• Thu, 07 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

قرآن مجید میں زبان کے استعمال کے حوالے سے متنوع اصول بیان ہوئے ہیں

Updated: November 01, 2024, 12:44 PM IST | Laeequllah Khan Mansoori | Mumbai

انسان کو شب و روز دوسرے انسانوں سے تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہتا ہے۔قرآن و حدیث میں گفتگو کے اصول و آداب سکھا دیے گئے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں ملاحظہ کیجئے قرآن کی روشنی میں گفتگو کا معیارِمطلوب ۔

Goodness and goodness are known in the Holy Quran. Photo: INN.
قرآن مجید میں نیکی اور بھلائی کو معروف کہا گیا ہے۔تصویر: آئی این این۔

انسان کو جو خاص فضیلتیں حاصل ہیں، ان میں سے ایک بیان (اظہارِ خیال)کی صلاحیت بھی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  ’’اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھا یا۔‘‘ (سورۂ رحمٰن:۴) سورۂ بلد (آیت ۹)میں زبان اور دو ہونٹوں کو اللہ کے عطیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ’’کیا (ہم نے انسان کو) ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے؟‘‘فہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’زبان اور ہونٹوں سے مراد محض بولنے کے آلات نہیں ہیں بلکہ نفس ناطقہ ہے جو ان آلات کی پشت پر سوچنے سمجھنے کا کا م کرتا ہے اور پھر ان سے اظہار مافی الضمیر کا کام لیتا ہے۔‘‘
انسانی زندگی میں گفتگو اور بات چیت کی بڑی اہمیت ہے۔انسان کو شب و روز دوسرے انسانوں سے تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہتا ہے۔ قرآن و حدیث میں گفتگو کے اصول و آداب سکھا دیئے گئے ہیں۔زبان کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال فرد کو جنت کا حقدار بنادیتا ہے جب کہ اس کے غلط استعمال سے جہنم کا مستحق قرار پاسکتا ہے۔ انسان کے قول و فعل کو کراماً کاتبین کے ذریعے محفوظ کیا جارہا ہے۔سورۂ قٓ(آیت:۱۸) میں کہا گیا: ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کیلئے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔‘‘
نبی اکرم ﷺ نے یہ اصول سمجھا دیاہے کہ ’’جو کوئی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہئے کہ یا تو بھلی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔‘‘ (بخاری)
قرآن مجید میں زبان کے استعمال کے حوالے سے متنوع اصول بیان ہوئے ہیں۔مختلف مواقع کے لئے مختلف لہجے اور اسلوب سکھائے گئے ہیں۔درست لہجوں کی بھی وضاحت کی گئی ہے اوربعض ناپسندیدہ طریقوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔اس مضمون میں موضوع کے صرف تربیتی پہلوؤں کا حاطہ کیا جارہا ہے:
قول معروف ( اچھی بات)
’’قولِ معروف‘‘ کا ذکر قرآن مجید کی ان چھ آیات میں ہوا ہے: (البقرۃ:۲۳۵، ۲۶۳، النساء :۵، ۸، الاحزاب: ۳۲، محمد:۲۱)مثلاً سورۂ نساء کی آیت نمبر۵؍کے آخرمیں کہا گیا: ’’اور ان سے معروف طریقے سے بات کرو۔‘‘ 
’’ معروف ‘‘ عُرف سے بنا ہے جس کے معنی جاننے اور پہچاننے کے ہیں۔معروف جانی پہچانی چیز کو کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں نیکی اور بھلائی کو معروف کہا گیا ہے، اسلئے کہ نیکی یابھلائی انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ قولِ معروف سے مراد اچھی بات ہے۔ایسی بات جو درست ہو، معقول ہو، جسے انسانی ضمیرصحیح سمجھتا ہو، اورایسی گفتگو جو نیک ہو۔جن مواقع پر جھنجھلاہٹ پیدا ہونے یا ناگواری کا احساس پیدا ہونے کا امکان ہو، ان مواقع پر حلم و بردباری کے ساتھ اچھے طریقے سے بات بتا دینے کو بھی قولِ معروف کہا گیا ہے۔ وراثت کی تقسیم کے وقت اگر کچھ رشتہ دار، غرباء مساکین و یتیم آجائیں تو انھیں جھڑکا نہ جائے، بلکہ اچہے انداز سے ان سے بات کی جائے۔ان آیات میں ایک مقام (البقرۃ:۲۶۳) پر معروف کے ساتھ مغفرت کا بھی ذکر کیا گیا ہے :
’’ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچہے دکھ ہو اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اُس کی صفت ہے ۔‘‘
اس میں انفاق کرنے کے بعد احسان جتانے کو معیوب قرار دیا گیا ہے اور دلداری کی بات اور درگزر یا معذرت کی بات کواس سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔اس لیے کہ احسان جتانا دلآزاری ہے جب کہ انفاق کا تقاضا دلداری ہے۔سورۂ احزاب (آیت ۳۲) میں امہات المؤمنین کو دی گئی ہدایات کی روشنی میں معروف سے مراد ضرورت کی بات چیت ہے جس میں نہ نزاکت ہو اور نہ تلخی۔سورۂ نساء ( آیت ۵) میں وارد ‘‘قولِ معروف ’’کو ‘‘نیک ہدایت کرنے ’’سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔سورۂ محمد(آیت:۲۱) میں وارد ‘‘قولِ معروف ’’کو ‘‘سمع و طاعت کاقول’’ مرادلیا گیا ہے جسے سورۂ نور(آیت:۵۱) میں قولِ مومنین بھی کہا گیا ہے۔
خلاصہ: قولِ معروف کی درج بالا تشریح کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم زبان کا محتاط استعمال کریں۔ گفتگوکا اسلوب و لہجہ شائستہ و باوقار ہو۔کسی کی دلآزاری نہ ہو۔گفتگو ضرورت سے کم ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ ہو۔ہماری گفتگو حلم و بردباری کی آئینہ دار ہو۔کسی کی نصیحت مقصود ہو تو اس کی تحقیر نہ ہو۔اگر کسی وقت کسی سے گفتگو مناسب محسوس نہ ہو تو سلام کے ساتھ معذرت کر لی جائے۔ناگوار مواقع پر ضبطِ نفس کے ساتھ ضبط کلام کا بھی مظاہرہ ہو۔
قول سدید (سیدھی بات)
’’قولِ سدید‘‘ کا ذکر قرآن مجید میں دو مرتبہ ہوا ہے۔ (النساء:۹، الاحزاب:۷۰) سورۂ نساء کی آیت میں وراثت کی تقسیم کے موقع پر یتیموں کی دلداری کے حوالے سے قول سدید کی تلقین کی گئی ہے۔جب کہ سورۂ احزاب کی آیت میں مسلمانوں کو تقویٰ کی تلقین کے بعد قولِ سدید کا حکم دیا گیا ہے جس کے التزام کا انعام اعمال کی درستی اور گناہوں کی معافی قرار دیا گیاہے۔ سورۂ احزاب کی یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت خطبۂ نکاح میں بھی شامل ہے۔ قولِ سدید سے مراد سیدھی بات، راستی کی بات، جچی تلی بات، سچی بات، معقول بات، ٹھیک بات، صاف بات، پکّی بات اور حق پر مبنی بات، لئے جاتے ہیں۔سورۂ احزاب کی آیت ملاحظہ ہو: ’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔‘‘
قولِ سدید کی تشریح کرتے ہوئے صاحب معارف القرآن لکھتے ہیں: قول سدید کی تفسیر بعض نے صدق کے ساتھ کی ہے، بعض نے مستقیم، اور بعض نے صواب، وغیرہ سے کی۔ابن کثیر نے سب کو نقل کر کے فرمایا کہ سب حق پر ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ قرآن کریم نے اس جگہ صدق یا مستقیم وغیرہ کے الفاظ چھوڑ کر سدید کا لفظ اختیار فرمایا، کیوں کہ لفظ سدید ان تمام اوصاف کا جامع ہے۔ اسی لئے کاشفی نے روح البیان میں فرمایا کہ قولِ سدید وہ قول ہے جو سچا ہو، جھوٹ کا اس میں شائبہ نہ ہو، صواب ہو جس میں خطا کا شائبہ نہ ہو، ٹھیک بات ہو، ہزل یعنی مذاق و دل لگی نہ ہو، نرم کلام ہو دل خراش نہ ہو۔
تدبر قرآن میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ ’’سمع و طاعت کے اقرار‘‘  کو قول سدید قرار دیتے ہیں جس سے ایمان کی تصدیق ہوتی ہے۔
خطبۂ نکاح میں قولِ سدید کی تلقین میاں بیوی کے لئے اہم ہدایت ہے۔میاں بیوی کو زندگی بھر ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہے، گفت و شنید کرنا ہے۔باہمی مشاورت بھی کرنی ہے۔اکثر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ میاں بیوی میں ناچاقی زبان کے غلط استعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، تحقیر کرنا، طعنے کسنا، برا بھلا کہنا، ناشکری کرنا، احسان جتانا، وغیرہ امورگھریلو ماحول میں بدمزگی پیدا کرتے ہیں، ازدواجی تعلق کوکم زور کرتے ہیں اور رشتہ ٹوٹنے تک کی نوبت آجاتی ہےاسی لئے اللہ تعالیٰ نے خوشگوار ازدواجی زندگی کے لئے قولِ سدیدکا حکم دیا ہے۔ زوجین کے مابین قولِ سدید یہ ہے کہ دونوں کی گفتگو میں اعتدال ہو، احتیاط ہو، محبت ہو، خیر خواہی کا جذبہ ہو۔ایسی گفتگو سے احتراز ہوجو خلاف حقیقت ہو یا باعث نزاع ہو۔
خلاصہ: قولِ سدید کی درج بالا تشریح کا خلاصہ یہ ہے کہ ہماری گفتگو واضح ہو، درست ہو۔ ہم پہلے تولیں پھر بولیں، اورمبہم گفتگو سے احتراز کریں۔
قول بلیغ (مؤثر بات)
’’قولِ بلیغ‘‘ قرآن مجید کی سورۂ نساء کی آیت :۶۳ میں مذکور ہے۔ارشاد ہوا:
’’اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، ان سے تعرض مت کرو، انہیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔‘‘
قولِ بلیغ سے مراد ایسی گفتگو ہے جو دلوں میں اتر جائے اور اثر کرجائے۔بلاغ اور تبلیغ بات پہنچا دینے کو کہا جاتا ہے۔فصاحت اور بلاغت کے الفاظ بھی ارود میں معروف اور مستعمل ہیں۔قولِ بلیغ معیاری اور مؤثر گفتگو کو کہا جاتا ہے۔ حضورﷺ کو سورۂ نساء کی اس آیت میں ان منافقین کو قولِ بلیغ کے ذریعے وعظ و نصیحت کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ اور رسول کی طرف دعوت دیے جانے پر آپ کے پاس آنے سے کتراتے تہے۔ یہاں قولِ بلیغ کا پس منظر سمجھنے کے لئے اس بات پر  غور کرنا کافی ہوگا کہ جن لوگوں میں نفاق کا مرض ہو اور جو دوہری شناخت لیے پھر رہے ہوں، ان کے لئے محض قولِ معروف یا قولِ سدید ناکافی ہوگا، بلکہ ان کیلئے ایسی مؤثر گفتگو کے ذریعے نصیحت ضروری ہے جو ان پر اثر ڈال سکے اور وہ خود پر غور کرنے کے لئے آمادہ ہوسکیں۔
خلاصہ: قولِ بلیغ کا استعمال ہر اس موقع پر ضروری ہے جب سامعین کے دلوں پر اثر ڈالنا مقصود ہو۔اسی لئے فصاحت و بلاغت کو خطابت کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔یہ اصول بھی معروف ہے کہ لوگوں سے ان کے فہم و فراست کے مطابق بات کی جائے۔ مخاطبین اگر اہل علم ہوں تو ان کے روبرو عامیانہ گفتگو ناکافی ہوگی۔ ان کے روبرو علمی گفتگو ہی قولِ بلیغ ہی ہوگا۔
(جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK