یہی وہ وقت ہے جب مرغ اہل آسمان کو دیکھ کر بانگ دیتے … اللہ کی ربوبیت کا اعلان کرتے اور فضائے بسیط میں اس کی صوتی لہریں بکھیر کر دوسروں کو بھی ہم نو ا اَور ہم فکر بننے کی دعوت دیتے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 27, 2024, 4:59 PM IST | Umm Abd Muneeb | Mumbai
یہی وہ وقت ہے جب مرغ اہل آسمان کو دیکھ کر بانگ دیتے … اللہ کی ربوبیت کا اعلان کرتے اور فضائے بسیط میں اس کی صوتی لہریں بکھیر کر دوسروں کو بھی ہم نو ا اَور ہم فکر بننے کی دعوت دیتے ہیں۔
صحر الغامدی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللهُمَّ بَارِكَ لا مَّتِي فِي بُكُو رِھَا۔ ( اے اللہ میری امت کے بکور یعنی دن کے پہلے حصے میں برکت دے۔ ) ( سنن ترمذی، ابو داؤد کتاب البیوع، طبرانی فی الاوسط)۔ اسی لئے جب آپ ؐ کسی لشکر کو روانہ کرتے تو دن کے ابتدائی وقت میں روانہ فرماتے۔ یہ وہ دعائے برکت ہے جسے اپنی امت کے لئے رسولؐاللہ نے اس رب العالمین سے مانگا جو ارض و سما کا پیدا کرنے والا سورج اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر دوڑانے والا اور رات اور دن کو آگے پیچھے لانے اور لے جانے والا ہے۔
دنیا کے مہذب اور غیر مہذب، دانشور اور کم علم شہری و دیہاتی سبھی انسان یہ حقیقت جانتے اور محسوس کرتے ہیں کہ صبح کا وقت اپنی برکات اور ثمرات میں دن کے دوسرے تمام اوقات سے منفر د بھی ہے اور افضل بھی۔ رات کو جب زندگی کا ہنگامہ تھم جاتا ہے، پوری دنیا کو ایک پرسکون اور اطمینان آمیز سکوت کا سحر ٹھنڈی میٹھی لوری دے کر سلا دیتا ہے، جب چاند ستارے اور کہکشاؤں کے جھرمٹ نیلے آسمان پر محفل نشاط و نور سجا لیتے ہیں تو اس کی کوکھ سے وہ وقت جنم لیتا ہے جب انسانی جسم دن بھر کی مشقت کے بعد سو کر، اپنی تھکن کو رات کے سناٹے کے سپرد کر کے صبح دم نئی زندگی اور نئی توانائی کے ساتھ کارزار حیات میں اترتا ہے۔
یہی (بکوریعنی دن کا پہلا حصہ) وہ وقت ہے جب ذہن اپنے ارادوں اور ولولوں کو باہم متفق پاتا اور کچھ کر گزرنے کیلئے کمر ہمت باندھ لیتا ہے۔
یہی وہ وقت ہے جب مرغ اہل آسمان کو دیکھ کر بانگ دیتے … اللہ کی ربوبیت کا اعلان کرتے اور فضائے بسیط میں اس کی صوتی لہریں بکھیر کر دوسروں کو بھی ہم نو ا اَور ہم فکر بننے کی دعوت دیتے ہیں۔
یہی وہ وقت ہے جب جانور بیدار ہو کر رب العالمین کی تسبیح کرتے ہیں۔ ان کو اس بابرکت وقت کا اتنا صحیح ادر اک ہوتا ہے کہ شفق پر لالی پھیلے یا نہ پھیلے، سورج نظر آئے یا نہ آئے، بہر صورت اپنی تسبیح خوانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور پھر خالی پیٹ گھونسلوں سے نکل کر حصول معاش کے بعد شام کو لوٹ آتےہیں۔
یہی وہ وقت ہے جب شبنم کے ننھے ننھے آب دار قطرے پتوں اور پھولوں کی مخملیں سیج پر بیٹھ کر اہل نظر کے لئے کیف و سرور بہم کرتے ہیں ۔
یہی وہ وقت ہے جب باد نسیم، باد صبا اور با دسحر جیسے ناموں سے یاد کی جانے والی خوش گوار ہوا چلتی ہے۔
یہی وہ وقت ہے جب کسان خشک زمین کے سینے میں بیچ ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بالیدگی سے نواز کر زمین کو سر سبز خلعت پہناتا اور خطہ ارضی پر بننے والے ان گنت انسانوں اور جانوروں کے لئے غذا تیار کرتا ہے۔
یہی وہ وقت ہے جب سرسبز پودے آکسیجن کا حیات بخش جوہر فضا کے حوالے کرتے ہیں، یوں رب العالمین انسانوں اور حیوانوں کے تنفس کو جاری رکھنے کا سامان مہیا کرتا ہے۔
یہی وہ وقت ہے جب بیمار بھی مرض میں افاقہ اور جسم میں آسودگی کی نعمت محسوس کرتے ہیں۔
یہی وہ وقت ہے جس کے مختلف ناموں کی قسم کھا کر رب العزت، اپنی الوہیت، اپنی ربوبیت اور اپنی وحدانیت کی شہادت پیش کر کے انسان کو بھی فریضہ ٔ شہادت ادا کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
’’فجر کی قسم اور دس راتوں کی قسم۔ ‘‘ (الفجر)
’’ قسم ہے چاشت کے وقت کی، اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔ ‘‘ (الضحیٰ)
’’ اور صبح کی قسم جب سانس لے۔ ‘‘ (التکویر)
اس با برکت وقت کے نقیب سورج کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی قسم۔ ‘‘ (الشمس)
رسولؐ نے ” بکور“ کہہ کر اس وقت میں برکت کیلئے دعا کی۔ آئیے ذرا تفصیل سے سمجھیں کہ بکور کیا ہے؟ اس کے لئے عربی کی طرف رجوع کیا تو پتا چلا کہ’’ بکر‘‘ کسی چیز کے پہلے حصے کا نام ہے نیز اس کا مطلب کنوار پن بھی ہے۔ (الیاس قاموس المصری ) اہل زمین نے دن کے اس پہلے حصے کو کئی ناموں اور حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ قر آن میں اس کے نام سحر، فجر صبح اور ضحی بھی آئے ہیں۔
ہمارے اردو محاورے میں کبھی تو سحر، فجر اور صبح کو ہم معنی استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی ان میں فرق بھی کیا جاتا ہے، مثلاً رمضان میں جس وقت کھانا کھا کر روزہ رکھا جاتا ہے اسے سحری کہتے ہیں اور اس کے بعد اذان اور نماز کے وقت کے لئے لفظ صبح اور فجر ہیں البتہ ضحی یعنی چاشت کا وقت سورج نکلنے کے بعد سے لے کر اس کے اچھے خاصے بلند ہو جانے کے عرصے پر محیط سمجھا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم عطا کئے تھے۔ آپؐنے دن کے پہلے پہر کے کسی مخصوص حصے کا نام لینے کے بجائے اس کا ایک جامع نام لیا تا که هر زبان اور ہر محاورے کے مطابق، دن کے پہلے حصے میں موجود ہر لمحہ اور گھڑی اس دعائے برکت کے احاطہ ٔ رحمت میں سمٹ کر خوش نصیب امتیوں کے لئے سعادت کا پیش خیمہ بن جائے۔ آئیے ! یہ دیکھیں کہ رسول ؐ اللہ کے پیش کردہ دین کی زبان اور بیان میں ان اوقات ِبکور کا تعین کس طرح ہوا ہے:
سحر: سحر کا اصل مطلب پھیپھڑے کے ہیں۔ مجاز اً اس کا استعمال صبح سے کچھ پہلے رات کے آخری حصے کے لئے ہوتا ہے۔ جب رات کی سیاہی دن کی روشنی سے مل جاتی ہے۔ چونکہ یہ دن کے آنے اور صبح کے سانس لینے کا وقت ہوتا ہے اس لئے اس وقت کا یہ نام بطور استعارہ پڑا۔ (لغات القرآن) قرآن حکیم میں سحر کا لفظ نماز اور اذان سے قبل کے وقت ہی کیلئے آیا ہے۔ اہل ایمان کی تعریف میں فرمان الٰہی ہے:’’وہ راتوں کو تھوڑی سی دیر سویا کرتے تھے، اور رات کے پچھلے پہروں میں (اٹھ اٹھ کر) مغفرت طلب کرتے تھے۔ ‘‘ ( الذاريات : ۱۷ - ۱۸)
نیز فرمایا:
’’(یہ لوگ) صبر کرنے والے ہیں اور قول و عمل میں سچائی والے ہیں اور ادب و اطاعت میں جھکنے والے ہیں اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں اور سحر کے وقت اﷲ سے معافی مانگنے والے ہیں۔ ‘‘ (آل عمران : ۱۷)
وقت سحر کا تعین اس حدیث نبوی ؐسے بھی ہوتا ہے جس میں آپ ؐنے فرمایا: ’’سحری کھایا کرو اسلئے کہ سحری میں برکت ہے۔ (بخاری، مسلم )
معلوم ہوا کہ سحر یا سحری اصلاً رات کا حصہ ہے لیکن فجر کے ساتھ ملحق ہونے کی وجہ سے یہ بھی ” بکور‘‘ کی برکات سے معمور ہے اور یہ وہ وقت ہے جس میں نمازتہجد ادا کی جاتی ہے۔ اقبال نے سحر کے عنوان کے تحت کہا تھا:
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندہ ٔمومن کی اذاں سے پیدا
ابن مسعود ؓسے روایت کردہ مندرجہ ذیل حدیث میں اذان سحر کا ذکر اس طرح ہے: ’’تم میں سے سحری کھانے سے کسی کو بلال ؓکی اذان نہ رو کے اس لئے کہ وہ رات سے اذان دے دیتے ہیں، تاکہ تم میں سے نماز پڑھنے والا (سحری کھانے کے لئے ) چلا جائے اور سونے والا بیدار ہو جائے اور صبح وہ نہیں ہے جو ایسی ہو ( اور آپؐ نے اپنے ہاتھوں کو سیدھا کیا اور انہیں بلند کیا، پھر فرمایا) جب تک ایسی نہ ہو (پھر آپؐ نے اپنی انگلیوں کو کھول دیا)۔ اس اشارے سے مراد یہ ہے کہ جب تک صبح کی سفیدی افق پر پھیل نہ جائے۔ ‘‘ (صحیح مسلم کتاب الصوم، بخاری، ابوداؤد)
فجر: اس کا مطلب پو َ پھٹنا ہے، صبح کی سفید سفید، دھیرے دھیرے پھیلنے والی روشنی کا نام ہے اور یہ سحر کے بعد کا وقت ہے چنانچہ روزہ داروں کے لئے ارشادربانی ہے: ’’اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ ہو جائے۔ “ ( البقره : ۱۸۷)
لیلۃ القدر ( قدر والی رات ) کب تک رہتی ہے؟ قرآن حکیم نے اس کی جو وضاحت کی ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سحر رات کا آخری حصہ ہے اورفجر دن کا ابتدائی وقت ... ارشاد ربانی ہے : ’’ وہ (رات) سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔ ‘‘ (القدر:۶)۔ فجر کا آغاز اور اس کا اختتام کیا ہے؟ اس کی وضاحت اس حدیث میں ملتی ہے جس میں رسول کریمؐ نے نماز کے اوقات کے بارے بتایا اور کہا:
’’مجھے جبریل علیہ السلام نے فجر اس وقت پڑھائی جب روزہ دار کھانا پینا ترک کر دیتا ہے۔ ‘‘ اور پھر اسی حدیث میں دوسرے روز کا ذکر کرتے ہوئے آپ ؐنے فرمایا: ’’دوسرے دن نماز فجر اس وقت پڑھائی جب روشنی پھیل گئی۔ ‘‘ (ایک طویل حدیث کا حصہ …سنن ابی داؤد، للالبانی، الجز الاول)
صبح اور صباح: اس کا مطلب بھی پو َ پھٹنا ہے، اللہ نے صبح کے حوالے سے اپنا تعارف یوں کروایا:
’’وہی، صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے۔ ‘‘ (الانعام:۹۶)
ضحٰى: اسے اردو اور فارسی میں چاشت کہتے ہیں۔ اہل عرب نے سورج نکلنے کے بعد کے وقت کے بالترتیب مندرجہ ذیل نام تجویز کر رکھے ہیں۔ اشراق، بکور، غدوہ، ضحی، ہاجرہ۔ (مترادفات القرآن )۔ اس ترتیب کے مطابق ضحی دن کے پہلے حصے کا آخری وقت ہے جبکہ عموماً ان چاروں اوقات کو کسی ایک وقت کا نام لے کر ظاہر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اردو میں اس پورے وقت کا نام چاشت ہے۔ بہرکیف، بکور کی جو خصوصیات مضمون کے ابتدائی حصے میں بیان کی گئی ہیں اُنہیں ذہن نشین رکھنا اور دوسروں تک پہنچانا ازحد ضروری ہے کیونکہ مسلم معاشرہ کے کم و بیش ۸۰؍ فیصد لوگوں کی صبح تب ہوتی ہے جب سورج کافی بلند ہوچکا ہوتا ہے۔ اس ’’دیر خیزی‘‘ کی وجہ سے نماز فجر تو قضا ہوتی ہی ہے، ہمیں وہ برکت نہیں ملتی جو صبح کے ابتدائی حصے میں کاموں کو نمٹانے کی کوشش میں حاصل ہوتی ہے۔