• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

تین اہم بل منظور کروانے کی عجلت

Updated: December 22, 2023, 1:16 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

حکومت کو پارلیمنٹ میں تین نہیں تیس بل پیش کرنے اور اُنہیں منظور کروانے کا حق اور اختیار ہے مگر ایسے وقت میں جبکہ اپوزیشن کے کم و بیش ڈیرھ سو اراکین معطل ہیں ، ان بلوں کو پیش کرنے کی عجلت سے اجتناب کیا جاسکتا تھا۔

Home Minister Amit Shah. Photo: INN
وزیر داخلہ امیت شاہ ۔ تصویر : آئی این این

تین اہم بل منظور کروانے کی عجلت
 حکومت کو پارلیمنٹ میں  تین نہیں  تیس بل پیش کرنے اور اُنہیں  منظور کروانے کا حق اور اختیار ہے مگر ایسے وقت میں  جبکہ اپوزیشن کے کم و بیش ڈیرھ سو اراکین معطل ہیں ، ان بلوں  کو پیش کرنے کی عجلت سے اجتناب کیا جاسکتا تھا۔ 
 ہمیں  نہیں  بھولنا چاہئے کہ پارلیمنٹ قانون سازی اور جمہوریت کے تحفظ کا سب سے اعلیٰ اور عظیم ادارہ بھی ہے۔ یہ ادارۂ پارلیمان برسراقتدار پارٹی یا اتحاد اور حزب اختلاف کی پارٹیوں  سے مل کر بنتا ہے۔ مشہور شعر ’’چمن میں  اختلاطِ رنگ و بو سے بات بنتی ہے‘‘ کے مصداق پارلیمنٹ میں  حکمراں  طبقہ اور اپوزیشن کے اشتراک ہی سے قانون سازی کے عمل میں  وہ معنویت پیدا ہوتی ہے جو جمہوریت کی روح ہے۔ اگر حکمراں  طبقہ ہی رہے اور اپوزیشن نہ رہے تو تنقید ہوگی نہ ہی ترمیم کا مطالبہ۔ یہ من چاہا طریق کار کہلائے گا خواہ پارلیمنٹ میں  موجودہ اراکین اس پر کتنا ہی اظہار خیال یا آپس میں  بات چیت کیوں  نہ کریں ۔ اس اقدام سے پہلے حکومت کو سوچنا چاہئے تھا کہ نہایت اہم بلوں  پر اپوزیشن کی رائے بہت ضروری ہے اس لئے یا تو متعلقہ اراکین کی معطلی کو منسوخ کرنا چاہئے تھا یا معطلی کا دورانیہ ختم ہونے تک کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔ معطل شدہ اراکین پارلیمان کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے حکومت نے اپوزیشن کو یاد دلایا کہ (مفہوم) ’’ہم نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں  آنے کے بعد یہ عہد کیا تھا کہ یہاں  افہام و تفہیم اور اتحاد و یگانگت کا بھرپور مظاہرہ کیا جائیگا۔‘‘ ہمارے خیال میں  اپوزیشن پارٹیوں  میں  سے کوئی نہیں  ہوگا جو اس سے انکار کرے گا مگر افہام و تفہیم اور اتحاد و یگانگت کا یہ معنی نہیں  کہ قابل اعتراض نکات پر بھی خاموشی اختیار کرلی جائے۔ پیش ہونے والے بل پر اگر حزب اختلاف کچھ سوالات اُٹھاتا ہے تو اس کا مطلب مخالفت نہیں  ہوتا۔ 
 حزب اختلاف کے اراکین سوالات اُٹھا کر اصلاح کے امکانات اور ضرورت سے بحث کررہے ہوتے ہیں  تاکہ جو بھی قانون بنے وہ اس قدر پختہ ہو کہ بعد میں  اسے تبدیل کرنے کی ضرورت نہ پیش آئے نیز وہ اتنا بامعنی ہو کہ جن مقاصد کے پیش نظر وضع کیا گیا ہے وہ مقاصد پورے ہوں ۔قانون کی اسی پختگی اور معنویت کو یقینی بنانے کیلئے پارلیمانی جمہوریت میں  اپوزیشن ناگزیر ہے۔ ہمیں  افسوس ہے کہ حکومت نے اس ناگزیریت کو محسوس نہیں  کیا اور اپوزیشن کی بڑی حد تک غیر موجودگی کے باوجود تین بل پاس بھی کروالئے۔ 
 جس وقت یہ سطریں  لکھی جارہی ہیں  انڈین پینل کوڈ ۱۸۶۰ء کی جگہ بھارتیہ نیائے سنہتا، کوڈ آف کریمنل پروسیجر ۱۹۷۳ء کی جگہ بھارتیہ ناگرک سرکھشا اور انڈین ایویڈنس ایکٹ ۱۹۷۲ء کی جگہ بھارتیہ سکشیہ بل لوک سبھا میں  منظور ہوچکے ہیں ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ان بلوں  کی اہمیت پر ضرور روشنی ڈالی مگر جو کچھ بھی کہا وہ اُن کا نظریہ ہے۔ اِس پر اپوزیشن کی رائے ناگزیر تھی۔ یہ اس لئے بھی ناگزیر تھا کہ تینوں  بل نظام عدل، قانون اور انصاف سے متعلق ہیں  یعنی ان کا عوام کی روزمرہ کی زندگی سے براہ راست تعلق ہے۔ یہ جنگلات، کان کنی اور ایسے ہی دیگر شعبوں  سے متعلق بل نہیں  ہیں ۔ ان پر تفصیلی غوروخوض ہونا چاہئے۔ چونکہ حکمراں  طبقہ کے ساتھ اراکین کی اکثریت ہے اس لئے ان بلوں  کی منظوری تو ویسے بھی طے تھی، اپوزیشن کی موجودگی کا لحاظ رکھ لیا گیا ہوتا اور اُن کے اعتراضات کو پارلیمانی ریکارڈ میں  محفوظ کروا دیا جاتا تو جمہوریت کا بھرم تو رہ جاتا! 

amit shah Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK