• Sat, 26 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سیرت ِ رسولؐ کی روشنی میں ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لائیے، یہ اہم ذمہ داری ہے!

Updated: October 25, 2024, 4:44 PM IST | Habib ur Rahman Chitrali | Mumbai

میڈیا دراصل فروغِ ابلاغ اور ترسیل اطلاع کا مؤثر ذریعہ ہے جس میں نت نئی تکنالوجی اور جدت آنے سے دنیا کی طنابیں کھنچ گئی ہیں اور عالمی بستی کا تصور عمل کے قالب میں ڈھل چکا ہے۔ اس لئے بالخصوص مسلمانوں کو نہایت ذمّہ دارانہ، مثبت اور قرآن و سنت کی ہدایات کے عین مطابق ذرائع ابلاغ کا استعمال کرنا چاہئے تاکہ دشمن کے شرانگیز پروپیگنڈے کو ’’خیر‘‘سے بدلا جا سکے۔

It is our responsibility to use media positively and constructively in the present age. Photo: INN.
موجودہ دور میں ابلاغ کا مثبت اور تعمیری استعمال کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ تصویر: آئی این این۔

پروپیگنڈا دراصل نفسیاتی جنگ کا ہتھیار ہے۔ دشمن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پروپیگنڈے کے ذریعہ خوف اور ہیجان کی کیفیت پیدا کر کے فرد یا اجتماع کے رویّے میں حسب خواہش تبدیلی لائے۔ ذہنی تنائو کی اس کیفیت کو انگریزی میں نفسیاتی جنگ (psychological warfare) اور جدید عربی اصطلاح میں ’’الحرب النفسیۃ‘‘ کہا جاتا ہے۔ (اسلام اور ذرائع ابلاغ، استاد فہمی قطب الدین النجار، ترجمہ: ڈاکٹر ساجد الرحمٰن صدیقی، ص ۴۴) اس جنگ میں توپ و تفنگ استعمال نہیں ہوتے بلکہ یہ جنگ ذرائع ابلاغ کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ دنیا میں پروپیگنڈے پر خوب رقم خرچ کی جاتی ہے اور اس سے وہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں جو عملی جنگ سے حاصل نہیں ہوتے۔ 
اگرچہ پروپیگنڈے کی اصطلاح ۱۶۲۲ء میں پہلی دفعہ ایک عیسائی مشن کے لئے استعمال ہوئی جو روم سے باہر تبلیغی مقاصد کے لئے گیا تھا اور وہاں کی حکومت ان عیسائیوں کے مخالفانہ خیالات کی تشہیر سے خائف تھی تاہم مذہبی حوالے سے بھی پروپیگنڈے کا وجود نہایت قدیم اور ازلی ہے۔ شیطان نے پروپیگنڈے کے ہتھیار سے حضرت آدم ؑ اور ان کی بیوی حوا کو اُس شجر ممنوعہ سے پھل کھانے پر آمادہ کیا جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں منع فرمایا تھا۔ 
انبیاء علیہم السلام کے خلاف، جو اللہ کی طرف سے خبر پہنچانے اور رسالت پر مامور تھے، پروپیگنڈے کا حربہ بنی اسرائیل نے اپنایا۔ کفار و فجار کی طرف سے پیغام ربانی کو بے اثر کرنے کے لئے نفسیاتی حربوں کے آثار تاریخ میں ملتے ہیں اور قرآن جگہ جگہ اقوامِ سابقہ کی اِن افترا پردازیوں کی وضاحت کرتا ہے۔ خود جزیرہ عرب کے اندر مشرکین، یہود اور منافقین نے خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبردست نفسیاتی جنگ برپا کر رکھی تھی۔ منفی پروپیگنڈے، آیات الٰہی کی تکذیب اور دھمکیوں کا ایک طوفان تھا۔ حضورؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کو خوفزدہ کرنے اور لالچ دینے کیلئے مختلف اسلوب اختیار کیے گئے۔ 
شعب ابی طالب میں حضورؐ اور ان کے خاندان کو محصور کرنا اور معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کی حالت میں تین سال تک زندگی گزارنے پر مجبور کرنا، اسی نفسیاتی جنگ کا ایک گھنائونا حربہ تھا۔ 
قرآن کے موثر پیغام کو نہ سننا اور ڈھولکیوں، باجوں اور مزامیر کی تفریح گاہیں منعقد کر کے قرآن کے پیغام کو مشتبہ اور غیر اہم بنانا منکرین حق کے پروپیگنڈے کا حصہ تھا جس کی طرف قرآن نے یوں اشارہ فرمایا:
’’یہ منکرین حق کہتے ہیں کہ اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو، شاید کہ اسی طرح تم غالب آجائو۔ ‘‘ (حٰم السجدۃ: ۲۶ )
تجارتی میلے اور جشن منانا بظاہر تفریح اور اشتہار بازی تھی مگر اس کی تہہ میں اللہ کے رسولؐ کو تنہا کرنے کی سازش تھی۔ یہ پروپیگنڈے بعض اوقات نتیجہ خیز ہوتے تھے:
’’اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ ‘‘(الجمعہ :۱۱)
شعروشاعری اور سخن گوئی عربوں کا اہم ابلاغی ذریعہ تھا۔ عرب بڑے فصیح اللسان تھے۔ پیغام رسالتؐ کے خلاف پروپیگنڈے کیلئے اس میڈیا کو بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ کعب بن اشرف ایک متمول یہودی اور مشہور شاعر تھا۔ وہ حضورؐکی شان میں توہین آمیز ہجو کہتا تھااور مخالفین کو اُکساتا تھا۔ جنگ بدر میں قریش کی شکست کے بعد اُس نے مکہ جا کر مسلمانوں کے خلاف خوب شعر و شاعری کی اور کشتگانِ بدر کے مرثیے لکھے جن میں انتقام لینے کی تحریص و ترغیب تھی۔ جب واپس مدینہ آیا تو شاعری کے ذریعے لوگوں کو آنحضرت ؐ کے خلاف برانگیختہ کرنا شروع کر دیا۔ 
(سیرۃ النبیؐ، علامہ شبلی نعمانی، ج ۱)
علامہ شبلی ؒ فرماتے ہیں : ’’عربوں میں شاعری کا وہ اثر تھا جو آج یورپ میں بڑے بڑے دانش وروں کی تقریروں اور نامور اخبارات کی تحریروں کا ہوتا ہے۔ ‘‘ (ایضاً) جب نظام ابلاغ اسلامی نے باطل کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کا فیصلہ کیا تو راے عامہ سے اسلام کے خلاف منفی اثرات کو ختم کرنے اور مثبت اثرات مرتب کرنے میں حضرت حسان ؓبن ثابت، حضرت عبداللہ ؓبن رواحہ، کعبؓ بن مالک، حضرت ثابت ؓبن قیس نے وہ اہم کردار ادا کیا جو آج کل کے مسلم صحافیوں کیلئے نمونہ ثابت ہو سکتا ہے۔ 
کفار اور مشرکین نے اپنے آبا و اجداد کے دین پر تعصب اور ناحق طرف داری کے سبب نہ صرف آسمانی صداقت اور بے لاگ حقیقت کو ٹھکرا دیا بلکہ اس کو اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کی بھینٹ چڑھانے کی اَن تھک کوشش کی۔ حق و باطل کے ابلاغ میں اُس دَور کے ماہرین ابلاغ کی مسابقت کی کوششیں برابر جاری رہیں مگرغلبہ بالآخر حق اور صداقت کا ہوا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ابن خلدون اپنے ’’مقدمہ‘‘میں لکھتے ہیں :
’’دورِ اسلامی کے شعرائے عرب کا کلام بلاغت و فصاحت میں شعرائے جاہلیت کے کلام سے کیوں بلند اور ارفع ہے؟ نظم کی طرح نثر میں بھی یہی حال ہے۔ اسی لئے حسان بن ثابتؓ، عمر بن ابی ربیعہ، حطیہ، جریر، فرزدق، نصیب، عیلان، ذی الرمّہ، احوص اور بشار کے اشعار، خطبات اور عبارات و محاورات (یعنی صحافت اور ادب) کا پلّہ نابغہ، عنترہ، ابن کلثوم، زہیر، علقمہ بن عبدہ، طرفہ بن العبد کے کلام سے بہت اونچا ہے۔ صاحب نظر شخص کا ذوقِ سلیم خود اس فرق کو محسوس کر لیتا ہے۔ اس حقیقت کی وجہ یہ ہے کہ دورِ اسلامی کے ماہرین ابلاغ کو خوش قسمتی سے قرآن و حدیث کے معجزانہ کلام کو سننے اور اس کا اسلوب سمجھنے کا اتفاق ہوا اور اُن کی طبائع میں یہ اسلوب رچ بس گیا۔ اس لئے وہ آسمانِ بلاغت کے ستارے بن کر چمکے۔ ‘‘ (مقدمہ ابن خلدون، ترجمہ: مولانا سعد حسن خان)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے خلاف یہودیوں کے پروپیگنڈے کے سبب قریش کا جوشِ انتقام اس حد تک بھڑک اُٹھا کہ قریش نے بنونظیر کو پیغام بھیجا کہ ’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر دو ورنہ ہم خود آکر تمہارا استیصال کر دیں گے۔ ‘‘ (سیرت النبیؐ از مولانا شبلی نعمانی، ج ۱، ص ۴۰۹)
ابن جریر طبریؒ فرماتے ہیں : کعب بن اشرف یہودی کفارِ قریش کے مشرکوں کے پاس گیا اور ان کو نبیؐ کے خلاف ہمت دلائی اور اُن کو آمادہ کیا کہ وہ آپؐ کے خلاف جنگ کریں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری، ج۵، ص ۷۹)
جہاں تک کعب کے پروپیگنڈے کا تعلق تھا تو صحابہؓ اور شاعرہ صحابیاتؓ نے اشعار ہی میں ان کے جوابات دیئے۔ مگر اس یہودی نے عین اس وقت جب جنگ بدر کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی دوبارہ جنگ کی آگ بھڑکانے کی علانیہ سازشیں شروع کر دیں اور مکہ جا کر قریش کو آمادئہ جنگ کیا۔ اس پر حضورؐ نے اذنِ الٰہی سے مداخلت کی اور کعب بن اشرف اپنے انجام کو پہنچا۔ (تاریخ ابن ہشام، ج ۲، ص ۵۲-۶۰)
اس واقعہ کے بعد یہودی قبائل سخت مرعوب ہو گئے۔ پروپیگنڈے اور افواہوں کے پھیلانے میں یہودیوں اور قریش مکہ کے ساتھ مدینہ کے منافقین بھی پیش پیش تھے۔ بنونظیر کو جب حضورؐ نے مدینہ سے جلاوطن کیا تو دوسرے یہودی قبیلہ بنوقریظہ نے بنونظیر کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنونظیر اپنے آپ کو اونچی ذات کے یہودی تصور کرتے تھے اور اپنے مقتولوں کا پورا خون بہا لیتے تھے، جب کہ بنوقریظہ کے مقتول کی دیت آدھی ہوتی تھی۔ آنحضورؐ نے بنوقریظہ پر یہ احسان کیا کہ دیت اور دوسرے معاملات میں ان کو بنونظیر کے برابر قرار دیا۔ مدینہ کے منافقین نے بنونظیر کی جلاوطنی کے وقت اُن کو پیغام بھیجا کہ عبداللہ بن ابی دو ہزار آدمیوں کے ساتھ اُن کی امداد کرے گا۔ قرآن نے یہود اور منافقین کے اس گٹھ جوڑ کی طرف اِن الفاظ میں اشارہ کیا:
’’کیا آپ نے منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے اُن بھائیوں سے کہتے ہیں جو اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے ہیں کہ اگر تم (یہاں سے) نکالے گئے توہم بھی ضرور تمہارے ساتھ ہی نکل چلیں گے اور ہم تمہارے معاملے میں کبھی بھی کسی ایک کی بھی اطاعت نہیں کریں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم ضرور بالضرور تمہاری مدد کریں گے، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ ‘‘(الحشر:۱۱)
اہل ایمان کے خلاف درپردہ سازشوں کا سلسلہ عرصے سے جاری تھا۔ منافقین مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے اور پروپیگنڈا کے ذریعے بدگمانیاں پھیلانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے حالانکہ بنونظیر کا حضورؐ نے جب محاصرہ کیا تو یہودیوں نے منافقین کی مدد کا انتظار کیا مگر عبداللہ ابن ابی اپنے گھر میں دبک کر بیٹھ گیا۔ سلام بن مشکم اور کنانہ نے حّی بن اخطب سے پوچھا، بتائو بھائی! کہاں ہے ابن ابی اور کہاں ہیں اس کی فوجیں اور اس کے حلیف؟ حّی نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’ہماری تقدیر میں یہ جنگ اور بربادی لکھی تھی، اس سے اب کوئی مفر نہیں۔ ‘‘ (ضیاء النبیؐ، پیر محمد کرم شاہ الازہری، ج ۳)۔ 
بنونظیر کی جلاوطنی کا واقعہ غزوئہ احد کے بعد وقوع پذیر ہوا، جب کہ غزوئہ بدر اور غزوئہ احد کے درمیان ۳۸۰ دن کا فصل ہے۔ جنگ بدر ۱۷؍ رمضان۲ھ بمطابق ۱۵مارچ ۶۲۴ء کو لڑی گئی تھی اور اُحد کے میدان میں حق و باطل کا معرکہ ۱۵ شوال ۳ھ بمطابق ۳۱ ؍ مارچ ۶۲۵ء کو پیش آیا تھا۔ (الامینؐ ، محمد رفیق ڈوگر، ج ۲، ص ۳۸۳)۔ غزوئہ احد کے دوران یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ رسولؐ اللہ قتل کر دیئے گئے۔ حضرت انس ؓ بن نضر نے اس مخالفانہ پروپیگنڈے کے جواب میں یہ موقف اختیار کیا: پھر زندگی کا فائدہ کیا؟ اور بے جگری سے لڑ کر شہید ہوئے۔ 
(مضمون کا اگلا حصہ آئندہ ہفتے ملاحظہ فرمائیں )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK