• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’ہم نے دیکھا کہ پنڈت نہرو اور ان کی بہن وجے لکشمی پنڈت عام لوگوں کی طرح گارڈن میں چہل قدمی کررہےہیں‘

Updated: December 10, 2023, 1:19 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

ملاڈ کے ۸۸؍ سالہ محمد انور خان نے میکانیکل میں انجینئرنگ کرنے کے بعد مہندرا کمپنی میں ملازمت سے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور بطور سینئر انسپکٹر وہیں سے سبکدوشی اختیار کی۔ موسیقی ،ہندی فلمی گانے ،چہل قدمی اور ہلکی ورزش ان کا روزانہ کامعمول ہے۔

Mohammad Anwar Khan Photo: INN
محمد انور خان۔ تصویر : آئی این این

جنوبی ممبئی کے مورلینڈروڈ علاقے میں رہائش پزیر محمد شکیل شیخ کے توسط سے ملاڈ کے مہندرا نگر میں مقیم ۸۸؍ سالہ محمد انور خان سے رابطہ تو تقریباً ۳؍ماہ پہلے ہوا تھا لیکن متعدد وجوہات کی وجہ سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ بالآخر۱۲ ؍نومبر۲۰۲۳ء کو ذاتی طور پر یہ ملاقات ممکن ہوسکی ۔ ان سے ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ انہیں خود انحصاری پسند ہے،ا سلئے وہ اس عمر میں بھی مہندرا نگر میں ایک پیشہ ورانہ نگراں کے ساتھ تنہارہتے ہیں ۔ ان کی ۲؍بیٹیاں اور ایک بیٹا بھی ہے لیکن انہیں تنہا رہنے کی عادت ہے ،اسلئے وہ ایک فلیٹ میں اکیلے رہتے ہیں ۔ حالانکہ ساتھ نہ رہ کر بھی ان کے بچے ان کا پورا خیال رکھتے ہیں ۔ کسی اجنبی کو ان سے تنہا ئی میں ملنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ ۳؍مہینوں سے راقم کی ان سے ملاقات نہیں ہوپا رہی تھی۔ ان کی بڑی بیٹی طلعت جہاں جو میر اروڈ ،سلور پارک میں رہتی ہیں ،کی ہدایت کےمطابق میں ۱۲؍نومبر کو ملاڈ میں واقع محمدانور خان کے گھر گیا۔ وہ میراروڈ سے یہاں آئی تھیں ۔ ان کے علاوہ گھر میں انور خان اور ان کا نگراں رائودیسائی موجودتھے۔ ۲؍بیڈروم پر مشتمل فلیٹ میں افراد کی کمی سے سناٹااورخاموشی کاماحول تھا۔ ہال میں ایک صوفہ ، چندکرسیاں ، ایک لکڑی کی الماری اور ورزش کرنےکے کچھ قیمتی سامان رکھے ہوئےتھے۔ رسمی گفتگو کے بعد میں اپنے موضوع پر آگیا اور انور خان، طلعت جہاں اور رائودیسائی سے ایک گھنٹہ ۱۴؍منٹ تک گفتگو ہوتی رہی جس میں بہت ساری باتیں ہوئیں ۔
 جنوبی ممبئی کے کرافورڈ مارکیٹ، پلٹن روڈ علاقے میں محمد انور خان کی ۳۰؍مئی ۱۹۳۵ء کو پیدائش ہوئی تھی۔ پتھر والی اسکول ( مورلینڈ روڈ ) سے ساتویں اور صابوصدیق ٹیکنیکل اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ماٹونگا کے وی جے آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ سے میکانیکل انجینئرنگ کا سرٹیفکیٹ کورس کیا۔ خوش قسمتی سے تعلیم مکمل ہوتے ہی مہندرا اینڈ مہندرا کمپنی ، ورلی برانچ میں بطور جونیئر انجینئرملازمت مل گئی۔ بعد ازاں اسی کمپنی سے ۱۹۹۶ء میں سینئر انسپکٹر کے عہدے سےسبکدوش ہوئے۔ ۳۵؍سال تک کمپنی کیلئے اپنی خدمات پیش کیں ۔ آج بھی کمپنی کی طرف سے مہندرا نگر میں دیئے گئے فلیٹ میں رہائش پزیر ہیں ۔ ملازمت سے علاحدگی کےبعد ان کی مصروفیت بہت محدود ہوگئی ہے۔ خاموش طبیعت کے مالک ہونے کی وجہ سے ان کے تعلقات بھی بہت محدود ہیں ۔ سماجی سرگرمیو ں سے دور رہتےہیں ۔ یہی وجہ ہے ضعیفی میں بھی تنہا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔موسیقی ،ہندی فلمی گانے ،چہل قدمی اور ہلکی ورزش کرنا ان کا روز کامعمول ہے۔ 
 ۱۹۴۴ء میں ممبئی بندرگاہ پر جہاز میں ہونے والے بم دھماکوں کی یاد آج بھی انور خان کے ذہن میں تازہ ہے۔ وہ اس وقت پتھر والی اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ جمعہ کا دن ہونے سے اسکول میں جلدی چھٹی ہو گئی تھی۔ اچانک آدھے گھنٹے کے وقفے میں ۲؍ زبردست دھماکے ہوئے جس کی وجہ سے پوری ممبئی دہل گئی تھی ۔ ان دھماکوں سے پوری ممبئی میں کالے دھوئیں کی چادر پھیل گئی تھی۔ دھماکوں کی شدت سے پتھر والی اسکول کے شیشے کی کھڑکیاں ٹوٹ گئی تھیں ۔ یہ تو اچھاہواکہ اسی دوران ۳۔۲؍ دنوں تک ہلکی بارش بھی ہوتی رہی جس کی وجہ سے دھماکے سے لگنے والی آگ محددو ہوگئی تھی ورنہ اور تباہی مچتی۔ محمد انور کے والد پولیس اہلکار تھے۔ ان کی ڈیوٹی اسی علاقے میں لگی تھی۔ ایسے میں محمد انور اپنے والد کی خیریت معلوم کرنے کیلئے سانکلی اسٹریٹ سے پیدل واڑی بندر گئے تھے تاکہ والدسے ملاقات کی جاسکے،اسلئے یہ واقعہ اچھی طرح سے یاد ہے۔اُن دنوں محمدانور سانکلی اسٹریٹ میں رہائش پزیر تھے۔
 محمد انور خان نے طالب علمی کے زمانے میں بوری بندر( سی ایس ایم ٹی )کی فٹ پاتھ پر اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں پڑھائی کی تھی۔ اس دور میں گھروں میں بجلی نہ ہونے سے لالٹین جلائی جاتی تھی۔ لالٹین کی روشنی میں پڑھائی نہیں ہوپارہی تھی، اسلئے انور خان پلٹن روڈ کے گھر سے ٹائمز آف انڈیا کی بلڈنگ ( سی ایس ایم ٹی ) کے قریب لگی اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں جاکر پڑھائی کر تے تھے۔
 آج اور پرانے دنوں کے سیاسی لیڈروں سے متعلق انور خان کا تجزیہ بڑا اہم اور مختلف ہے۔ نوعمری کے دنوں میں اپنےگہرے دوست بدرالدین کے ساتھ ہر اتوار کو گھنٹو ں تفریح کرنے کا لطف انہیں آج بھی یاد ہے۔ ہراتوارکو ان کے ہمراہ وہ کم وبیش ۱۰؍کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرتے تھے۔ ایک اتوار کو پلٹن روڈ سے مدنپورہ آکر بدرالدین کے ساتھ جنوبی ممبئی کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے شام ۵؍بجے ہینگنگ گارڈن پہنچنے۔ وہاں ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم پنڈ ت جواہر لال نہرو اور ان کی بہن وجے لکشمی پنڈت عام لوگوں کی طرح گارڈن میں چہل قدمی کر رہے ہیں ۔ان کے ساتھ صرف ایک عام پولیس کانسٹیبل تھا۔اس کےعلاوہ سیکوریٹی نام کی کوئی چیز نہیں تھی جبکہ آج کے دور میں سیاسی لیڈروں کےساتھ سیکوریٹی کا ایک قافلہ رواں ہوتا ہے جس پر لاکھوں روپے خر چ ہوتےہیں۔ 
 انور خان نے شروع سے بہت محتاط زندگی گزاری ہے۔ اسلئے ان کے متعلقین اوردوست احبات بہت کم ہیں ۔ مدنپور ہ کے بدرالدین واحد شخص تھے، جن سے ان کی گہری دوستی تھی حالانکہ بعد میں ان سے بھی کچھ معاملات میں اختلا ف ہوگیا۔ 
 ایک مرتبہ ممبئی میں رمضان المبار ک کےمہینے میں سحری کے وقت زلزلہ آیاتھا۔ اس دور میں انور خان اپنی فیملی کے ساتھ سانکلی اسٹریٹ کی خستہ حال ایک منزلہ عمارت میں رہتے تھے۔ سحری کر کے وہ گھر میں بیٹھے ہی تھے کہ اچانک خوفناک آوازوں کے آنے سے گھبرا گئے۔ ایسا محسوس ہوا کہ بلڈنگ ابھی گر جائے گی۔ وہ اپنی ڈیڑھ سالہ بڑی بیٹی طلعت جہاں کو گود میں اُٹھا کر تیزی سے بلڈنگ کی سیڑھیاں اُترے ہوئے ’زلزلہ آیا زلزلہ آیا‘ چلا رہے تھے ۔ ان کی آواز سن کر بلڈنگ کےمتعدد لوگ اپنی جان بچانے کیلئے سڑک پر اُتر آئے تھے۔ 
 انور خان نے ایک مرتبہ بی ایم سی اُردو میڈیم اسکول کے امتحان میں شہر میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی جس کی وجہ سے انہیں اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ہی انہیں موسیقی اور ہندی کےفلمی نغموں کا بھی شوق رہا ہے جواَب بھی برقرار ہے۔ وہ آج بھی موسیقی اور گانوں کے مداح ہیں ۔ دوران گفتگومعروف گلوکار محمدرفیع کی آواز میں گایاہوا فلم ’ہم دونوں ‘کامقبول نغمہ’’میں زندگی کاساتھ نبھاتاچلاگیا،ہرفکرکو دھوئیں میں اُڑاتاچلاگیا‘‘ انہوں نے اپنی آوازمیں سنایا۔
  موت اور زندگی کی کشمکش کاایک تلخ تجربہ جس سے انور خان نبرد آزما رہے،اس کا ذکر بھی انہوں نے کیا۔ تقریباً ڈھائی سال پہلے کی بات ہے ۔ ان دنوں ایک مرتبہ وہ معمولی طور پر بیمار ہوئے، اس کے باوجود وہ کافی کمزوری محسوس کررہے تھے۔ وہ گھر میں تنہا تھے ۔کسی طرح بیت الخلا ء گئے لیکن کمزوری کی وجہ سے اُٹھ نہیں پارہے تھے۔ اسی حالت میں ۳۔۲؍ گھنٹہ بیت الخلاءمیں بیٹھے رہے۔ اس دوران ان کی چھوٹی بیٹی تبسم جو کویت میں مقیم ہے،نے متعدد مرتبہ ان کےموبائل فون پر رابطہ قائم کرنےکی کوشش کی ، فون ریسیونہ کئےجانے سے تشویش ہو نےپر اس نے اپنے اکلوتے بھائی اقبال خان کو ، جو نیرل نوی ممبئی رہتےہیں ، ان سے رابطہ کرکے پورا احوال بیان کیا۔ اقبال خان نیرول سے ملاڈ آئے۔ کافی دیر تک زور سے دروازہ کھٹکھٹانے کےباوجود دروازہ نہ کھلنے پر پریشانی بڑھتی گئی۔ اقبال خان نے سوسائٹی کے چوکیدار کی موجودگی میں گھرکا دروازہ توڑ ا، بیت الخلاءمیں جاکر دیکھا تو انور خان بے سدھ پڑے تھے۔ اقبال خان اورچوکیدار وغیرہ نے مل کر انہیں بیت الخلاء سے باہرنکالا اورانہیں پانی وغیرہ پلایا۔اس کے کچھ دیر بعدانور خان کو ہوش آیا۔ انہوں نے بتایا کہ اُس وقت کو یاد کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ خالق کائنات نے مجھے زندگی بخشی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK