب  کے مصنف و مرتب ہیں، نے کہا کہ زبان  کے تئیں دلچسپی پیدا کرنے کے  لئے وہ  وقتا فوقتاً اردو کے اشعار، نظمیں، مشہور افسانے اور ناول وغیرہ کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں جس سے بچوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اردو ادب میں ٹی وی ،موبائل اور فلموں سے زیادہ دلچسپ مواد موجود ہے۔ عمران امین نے  قواعد کی غلطیوں کے تعلق سے کہا کہ طلبہ تو جانے دیجئے بہت سارے اساتذہ بھی ’ہے اور ہیں‘ میں تمیز نہیں کرتے اس  لئے بچوں کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قواعد  سے بچوں کو مانوس کرنے کیلئے اساتذہ کو خود اپنی زبان  بہتر بنانی چاہئے جسے بچے سن کر خود بخود سیکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہر سبق کے آخر میں قواعد دئیے گئے ہیں۔اس کی مشق کرواکے بھی بچوں کی قواعد کی غلطیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔دیگر مضامین کے مقابلے میں اردو زباندانی  کے  اساتذہ کو کم اہمیت دی جاتی ہے اس سوال پر عمران امین ،جو چند برس قبل ممبئی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے دیا جانے والا بہترین استاد کا  ’میئر ایوارڈ‘ حاصل کرچکے ہیں، نے کہا کہ ایسا اسکولی سطح پر تو نہیں ہو تا لیکن عوام کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ اردو کمتر ہے اور انگریزی، سائنس اور ریاضی کی اہمیت زیادہ ہے۔ ہمیں اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK