ہندوستانی شہریت ترک کرکے کسی دوسرے ملک کی شہریت اپنالینے کا رجحان پچھلی دو دہائیوں میں زیادہ بڑھا ہے۔ ۲۰۲۱ء کے بعدسے ہر سال دو لاکھ سے زیادہ لوگ ہندوستانی شہریت تیاگ رہے ہیں۔ محققین کیلئے ریسرچ کا یہ دلچسپ موضوع ہوسکتا ہے کہ اگر بھارت واقعی ’’ وشو گرو‘‘ بن گیا ہے اور ہم’’امرت کال‘‘میں جی رہے ہیں تو ہندوستانی شہریوں کا ’’ بھارت چھوڑو‘‘ سلسلہ تھم کیوں نہیں رہا ہے؟
پچھلے ہفتے انسٹا گرام پر ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوئی جس میں ایک شخص ہندوستان کی شہریت سے دستبرداری اورنیوزی لینڈ کی شہریت کی حصولیابی پر جشن منارہا ہے۔اس وائرل ویڈیو پر سوشل میڈیا میں گرماگرم بحث چھڑ گئی۔ کچھ لوگ اس حرکت کو قومی توہین قرار دے کر اسے شخص کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو کچھ لوگ اس کا دفاع کررہے ہیں۔ ایک شخص نے طنزکرتے ہوئے لکھا:’’انڈیا میں سب سے بڑا کارنامہ انڈیا چھوڑدینا ہے۔‘‘
اپنے وطن سے بیرون ملک ہجرت کرنے کا یہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ ہرسال لاکھوں کی تعداد میں لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں امریکہ،کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا اور عرب ممالک روانہ ہورہے ہیں۔روٹی کمانے کے لئے جب بہار یا اتر پردیش کا کوئی بے روزگار نوجوان اپنے گاؤں سے کلکتہ یا ممبئی تک کا سفر کرتا ہے تو کچھ دن تک اداس رہتا ہے تو تصور کیجئے کہ کسی شخص کے لئے اپنے مادر وطن کی شہریت سے دائمی طورپر محروم ہوجانے کا فیصلہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہوگا۔ اسی لئے یہ سوچ کر حیرت اور تاسف دونوں ہوتا ہے کہ وائرل ویڈیو میں ہندوستانی شہریت ترک کرنے والا شخص خوشی سے رقص کیسے کررہا ہے؟وطن سے ہمیشہ کیلئے رشتہ منقطع کرنا توبے حد کٹھن فیصلہ ہوتا ہے۔ توکیا یہ سمجھا جائے کہ وطن عزیز میں رہنا اب اتنا مشکل ہوگیا ہے کہ کسی دوسرے ملک کا رہائشی پروانہ ملتے ہی لوگ خوشی سے سرشار ہوجاتے ہیں۔
۲۰۲۰ء کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ سے پتہ چلا کہ جس ملک کے شہریوں کی سب سے بڑی آبادی (Diaspora) دنیا کے دیگر ممالک میں مقیم ہے وہ ہندوستان ہے۔ ۲۰۲۰ء میں یہ تعداد ایک کروڑ اسی لاکھ تھی جو ممکن ہے پچھلے پانچ سالوں میں دو کروڑ تک پہنچ گئی ہوگی۔ان میں سے تقریباً ۹۰؍ لاکھ چھ خلیجی ریاستوں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، اومان اور بحرین اور پچاس لاکھ امریکہ میں مقیم ہیں۔ ہندوستانی شہریت ترک کرکے کسی دوسرے ملک کی شہریت اپنالینے کا رجحان پچھلی دو دہائیوں میں زیادہ بڑھا ہے۔ ابھی چار پانچ سال قبل تک ایسے شہریوں کی سالانہ تعداد لاکھ سوا لاکھ تھی جس میں ۲۰۲۱ء کے بعدسے تیزی سے اچھال آیا اور اب ہر سال دو لاکھ سے زیادہ لوگ ہندوستانی شہریت تیاگ رہے ہیں۔ محققین کیلئے ریسرچ کا یہ دلچسپ موضوع ہوسکتا ہے کہ اگر بھارت واقعی ’’ وشو گرو‘‘ بن گیا ہے اور ہم’’امرت کال‘‘میں جی رہے ہیں تو ہندوستانی شہریوں کا ’’ بھارت چھوڑو‘‘ سلسلہ تھم کیوں نہیں رہا ہے۔
کسی جغرافیائی خطے سے لوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی اور ہجرت کے دو اہم اسباب ہوتے ہیں: جنگ اور بھکمری۔ خدا کا شکر ہے ہندوستان جنت نشان میں یہ دونوں عوامل کار فرما نہیں ہیں۔ ہندوستانی شہری فاقہ کشی یا جنگ کی تباہی سے بچنے کیلئے ہندوستان نہیں چھوڑ رہے ہیں بلکہ اپنی آنکھوں میں بہترمستقبل کے سپنے سجائے لاکھوں لوگ ہندوستان سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جانے کے لئے کوشاں ہیں۔ جنہیں قانونی طریقے سے باہر جانے کا موقع نہیں ملتا ہے وہ غیر قانونی طریقے اپنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔آپ ان لوگوں کی مجبوری کا اندازہ لگاسکتے ہیں جو امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں جابسنے کے لئے اتنے بیتاب ہیں کہ اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ تین سال قبل غیرقانونی طریقے سے امریکہ جانے کی کوشش میں گجرات کا ایک شخص ، اس کی اہلیہ اور دو معصوم بچےشدید سردی سے ٹھٹھر کر مر گئے تھے۔
ایک اور نیا رجحان پچھلے دس برسوں میں تیزی سے ابھرا ہے وہ ہے کروڑپتی اور ارب پتی صنعت کار وں کا ہندوستان کو خیر باد کہنا۔ ۲۰۲۳ء میں ایسے لوگوں کی تعداد چھ ہزار سے تجاوز کرگئی۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ بھلا ان جیسے دھنا سیٹھوں کو جلاوطنی کی زندگی اختیار کرنے کی کیا مجبوری ہوگی۔ یہ بزنس مین در اصل بہتر کاروباری منافع، ٹیکس کی بچت، اعلیٰ معیار رہائش،بہتر ہیلتھ کئیر اور ایک شاندار پاسپورٹ کیلئے امریکہ، یورپی یونین، سنگاپور یا دبئی منتقل ہورہے ہیں۔
سرمایہ دار بڑی تعداد میں اپنا بزنس باہر منتقل کررہے ہیں۔ یورپ کے کئی ممالک خطیر رقم کے عوض شہریت بیچ رہے ہیں۔پچھلے پانچ برسوں میں لاکھوں لوگ دبئی بھی شفٹ ہوگئے ہیں جہاں صرف دو ملین درہم(پانچ کروڑ سے روپئے بھی کم)کی جائیداد خریدنے پر پوری فیملی کے لئے گولڈن ویز ا دستیاب ہے۔ ٹرمپ ایک جانب غیرقانونی تارکین وطن کو ملک بدر کررہے ہیں اور دوسری جانب انہوں نے ہر اس غیر ملکی شہری کو امریکہ کی شہریت دینے کا اعلان کردیا ہے جو پانچ ملین ڈالر (۴۳؍ کروڑ روپے)خرچ کرنے کے لئے تیار ہے۔میرا خیال ہے کہ ایسے ہندوستانیوں کی تعداد ہزاروں میں ہوگی جو چمچماتے گرین یا گولڈن کارڈ کے لئے پانچ ملین ڈالر ٹرمپ پر نچھاور کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ درجنوں ارب پتی ایسے بھی ہیں جو ملک سے ہجرت کرکے نہیں بلکہ ملک کے قانون سے بچنے کی خاطر یہاں سے بھاگے ہیں۔ ان میں میہول چوکسی بھی ہیں اور وجے مالیا بھی نیرو مودی بھی اور للت مودی بھی۔ یہ لوگ ہندوستان کے بینکوں کو ہزاروں کروڑ کا چونا لگا کر بھاگے ہیں اور آج ناجائز دولت کے بل بوتے پر لندن، پیرس اور نیویارک میں عیش کررہے ہیں۔
یہ ستم ظریفی نہیں بلکہ ریاکاری ہے کہ جو لوگ ہندوستان کی شہریت چھوڑ کر کسی یورپی ملک کی شہریت خرید چکے ہیں یا ہندوستان کا پاسپورٹ سرینڈر کرکے امریکہ کا گرین کارڈ حاصل کرچکے ہیں وہ ہم بھارت واسیوں کو قوم پرستی اور حب الوطنی پر لیکچر دیتے ہیں۔چند سال قبل فلم اسٹار اکشے کمار اچانک جب ہمیں دیش بھکتی کا پاٹھ پڑھانے لگے تب یہ راز کھلا کہ اکیسویں صدی کے’’ مسٹر انڈیا‘‘ نے بہت پہلے ہی ’’بھارتیہ ناگرکتا ‘‘چھوڑ کر کینیڈا کی شہریت خرید لی تھی۔ جب چاروں جانب اکشے کی منافقت کی مذمت ہونے لگی تو ’’کھلاڑی‘‘ نے ایک نیا گیم کھیلا اور ۲۰۲۳ء میں بھارت کی شہریت دوبارہ اپنالی۔ شہریت نہ ہوئی شرٹ ہوگئی کہ جب چاہا اسے اتار دیا اور جب ضرورت ہوئی تو دوبارہ زیب تن کرلیا۔
بھارت دنیا کی سب سےبڑی جمہوریت اور دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے۔ پھرہندوستانی شہری کیوں ہمہ وقت رسی تڑا کر امریکہ یا یورپ جانے کے فراق میں رہتے ہیں۔ ایک اور بات میری فہم سے بالاتر ہے۔ اگر بی جے پی کے بیانیہ پر یقین کریں تو پچھلے پچیس برسوں میں گجرات ترقی اور خوشحالی کی بلندیوں پر پہنچ چکاہے اور گجرات کا ڈیولپمنٹ ماڈل ملک کے دوسرے صوبوں کی بھی تقدیر بدل سکتا ہے تو پھر امریکہ جانے کی زیادہ جستجو ملک کی پسماندہ ریاستوں کے باسیوں کے بجائے ’ترقی یافتہ‘ گجرات کے باشندے کیوں کرتے ہیں۔