• Mon, 28 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہنرمندوں کی اندرون و بیرون ملک ضرورت اورہم

Updated: December 14, 2020, 12:49 PM IST | Bharat Jhunjhunwala

وہ افراد جنہیں ہم کاریگر کہتے ہیں، وہ کسی کارخانے میں بیٹھ کر متعلقہ ہنر سیکھ لیتے ہیں مگر اُن کی باقاعدہ تدریس و تربیت کا کوئی خاص نظم ہم نے قائم نہیں کیا،کم از کم بڑے پیمانے پر تو نہیں کیا۔

Skilled Worker
ہنرمندوں کی اندرون و بیرون ملک ضرورت اورہم

میک کنسی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں اعلیٰ اسکولی تعلیم سے سرفراز ساڑھے آٹھ کروڑ ہنرمند ملازمین کی قلت ہے جبکہ ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ملکوں میں پرائمری تعلیم تک محدود رہ جانے والے ساڑھے نو کروڑ غیر ہنرمند مزدور یا ملازمین بیکار بیٹھے ہیں۔
   اس پس منظر میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر ہم اپنے ملک کے اُن تمام لوگوں کو ہنر سکھائیں جو پرائمری ایجوکیشن حاصل کرچکے ہیں مگر غیر ہنرمند ہیں، تو مذکورہ ملکوں کو ہنرمند مزدور یا ملازم فراہم کرنے میں ہمارا اہم کردار ہوسکتا ہے۔ مگر زمینی حقائق پریشان کن ہیں۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ویلڈنگ کے صدر شری ایس سری نواسن کا کہنا ہے کہ کم از کم ۱۰؍ ہزار ویلڈرس چین، روس اور شمالی یورپی ملکوں سے بلائے گئے ہیں تاکہ ہندوستان میں ویلڈرس کی کمی پوری کی جاسکے۔ معلوم ہوا کہ ہم ہنرمندوں کی فراہمی کا منصوبہ بنارہے ہیں مگر اپنے ہی ملک میں ہمیں ویلڈرس کی کمی اور قلت کا سامنا ہے، اب کوئی بتائے کہ کیا ہم اس مختصر شعبے میں بھی گلوبل لیڈر بننے کا اعزاز حاصل کر سکتے ہیں؟
 وزیر اعظم نے اسکل ڈیولپمنٹ اینڈ آنٹرپرینرشپ (ایم ایس ڈی ای)کے نام سے ایک علاحدہ وزارت قائم کی ہے شاید اس لئے کہ ہنرمندی کے عصری تعلیمی اداروں کے بجائے ہنرمند افراد پیدا کرنے کا ایک جامع نظم قائم ہو مگر اس وزارت کو جو بجٹ دیا گیا ہے وہ معمولی ہے۔ صرف ۳؍ ہزار کروڑ روپے۔ اس کے برخلاف وزارت تعلیم کا بجٹ (۲۱۔۲۰۲۰ء) ۹۹؍ ہزار کروڑ روپے ہے۔ ملک کی ضرورتوں کے پیش نظر ۳؍ ہزار کروڑ کے بجٹ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم جنگل کی آگ کو تین بالٹی پانی سے بجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مسئلہ یہی نہیں اور بھی ہے۔
 مثال کے طور پر، مذکورہ وزارت (ایم ایس ڈی ای) خود بھی نوجوانوں کو ہنرمند بنانے (مثلاً ویلڈرس) میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ وہ اعلیٰ معیاری ہنر سکھانے پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتی ہے۔ اس نے امیزون، گوگل،اڈانی، اُبر، ماروتی اور مائیکروسافٹ سے معاہدے کئے ہیں۔ ایک نقطۂ نظر سے یہ بہت اچھی بات ہے مگر کیا اس کے ذریعہ ہم عالمی سطح پر ساڑھے آٹھ کروڑ ہنرمند لوگوں کی کمی کو پورا کرنے میں کوئی رول ادا کرسکتے ہیں؟
  عالمی سطح پر جن افراد کی ضرورت ہے اُن میںنرسیں، اساتذہ، فیزیوتھیراپسٹ، مترجمین اور دیگر شامل ہیں۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مذکورہ وزارت سے وابستہ افراد کے بیٹے بیٹیوں کو ویلڈر تھوڑے ہی بننا ہے، انہیں یقیناً مائیکروسافٹ اور امیزون سے دلچسپی ہوگی اسلئے وزارت نے ہنرمندی کے اُن شعبوں کی طرف نہیں دیکھا جن کی زیادہ ضرورت ہے اور جن میں ترقی کرکے ہم پوری دُنیا کو ہنرمند ملازمین فراہم کرسکتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ہندوستانیوں کو ہنرمند بنانے کا ہمارا منصوبہ اب حاشئے پر آگیا ہے۔
 دُنیا کے بہت سے ملک اور خود ہمارے ملک کی کئی ریاستیں یہ اعتراف کرچکی ہیں کہ سرکاری تعلیمی نظام کو درست کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ انہوں نے طلبہ کیلئے ایسے پروگرام (واؤچر سسٹم) مرتب کئے ہیں کہ طلبہ اپنی پسند کے اسکول میں فیس ادا کرکے داخلہ لے لیں۔ سینٹر فار سول سوسائٹی کے ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ طلبہ اپنی پسند کے اسکول میں داخلے یا تعلیم کیلئے جو فیس ادا کرتے ہیں ہانگ کانگ میں حکومت اُنہیں وہ رقم واپس کردیتی ہے۔ پاکستان کے بعض صوبوں میں حکومت ۵۵۰؍ سے ۱۱۰۰؍ روپے تک کی فیس طلبہ کی پسند کے اسکولوں کو ادا کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ متعلقہ علاقوں، صوبوں یا ریاستوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح کم ہوگئی اور ریاضی میں طلبہ کی استعداد میں اضافہ ہوگیا۔ 
 ایسا ہی انتظام فلپائن میں بھی کیا گیا ہے۔ آندھرا پردیش اور دہلی شہروں میں بھی ایسی ہی اسکیم جاری کی گئی تاکہ کامیاب ہونے والے طلبہ کا فیصد بڑھے جو ۶۴؍ سے ۷۵؍ ہوا۔ ایسے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ طلبہ پڑھنے اور اچھی تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کیلئے تیار ہیں بشرطیکہ اساتذہ اُنہیں پڑھانے کیلئے تیار ہوں۔ اساتذہ بھی پڑھانے کیلئے تیار ہوسکتے ہیں بشرطیکہ اُنہیں کارکردگی کی بنیاد پر تنخواہ دی جائے۔ آخر ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ پرائیویٹ اسکول میں ۶؍ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر تدریسی خدمات انجام دینے والا مدرس اُس معلم سے اچھا پڑھاتا ہے اور زیادہ محنت کرتا ہے جو سرکاری اسکول سے وابستہ ہے اور تنخواہ کے طور پر ہر مہینے ۶۰؍ ہزار روپے گھر لے جاتا ہے۔ 
 طلبہ کو ہنر سکھانے کیلئے وزارت تعلیم کی کارکردگی کا جائزہ لینا ازحد ضروری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ سرکاری اسکولوں کا بجٹ کم کردے اور ایسے اسکولوں کو زیادہ فنڈ فراہم کرے جو طلبہ کی اولین پسندہیں۔ ایسی صورت میں اساتذہ تدریس پر زیادہ توجہ دیں گے کیونکہ اُنہیں اُتنی رقم تنخواہ کے حصے کے طور پر نہیں ملے گی جو طلبہ کی طرف سے آنی ہوگی۔ (اس کیلئے فیس ری اِمبرسمنٹ اسکیم کو پیش نگاہ رکھا جائے تو بات زیادہ آسانی سے سمجھ میں آجائیگی)۔ تب سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو صرف غریب طلبہ ہی کو تعلیم نہیں دینی ہوگی۔ تب یہ بھی ہوگا کہ ہمارے آئین نے ’’عوامی بہبود‘‘ کو جو کلیدی اہمیت دی ہے وہ بھی عملی شکل اختیار کرسکے گی چنانچہ اساتذہ کی بہبود سے زیادہ طلبہ کی بہبود ممکن ہوسکے گی۔ تب یہ بھی ہوگا کہ ہم دُنیا کے مختلف ملکوں کو ہنرمند افراد فراہم کرسکیں گے جن کی انہیں ضرورت ہے اور ایسا کرکے ہم اپنا نام بھی روشن کریں گے اور اپنی ساکھ بھی مضبوط کرسکیں گے۔
  تب ہی ہم صرف ویلڈر فراہم کرنے کے قابل نہیں ہوں گے بلکہ دُنیا کو سافٹ ویئر پروگرام بنانے والے اعلیٰ ہنرمند افراد بھی فراہم کرسکیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK