• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

راجستھان میں وسندھرا یا کوئی اور؟

Updated: December 12, 2023, 1:08 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

راجستھان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ نہ تو مودی شاہ کی بی جے پی میں ہوتا ہے نہ ہی اسے مودی شاہ پسند کرتے ہیں ۔کانگریس لیڈر شانتی دھاریوال نے نئی حکومت تشکیل دیئے جانے میں تاخیر کے سوال پر جو کہا وہ ٹھیک ہے کہ ا س معاملے میں تاخیر کوئی ایسی بات نہیں ہے جو پہلے کبھی نہ ہوئی ہو، انہوں نے راجستھان ہی کی مثال دی کہ کانگریس کے دور میں ایسا ہوچکا ہے مگر ریاست میں حکومت کانگریس کی تھوڑے ہی بننی ہے، حکومت تو بی جے پی کو بنانی ہے اور موجودہ بی جے پی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی علاقائی لیڈر مودی شاہ کو آنکھیں دکھائے ۔

Vasundhara Raje Scindia. Photo: INN
وسندھرا راجے سندھیا۔تصویر:آئی این این

راجستھان میں  جو کچھ ہورہا ہے وہ نہ تو مودی شاہ کی بی جے پی میں  ہوتا ہے نہ ہی اسے مودی شاہ پسند کرتے ہیں ۔کانگریس لیڈر شانتی دھاریوال نے نئی حکومت تشکیل دیئے جانے میں  تاخیر کے سوال پر جو کہا وہ ٹھیک ہے کہ ا س معاملے میں  تاخیر کوئی ایسی بات نہیں  ہے جو پہلے کبھی نہ ہوئی ہو، انہوں  نے راجستھان ہی کی مثال دی کہ کانگریس کے دور میں  ایسا ہوچکا ہے مگر ریاست میں  حکومت کانگریس کی تھوڑے ہی بننی ہے، حکومت تو   بی جے پی کو بنانی ہے اور موجودہ بی جے پی  میں  ایسا کبھی نہیں  ہوا کہ کوئی علاقائی لیڈر مودی شاہ کو آنکھیں  دکھائے ۔ 
 کون نہیں  جانتا کہ مودی شاہ کے دور میں  وزیر اعلیٰ کا نام طے شدہ ہوتا ہے جس کی تائید کیلئے نومنتخب اراکین اسمبلی یکجا ہوتے ہیں ۔ چھتیس گڑھ میں  وشنو دیو سائے اور مدھیہ پردیش میں  موہن یادو کے ناموں  کے بارے میں  بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ اعلیٰ کمان نے یہ نام طے کئے، پھر ریاستی لیڈرشپ کو بھجوائے اور قانون ساز پارٹی (ی ایل پی) نے ا سکی توثیق کی۔ اس طرح دو ریاستو ں میں  تو راہ ہموار ہوگئی مگر راجستھان میں  صورت حال مختلف ہے، اسے بغاوتی صورت حال کہیں  تب بھی غلط نہ ہوگا۔ یہاں  آج قانون ساز پارٹی کی میٹنگ ہے مگر وزارت اعلیٰ کی مضبوط دعویدار وسندھرا راجے سندھیا کے بارے میں  اب تک حتمی خبر نہیں  ملی ہے کہ وہ مان گئی ہیں ۔ وہ تبھی مانیں  گی جب اُن کے نام کا اعلان ہوگا۔ 
 خبریں  شاہد ہیں  کہ اُنہیں  اسپیکر بنانے کی پیشکش کی گئی مگر وہ اس پر آمادہ نہیں  ہیں ۔ اُن کی رہائش گاہ پر اراکین اسمبلی کی مسلسل موجودگی سے یہی تاثر ملتا ہے کہ اگر اُنہیں  وزیر اعلیٰ نہیں  بنایا گیا تو وہ اپنا راستہ الگ کرسکتی ہیں ۔ ا سکا مطلب یہ ہے کہ راجستھان میں  سب کچھ ویسا نہیں  ہوگا جیسا کہ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں  ہوا ہے۔بی جے پی قیادت وسندھرا کو وزیر اعلیٰ نہیں  بنانا چاہتی یہ تب ہی سے واضح ہے جب انتخابات کے دوران اُنہیں  وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش نہیں  کیا گیا جبکہ سابقہ چار ریاستی انتخابات میں  اُنہی کا چہرا سامنے تھا۔ ان میں  سے صرف ۲۰۰۳ء اور ۲۰۱۳ء میں  اُن کی سربراہی میں  بی جے پی کو کامیابی ملی تھی۔تاہم راجستھان میں  وسندھرا کے بغیر بی جے پی کی سیاست ادھوری ہے۔ 
 جو بھی ہو، اِس وقت وسندھرا کچھ سننا نہیں  چاہتیں ، اُنہیں  اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اگر وہ اپنا مطالبہ منوانے میں  ناکام رہیں  تو مکمل طور پر حاشئے پر آجائینگی کیونکہ وہ دیکھ چکی ہیں  کہ سینئر لیڈر ہونے کے باوجود پارٹی میں  اُن کا اثرورسوخ جیسا ہونا چاہئے تھا، نہیں  ہے۔ اگر اُن کا نام وزارت اعلیٰ کیلئے منتخب نہیں  کیا گیا تب کیا ہوسکتا ہے یہ کسی سے چھپا نہیں  ہے۔ وہ اپنےاعتماد کے اراکین اسمبلی کے ساتھ (جن کی تعداد ۷۵؍ بتائی جارہی ہے) حکومت سازی کا دعویٰ پیش کرسکتی ہیں ۔ اس گروہ کو کانگریس کی بیرونی حمایت حاصل ہوسکتی ہے اور ممکن ہے کہ اس سلسلے میں  اشوک گہلوت سے بات بھی ہو چکی ہو۔گہلوت کیلئے، جو ہزار دعوؤں  کے باوجود دوبارہ حکومت بنانے سے محروم رہے، اِس سے سنہرا موقع اور کیا ہوگا۔ اس کی وجہ سے اُن کی شکست کی خفت بھی کم ہوجائیگی۔
  دیکھنا ہے کہ بی جے پی قیادت وسندھرا کو منانے میں  کامیاب ہوتی ہے یا کسی اور کے نام کا اعلان کرکے سابق وزیر اعلیٰ کے ردعمل سے نمٹنے کا پلان تیار کرتی ہے۔بہرحال آج واضح ہوجائیگا کہ راجستھان میں  کس کی زیادہ چلتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK