یہ صحیح ہے کہ اس تہذیب میں جنگ ہونے کے شواہد دستیاب نہیں ہیں مگر جب وہ ہتھیار دستیاب ہوگئے ہیں جن سے جنگ کی جاتی ہے تو کبھی جنگ ہونے کے شواہد بھی دستیاب ہوسکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: November 08, 2024, 12:27 AM IST | Mumbai
یہ صحیح ہے کہ اس تہذیب میں جنگ ہونے کے شواہد دستیاب نہیں ہیں مگر جب وہ ہتھیار دستیاب ہوگئے ہیں جن سے جنگ کی جاتی ہے تو کبھی جنگ ہونے کے شواہد بھی دستیاب ہوسکتے ہیں۔
ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے جس کا نام ہے ’’اہنسا‘‘۔ کتاب کے مصنف کا ایک معاصر اخبار نے انٹرویو شائع کیا ہے۔ مصنف نے اس انٹرویو میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ میں نئی نسل کو جتانا چاہتا ہوں کہ تم علی بابا جیسے ہو اور تمہارے سامنے قصوں کہانیوں اور کتھاؤں کی شکل میں علم و دانش کا گہرا غار ہے جس میں قیمتی جواہر چھپے ہوئے ہیں۔ مصنف کا تعارف ’’مائتھو لوجسٹ‘‘ کے طور پر کراتے ہوئے ان کے حاصل ِ مطالعہ کو یوں پیش کیا گیا ہے کہ وادی سندھ اور ہڑپا کی تہذیب ساڑھے چار ہزار سال پہلے موجود تھی مگر اس تہذیب میں جنگ ہونے کے شواہد دستیاب نہیں ہیں۔ حاصل ِ مطالعہ کی بنیاد پورانک کتھائیں، ان کا مطالعہ اور تجزیہ ہے۔ اس لئے اس پر ازسر نو غور کرنا ضروری ہے۔ متھ (Myth) کا مطلب افسانہ، داستان اور خیالی باتیں ہیں جبکہ مائتھولوجی (Mythology) یا علم الاصنام اساطیر کے مطالعے کو انسان کے بتدریج ذہنی ارتقاء کو سمجھنے کے علم سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی متھ اور مائتھولوجی کے تصور میں بہت فرق ہے۔ اسی طرح تاریخ اور آثار قدیمہ کا علم یہ بتاتا ہے کہ انسان نے زمین پر تسلط جماتے ہی ہتھیار بنائے لیکن ابتدا میں یہ ہتھیار پتھر کے تھے۔ ہتھیار جنگلی جانوروں کے شکار کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں اور اپنی حفاظت کے علاوہ کسی اپنے جیسے کو نقصان پہنچانے کے لئے بھی۔
’’ہڑپا‘‘ اور ’’موہن جوداڑو‘‘ کی تہذیبوں میں اسلحہ بنائے جانے کے شواہد موجود ہیں۔ کھجور کے پتوں کی شکل کے کچھ چاقو اور تلوار دستیاب ہوئی ہیں۔ تیرکمان، بلم، نیزے اور بھالے بھی دستیاب ہوئے ہیں۔ رامائن اور مہا بھارت میں بھی تیرکمان اور بھالے کا ذکر موجود ہے۔ چوتھی صدی قبل مسیح یعنی تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے سکندر اور پورس کی جنگ میں استعمال ہوئے برچھے، بلم اور تلوار کے تذکرے بھی ملتے ہیں۔ خنجر کے استعمال کے حوالے بھی موجود ہیں۔ پھر کیسے تسلیم کیا جائے کہ یہ دور یا تہذیب ’اہنسا‘ پر مبنی تھی اور اس تہذیب میں اسلحہ یا ہتھیار کا استعمال صرف جانوروں کے استعمال کے لئے ہوتا تھا۔ سالار جنگ میوزیم حیدرآباد، انڈیا یا (انڈین) میوزیم کولکاتا، پرنس آف ویلز میوزیم ممبئی، سٹی پیلس میوزیم جے پور اور کئی دوسرے میوزیم میں پتھر کے بنے ہوئے اسلحہ موجود ہیں اور کوئی بھی انہیں دیکھ سکتا ہے۔ دہلی کی ’اسلحہ گیلری‘ میں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے بھی دو سو سال پہلے کی تلوار موجود ہے۔ یہ تلوار یوپی کے ہی ’’پپرادا‘‘ گاؤں میں کھدائی کے دوران تقریباً ۷۵؍ یا ۱۰۰؍ سال پہلے حاصل کی گئی تھی۔ مغربی جرمنی کے ایک شہر برلن میں ایک تلوار نمائش کے لئے رکھی گئی تھی جس پر کوئی رسم الخط میں محمدؐ لکھا ہوا ہے۔ کہتے ہیں اس کو یمن سے برآمد کیا گیا تھا۔ یہ تحقیق ابھی باقی ہے کہ واقعی یہ تلوار نبی محترمؐ کی ہے یا نہیں۔
عرب میں قریش اور ہندوستان میں راجپوت اپنی تلوار پر انتہائی فخر کرتے تھے یعنی اسلحہ موجود ہونے اور ان کو استعمال کئے جانے کے اتنے شواہد ہیں کہ ان کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ظاہر ہے یہ اسلحہ صرف جانوروں کے شکار کے لئے استعمال نہیں کئے جاتے تھے۔ وادی سندھ اور ہڑپا کی تہذیبوں کے پس منظر میں پوچھا جاسکتا ہے کہ جب ان تہذیبوں کے بارے میں ہی انسان لاعلم تھا تو ان تہذیبوں میں جنگ ہونے اور جنگ میں اسلحہ استعمال کئے جانے کے بارے میں کیا بتا سکتا ہے۔ فاضل مصنف نے کہا ہے کہ ہم جو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں وہ کتھا کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔ وادی سندھ کی تہذیب کی کوئی کتھا نہیں ہے البتہ وہاں کے آرٹ اور آرکیٹیکچر کے باقیات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا سوچتے، پہنتے، کھاتے اور کس طرح رہتے تھے؟ اس لئے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وادی سندھ کی تہذیب کے بارے میں ہمیں کافی باتیں معلوم بھی نہیں ہیں تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تہذیب عدم تشدد یا اہنسا پر مبنی تھی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا جانوروں کا شکار ہنسا نہیں ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ یہاں جنگ ہونے کا ایک بھی ثبوت نہیں ملا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو مگر کیا طرح طرح کا اسلحہ بنایا جانا یا استعمال میں ہونا اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہاں یا اس تہذیب میں شکار کے علاوہ بھی اسلحہ استعمال کیا جاتا تھا۔ مصر، عراق اور میسو پوٹامیہ بھی قدیم تہذیبیں ہیں مگر ان قدیم تہذیبوں کے موجود ہونے کے بھی شواہد ہیں اور ان تہذیبوں میں جنگ ہونے کے بھی۔
آج سے تقریباً ۴۵۰۰؍ سال پہلے ایک ترقی یافتہ تہذیب کے موجود ہونے کا جب بھی ذکر کیا جاتا ہے تو اس کو وادی سندھ یا ہڑپا کی تہذیب یا موہن جوداڑو کی تہذیب کہا جاتا ہے مگر انیسویں صدی کے اختتام تک اس کا سراغ نہیں لگایا جاسکا تھا کہ یہ تہذیب کہاں تھی اور اس کے کیا امتیازات تھے۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں آثار قدیمہ کے دو ماہرین، آر ڈی بنرجی اور ڈی آر ساہنی نے سندھ میں موہن جوداڑو اور پنجاب میں ہڑپا کی تہذیبوں کی دریافت کی۔ شہروں کی دریافت کے لئے کھدائی کا کام جان مارشل کی نگرانی میں شروع ہوا تھا۔ کھدائی میں جہاں دوسری باقیات دستیاب ہوئی ہیں وہیں ہتھیار بھی دستیاب ہوئے ہیں۔ یہ دستیاب ہتھیار ثبوت ہیں کہ وادی سندھ کی تہذیب میں کلہاڑی، بلم اور چاقو چھرے یعنی پھلدار ہتھیار بھی بنائے جاتے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ اس تہذیب میں جنگ ہونے کے شواہد دستیاب نہیں ہیں مگر جب وہ ہتھیار دستیاب ہوگئے ہیں جن سے جنگ کی جاتی ہے تو کبھی جنگ ہونے کے شواہد بھی دستیاب ہوسکتے ہیں۔ یہ فیصلہ سنانا کہ وادی سندھ کی تہذیب میں جنگ نہیں ہوئی یا جنگ کا تصور نہیں تھا عجلت میں اخذ کیا گیا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ وادی سندھ کی تہذیب سے متعلق بہت سی باتیں نہ معلوم ہونے کا اعتراف کیا جاتا رہا ہے یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا ہے کہ اس وقت کون سا رسم الخط رائج تھا؟
فاضل مصنف کی تحقیق اور تحقیق کے لئے دستیاب شواہد بہت قابل قدر ہیں مگر ان کی بنیاد پر کوئی نتیجہ اخذ کرنے یا ان نتائج سے اتفاق یا اختلاف کرنے کے سلسلے میں ہم آزاد ہیں۔ ہمیں بھی نتیجہ اخذ کرنے سے کوئی نہیں روکتا البتہ تحقیق یا نتیجہ اخذ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو بھی بات کہی یا نتیجہ اخذ کیا جائے وہ دلائل و شواہد کی بنیاد پر کیا جائے۔ وادی سندھ کی تہذیب کے بارے میں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ اس میں جنگ ہونے، جنگ کے مدمقابل اور جنگ کا سبب جاننے میں دنیا ابھی تک ناکام ہے مگر وہ اسلحہ تو وادی سندھ کی تہذیب میں بھی استعمال کئے جاتے تھے جن سے جنگ لڑی جاتی تھی۔ کیا مزید تحقیق کے بعد یہ انکشاف نہیں ہوسکتا کہ جنگ لڑی گئی، کن کے درمیان اور کس سبب سے لڑی گئی۔n