Inquilab Logo

مسلم دُنیا کے بدلتے مزاج اور حالات سے ہمارے طلبہ کیا سبق لیں؟

Updated: January 18, 2022, 4:15 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

مسلم ممالک میں ثقافتی و تہذیبی محاذ پر ایک اُتھل پتھل سی مچی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے طلبہ اور نوجوانان سبھی مضطرب نظر آرہے ہیں،آئیے دیکھتے ہیں کہ ماجرا کیا ہے؟

Muslim students need to strengthen their foundations, not be disturbed by these conditions.Picture:INN
مسلم طلبہ کو ان حالات سے پریشان ہونے کی نہیں بلکہ اپنی بنیادوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ تصویر: آئی این این

بے چینی، اضطراب،پریشانی 
 کووِڈ کی وبا سے سارے عالم میں اضطراب کی کیفیت ہے۔ ایک غیر متوقع خوردبینی جرثومے نے سارے نظام کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ اسی کیفیت میں قومی و عالمی سطح پر کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے، جس کی وجہ سےخصوصی طور پر نوجوان طبقہ مضطرب اور بے چین ہے۔ ہمارے مقدّس مقامات جیسے حرمین شریفین، کی حرمت پر آنچ آنے والی کوئی حرکت سرزد ہوتی ہے تو سارے عالمِ اسلام میں بے چینی ہوجاتی ہے۔ ہمارے نوجوانان اور طلبہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں نے تہذیبی و ثقافتی محاذ پر ملک کا برسوں بلکہ صدیوں پُرانا چولا بدلنے کی کوشش کی ہے۔ کہا  جاتا ہے کہ وہاں پر دارالحکومت ریاض میں رقص و سرور کی کئی محفلوں کا انعقاد ہوا،جن میں دنیا بھر کی فلم اور ماڈلنگ انڈسٹری سے کئی اداکاروں نے حصہ لیا۔ کہا یہ بھی جارہا ہے کہ اُس ملک میں اب سنیما گھر، کلب اور ساحل سمندر کی سیاحت وغیرہ کے کلچر کو عام کرنے کی اجازت ملنے والی ہے۔ اِن خبروں سے مسلم دنیا میں اضطراب کی ایک لہر پیدا ہوگئی ہے۔ برِّ صغیر کے طلبہ میں بھی اِن واقعات پر بڑی لے دے ہورہی ہے۔ حسب معمول  اِن واقعات پر بھی بڑے ’حکیمانہ‘ تبصرے کئے جارہے ہیں لیکن نئی نسل کی بے چینی دُور نہیں ہوئی۔ ہم بارہا اِن کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ گزشتہ لگ بھگ تین صدیوں میں ہماری قوم نامعلوم وجوہات کی بناء پر ٹیکنالوجی اور معاشیات کے موضوعات پر مکمل بیزاری کا مظاہرہ کرتی آرہی ہے۔ مکمل پسپائی، ہزیمت کے باوجود ہماری قوم کا احساس بیدار نہیں ہوپارہا ہے کہ ان دو محاذ پر ہماری مغلوبیت ہی کی بنا پر ہم ہر جانب رُسوا ہورہے ہیں اور کئی مسلم اکثریتی ملکوں کے ہاتھ میں کٹورہ آچکا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم کام یہ کرنا ہے کہ اُس گروہ کو تلاش کرنا ہے جو تسلسل اور تواتر کے ساتھ عصری تعلیم پر لعنت بھیجتا رہا ہے اور نئی نسل کو گمراہ کرتا رہا ہے نیز نہ جانے کس بنا پر وہ ہمارے طلبہ کو  یہ باور کراتا رہتا ہے کہ ہماری قوم ان جدید و عصری علوم کے حصول کیلئے اس دنیا میں نہیں آئی ہے بلکہ وہ اس دنیا کی ’امامت‘ کیلئے آئی ہے۔ آج تک کسی نے اِن نادانوں سے یہ دریافت نہیں کیا کہ کائنات میں رائج علوم نافع کے حصول کے بغیربھی کوئی کسی گرو ہ یا جماعت کی امامت کرسکتا ہے؟  کیا اس طرح کے عاقبت ناشناس طبقے کو  کسی قوم کی قیادت کا حق پہنچتا ہے۔ اس  کی وجہ سے مسلم ممالک بڑی طاقتوں کے حکم ناموں پر اندھا دھند عمل کر رہے ہیں اور وہ اس قدر بے بس ہیں کہ اُس کے سامنے دوسرا راستہ کچھ بھی نہیں ۔
جانا پڑا رقیب کے درپر ہزار بار
    ہمار ے نوجوان اورطلبہ پریشان ہوئے اور ہم لوگوں نے اُنھیں ڈسٹرب کرنے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی۔ جب عالمی میڈیا میں اس طرح کی خبریں آئیں کہ سعودی عرب نے ۲۲۰؍ بلین ڈالر کا ریاض ۲۰۳۰ء منصوبہ بنایا ہے جس کی رو سے اُس ملک کے چند شہروں کو اب بالکل جدید و ماڈرن بنایا جائے گا۔ اسی منصوبے کا ایک حصّہ تھا فلم اسٹاروں کے ساتھ تفریحی پروگرام تو نوجوان کا بے چین ہوجانا فطری تھا۔ چونکہ دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے اسلئے سٹیلائٹ کی آنکھ سے کچھ چھپ نہیں سکتا، اس کی وجہ سے وہ سارے پروگرام دنیا کی نظروں کے سامنے آگئے۔ سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک کی اس بے بسی اور خودسپردگی کا منظر ہم نے لگ بھگ پانچ سال پہلے قطر کے ایک تعلیمی دورے پر دیکھا تھا۔اُس وقت وہاں پر ۲۰۲۲ء کے فیفا عالمی کپ کیلئےتیاریاں ہورہی تھیں۔ استفسار کرنے پر معلوم ہواکہ اس فٹ بال کے عالمی کپ کے انعقاد کی فیفا نے اجازت  ہی اس شرط پر دی ہے کہ اُس فیڈریشن کی ساری شرطیں بلا تردد قبول کر لی جائیںگے۔ اِن شرائط میں یہ بھی شامل تھاکہ وہاں شراب خانے اور جوا خانے وغیرہ کی اجازت ہوگی جو مغربی ممالک کی زندگی کا حصّہ ہیں۔ قطر کی ’اسلامی‘ حکومت نے ساری شرطیں من و عن مان لیں۔  فیفا  ہی کی مثال لیجئے۔۱۹۰۴ء میںپیرس میں فٹ بال کی ترویج و ترقی کیلئے یہ فیڈریشن قائم ہوئی تھی۔آج ۲۱۱؍ممالک اُس کے رُکن ہیں۔ فٹ بال میں چند مسلم ممالک جیسے تُرکی، مصر، قطر،سعودی عرب، عراق، بحرین،الجیریا، کویت، ملیشیا، ایران اور لیبیا وغیرہ نے بھی اچھی مہارت حاصل کرلی ہےالبتہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ درجن بھر مسلم ممالک اس کھیل میں ایک طاقت بن کر نہیں اُبھر ے، جس کے نتیجے میں اِس کھیل کے سارے معاملات میں قیادت دوسروں کے پاس ہے اور اُن کی ہر اچھی بُری شرط کو من و عن قبول کرنا اِن مسلم ممالک کی مجبوری  بن جاتی ہے۔ یہی مجبوری آج سعودی عرب کو بھی اغیار کے درپر لے گئی اور عالمی سطح پر ’سرخرو‘ ہونے کیلئے وہ ملک مغربی ممالک کے قدموں میںگرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
قدرت نے من و سلویٰ سے نوازا 
 نوجوانو! حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ مسلم ممالک پر قدرت کا بڑا کرم رہا ہے، سبھوں کو چیڑ پھاڑ کر ملتا ہے البتہ ان مسلم ممالک کو قدرت نے زمین اور سمندر پھاڑ کرنوازا ہے۔ قدرت نے اِن ممالک کی تہہ میں تیل اور قدرتی گیس کے بے پناہ خزانے پوشیدہ رکھا ہے۔ قدرت نے اِن ممالک کیلئے کیا کام باقی رکھا؟(الف) اُن خزانوں کو نچوڑ کر قابلِ استعمال بنانا(ب) اِن ذخائر کو محفوظ کرلینا( ج) اِن ذخائرکی آمدنی سے پوری ملّتِ اسلامیہ کیلئے جینے کے سامان پیدا کرنا... لیکن افسوس کہ اس دوران  کوئی پُر درد مِلّی منصوبہ نہیںبنا۔ ہم یہاں ’پُردرد‘ اصطلاح استعمال کرکے اس جانب توجّہ مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ اِن پیٹرو ممالک میں جب ملازمت کے مواقع کھل گئے تب اعلیٰ پوزیشن پر عیسائیوں ، یہودیوں او رسنگھ پریواروں کو ترجیح دی گئی۔ برِّصغیر سے ہیلپر، ڈرائیور قسم کی ملازمتوں کیلئے مسلم افراد مل سکتے تھے البتہ جب فلپائن ، سری لنکا سے کم تنخواہ والے مزدور ملنے لگے تو اِن مسلم ممالک کے شاہوں اور شیخوں نے ملّت کا درد بھلا دیا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ تو اِن پیٹرو طاقتوں کا رویّہ بڑا سفاکانہ رہا۔ ان ممالک کی قائم کردہ اسلامک ڈیولپمنٹ بینک سے وابستہ ایک ٹرسٹ کا گزشتہ ۹؍برسوں سے ٹرسٹی ہونے کے ناطے یہ میرا صرف مشاہدہ نہیں بلکہ تجربہ ہے کہ یہ اسلامی ممالک ہندوستان کے ۲۵؍کروڑ مسلمانوں کو خاطر میںنہیں لاتے۔اُن کی تعلیمی ترقی کیلئے اُن کے پاس کوئی منصوبہ نہیں اور اس کے جواز میں بڑی بے غیرتی سے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہندوستان ایک اسلامی ملک نہیں ہے وہ مسلم ممالک کی فیڈریشن کا ممبر نہیں ہے اسلئے ۲۲؍کروڑ والے ہمارے پڑوسی ملک کو خوب خوب نوازتے ہیں۔ اس ملک میں آج مسلم طلبہ اعلیٰ تعلیم کی ہر چوٹی پر اپنا پرچم لہرا رہے ہیںمگر  وہ  اِن ۲۵؍کروڑ مسلمانوں سے آنکھیں پھیرے ہوئے ہیں اور آج اسلامک ڈیولپمنٹ بینک سے ہر سال صرف چند لاکھ روپوں کا ہی عطیہ ملتا ہے۔ایک بات ہم پورے وثوق سے کہتے ہیںکہ یہ ممالک اگر ہندوستانی مسلمانوں کو اوراُن کے طلبہ کو گلے لگالیتے تو دوسر ے ممالک کے سامنے ہتھیار ڈال کر رقص وسرور کی محفلیں منعقد کرنے کی نوبت نہیں آتی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK