سپریم کورٹ کے فیصلے سے بے اطمینانی ہو تب بھی اس پر سر تسلیم خم کیا جاتا ہے۔ مگر، اس کے ساتھ ہی فیصلے کو سمجھنے کی کوشش بھی ضروری ہے کہ اس کے مضمرات کیا ہیں۔
EPAPER
Updated: December 25, 2023, 1:07 PM IST | P Chidambaram | Mumbai
سپریم کورٹ کے فیصلے سے بے اطمینانی ہو تب بھی اس پر سر تسلیم خم کیا جاتا ہے۔ مگر، اس کے ساتھ ہی فیصلے کو سمجھنے کی کوشش بھی ضروری ہے کہ اس کے مضمرات کیا ہیں۔
سپریم کورٹ کا اعلان کردہ ہر فیصلہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا اطلاق ہندوستان کے تمام شہریوں پر ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ادارہ انتہائی احترام اور اطاعت کا حقدار ہے۔ ۱۰؍ دسمبر کو اس عدالت کی ایک آئینی بنچ نے دفعہ ۳۷۰؍ کی `منسوخی کو برقرار رکھتے ہوئے متفقہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کہا کہ سابق ریاست جموں و کشمیر کو اب خصوصی درجہ حاصل نہیں ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں نشاندہی کی کہ ۱۹۵۰ء اور ۲۰۱۹ء کے درمیان، جموں کشمیر کی بہتری کیلئے موقع بموقع آئین ہند کی دفعات نافذ کی گئیں اور دفعہ ۳۷۰؍ کی منسوخی اس سلسلے کی آخری کڑی تھی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی درستگی پر ماہرین کی آراء مختلف ہوسکتی ہیں لیکن عدالت کا فیصلے پر پہنچنے کا استدلال منطقی اور ٹھوس ہے۔ تاہم، آرٹیکل ۳۷۰؍ کی ’منسوخی‘ کے دیگر پہلو پریشان کن ہیں : مثلاً منسوخی کے عمل میں مرکزی حکومت/پارلیمنٹ کی قانونی حیثیت اور ’وفاقیت‘ اور ’ریاستوں کے حقوق‘ پر اِس کے مضمرات۔ یہ پہلو صرف جموں کشمیر کیلئے نہیں بلکہ ملک کی دیگر تمام ریاستوں کیلئے بھی تشویشناک ہیں ۔
اول، مرکزی حکومت نے جو طریقہ کار اپنایا وہ آئین کی دفعہ ۳۶۸؍ کے خلاف تھا۔ دفعہ ۳۶۸؍ کا سہارا لے کر اور ضروری خصوصی اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں آئینی ترمیمی بل پاس کرنے کے بعد ہی آئین کی کسی شق میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ جموں کشمیر کے معاملے میں مرکزی حکومت نے دفعہ ۳۷۰ (۱) اور (د) کو دفعہ ۳۶۷؍ (وضاحتی شق) میں شق (۴) شامل کرنے کےلئے استعمال کیا۔ دفعہ ۳۷۰ (۳) میں `ریاستی قانون ساز اسمبلی کو `ریاست کی آئین ساز اسمبلی کے ساتھ بدل دیا اوراسی `ترمیم شدہ دفعہ ۳۷۰ (۳) کا استعمال کرکے دفعہ ۳۷۰؍ کو منسوخ کردیا۔
مرکزی حکومت کا یہ پیچیدہ عمل غیر دستوری کیوں تھا؟ اسے جاننے کے لئے عدالت کے فیصلے کے استدلال کو سمجھنا ہوگا۔ فیصلہ کا اقتباس نمبر ۳۸۹؍ کہتا ہے: ’’مخصوص اصطلاحات کی تشریح کرنے کے لئے وضاحتی شق کا استعمال کیا جاتا ہے، مگر وضع کردہ مخصوص طریقہ کار کے ذریعہ ہی اس میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔ اس طریقہ کو نظر انداز کر کے کسی شق میں ترمیم کرنے کے لئے اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ فیصلہ کے اقتباس ۴۰۰؍ میں لکھا ہے: ’’…مادھو راؤ سندھیا کیس میں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ دفعہ ۳۶۸؍ کے طریقہ کار کو ہٹانے کے لئے دفعہ ۳۶۶ (۲۲) کا استعمال نہیں کیا جاسکتا … دفعہ ۳۷۰؍ میں ترمیم یا اسے ختم کرنے جیسے مقاصد کیلئے دفعہ ۳۷۰ (۱) (د) اور ۳۶۷؍کااستعمال نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
دفعہ ۳۷۰ ؍ میں ترمیم کو غیر آئینی قرار دینے کے باوجود، عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دفعہ ۳۷۰ ؍(۱)(د) کے تحت صدر کی طرف سے طاقت کا استعمال جس میں جموں کشمیر کے آئین کی تمام شقوں کی پابندی کی گئی، درست تھا اور اتنا ہی موثر تھا جتنا کہ دفعہ ۳۷۰ ؍ (۳) کے تحت ایک اعلامیہ کی بنا پر دفعہ ۳۷۰ ؍ کو منسوخ کرنا۔ دفعہ ۳۷۰ ؍(۱)(د) کی دوسری شرط کے تحت ریاستی حکومت کی رضامندی کو عدالت نے غیر ضروری ٹھہرایا۔ یہی وجہ ہے کہ میری رائے میں آخر الذکر فیصلہ کی درستگی قابلِ بحث ہے۔
دوم، عدالت کو اس سوال کا جائزہ لینا چاہیے تھا کہ آیا ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے لئے آرٹیکل ۳؍ کا سہارا غیر قانونی تھا۔ تاہم، عدالت نے اس معاملے پر فیصلہ کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ مرکزی حکومت کے وکیل نے عدالت میں عرض کیا کہ حکومت (لداخ کے بغیر) جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرنے اور انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عدالت نے اسے قبول کرتے ہوئے اس عمل کے غیر قانونی ہونے کی جانچ کرنے سے انکار کر دیا اور مناسب کیس کےلئے سوال کو ’’کھلا چھوڑ دیا۔‘‘ اس کے علاوہ عدالت نے انتخابات کے انعقاد کیلئے ۳۰؍ ستمبر ۲۰۲۴ء کی حد مقرر کی لیکن ریاست کی بحالی کیلئے کوئی آخری تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔ چونکہ یہ ظاہر ہے کہ ریاست کی بحالی کے بعد انتخابات ہونے چاہئیں ، اس لئے دونوں واقعات غیر یقینی لگ رہے ہیں ۔
سوم، یہ سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ ہے، جس پر عدالت نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ دستور کی دفعہ ۳؍ کے تحت، کسی ریاست کے علاقہ میں تبدیلی یا نئی ریاست یا مرکز کے زیر انتظام علاقہ کی تشکیل کے لئے کوئی بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا، جب تک کہ صدر، ریاست کی مقننہ کے خیالات دریافت نہ کرلیں ۔ جموں کشمیر ۱۹؍ دسمبر ۲۰۱۸ء سے صدر راج کے تحت تھا۔ نتیجتاً، ریاستی مقننہ کے تمام اختیارات اور کام کاج پارلیمنٹ کے ذریعے انجام پائے۔ ریاستی مقننہ کے’’نظریات‘‘ کو بے دخل کرکے انہیں پارلیمنٹ کے ’’نظریات‘‘ سے تبدیل کیا گیا۔ صدر نے (وزیر اعظم کے مشورے پر) پارلیمنٹ (جس نے ریاستی اسمبلی کی جگہ لی تھی) سے مشورہ کیا اور پارلیمنٹ نے ریاستی مقننہ کے’’نظریات‘‘ کا اظہار کیا۔ یہ پارلیمنٹ کا عجیب دوہرا کردار تھا! اس کے بعد، پارلیمنٹ نے ریاست جموں کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کیا۔ اگر اس مشق کی آئینی حیثیت غیر یقینی رہی تو کسی بھی ریاست کو صدر راج کے تحت لایا جا سکتا ہے۔
صدر، ریاستی اسمبلی (پارلیمنٹ) کی `آراء کو جان سکتا ہے، پارلیمنٹ ریاست کو تقسیم کر سکتی ہے یا اسے دو یا اس سے زیادہ ریاستوں یا یونین میں تحلیل کرسکتی ہے۔ زیادہ تر معاملات میں سابق ریاست کی بحالی ناممکن ہوگی۔ کسی بھی صورت میں ، نئی ریاستوں یا مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی حکومتوں کے ذریعے کئے گئے زیادہ تر فیصلے اٹل اور ناقابلِ تنسیخ ہوں گے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ (آزاد ہندوستان کی پہلی) آئین ساز اسمبلی، جس میں بہت سے قانونی ماہرین شامل تھے اور جس نے ایک وفاقی ہندوستان اور پارلیمانی طرز حکومت کی حمایت کی تھی، نے اس `’’مثالی مستقبل‘‘ کا تصور کیا ہوگا؟ آرٹیکل ۳۷۰؍ کی ’منسوخی کو ایک طرف رکھیں تو ملک کیلئے سب سے زیادہ تشویشناک وہ طریقے ہیں جن کے ذریعے حکومت یعنی مرکزی حکومت، ریاستوں کے حقوق اور ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو مجروح کرکے آئین کی دفعات کو توڑ مڑوڑ سکتی ہے۔