ایک دن ایک ہم جماعت کے گھر ۲؍ کتابیں نظر آئیں۔ ایک کا نام ’عذرا‘ تھا، اور دوسری کا نام ’عذرا کی واپسی‘ (غالباً عنایت اللہ یا کسی دوسرے بزرگ کا ترجمہ )۔
EPAPER
Updated: July 26, 2023, 3:55 PM IST | Mumbai
ایک دن ایک ہم جماعت کے گھر ۲؍ کتابیں نظر آئیں۔ ایک کا نام ’عذرا‘ تھا، اور دوسری کا نام ’عذرا کی واپسی‘ (غالباً عنایت اللہ یا کسی دوسرے بزرگ کا ترجمہ )۔
میں نے کیسے لکھنا شروع کیا؟
ایک دن ایک ہم جماعت کے گھر ۲؍ کتابیں نظر آئیں۔ ایک کا نام ’عذرا‘ تھا، اور دوسری کا نام ’عذرا کی واپسی‘ (غالباً عنایت اللہ یا کسی دوسرے بزرگ کا ترجمہ )۔ کسی نہ کسی طرح وہ جلدیں وہیں بیٹھ کر پڑھ ڈالیں اور بالکل ہی نئے قسم کے خوابوں میں ڈوب گیا۔ اب مجھے عذرا ملتی اور بڑے غور سے دیکھتی ہوئی نام پوچھتی۔ میں کہتا کہ خاکسار کو اسرار احمد ناروی کہتے ہیں..... وہ ٹھنڈی سانس لیتی اور بہت درد ناک لہجے میں کہتی’’نہیں، تم قلقراطیس ہو، میرے محبوب۔ اب سے ہزاروں سال سے پہلے ہم دونوں نے ایک دوسرے کو چاہا تھا۔ میں غیر فانی تھی۔ تم مر گئے تھے۔تم نے پتہ نہیں کہاں کہاں کتنے جنم لئے؟ اور میں تمہاری تلاش میں سرگرداں رہی.... اب الہ آباد میں ملے ہو..... کیا عمر ہے تمہاری؟
’’دس سال‘‘..... میں جواب دیتا۔
’’خیر ‘‘.... وہ ٹھنڈی سانس لے کر کہتی۔’’میں دس سال اور انتظار کرلوں گی۔‘‘
اس طرح رائیڈر ہیگرڈ میرے کچے ذہن پر تسلط جمایا.... طلسم ہوشربا اور رائیڈر ہیگرڈکے تاثرات نے آپس میں گڈ مڈ ہوکر میرے لیے ایک عجیب سی ذہنی فضا مہیاکردی تھی ، جس میں ہمہ وقت ڈوبا رہتا۔ ایسے ایسے خواب دیکھتا کہ بس .....
اسرار ناروی سے ابن صفی کی طرف مراجعت
پھر ایک دن یہ ہوا کہ ایک ادبی نشست میں کسی بزرگ نے کہا کہ ’ اردو میں صرف جنسی افسانوں کی مارکیٹ ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں بکتا ‘..... میں نے کہا کہ ’ یہ درست ہے لیکن ابھی تک کسی نے بھی جنسی لٹریچر کے سیلاب کو روکنے کی کوشش نہیں کی‘.... کسی طرف سے آواز آئی ’ یہ ناممکن ہے جب تک کوئی متبادل چیز مقابلے پر نہ لائی جائے... یہ قطعی ناممکن ہے‘.... متبادل چیز؟ میں نے سوچا اور پھر وہی آٹھ سال کا بچہ سامنے آ کھڑا ہوا جس نے طلسم ہوش ربا کی ساتوں جلدیں چاٹ ڈالی تھیں اور یہ بھی دیکھا تھا کہ ۸۰؍ سال کے بوڑھے بھی بچوں کی ہی طرح طلسم ہوش ربا میں گم ہوجاتے ہیں۔میں نے کہا کہ ’اچھی بات ہے ، میں دیکھوں گا کہ اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں‘.... یہ ۱۹۵۱ء کے اواخر کی بات ہے جب افسانوی ادب (بشمول ناول) میں افسانویت کے علاوہ اور سب کچھ بکثرت پایا جاتا تھا اور ناول میں ’ناولٹی‘ مفقود تھی۔ میں نے اسی ’ناولٹی‘ پر زور دیتے ہوئے جاسوسی ناول لکھنے کا فیصلہ کیا۔
یا اللہ !مجھے صبر جمیل کی توفیق عطا کر
اِدھر یارانِ طریقت تھے کہ طرح طرح کی افواہیں پھیلا رہے تھے۔ ابن صفی پاگل ہوگیا ہے، کاٹنےدوڑتا ہے۔ ابن صفی نے پینے کی حد کر دی تھی (حالانکہ میری سات پشتوں میں بھی کسی نے نہ پی ہوگی) ،اس لئے ایک دن نروس بریک ڈاؤن ہوگیا۔ ابن صفی کا کسی عشق چل رہا تھا،اس نے بے وفائی کی، دل شکستہ ہوکر گوشہ نشین ہوگیا (حالانکہ گھٹیا قسم کے عشق کا تصور ہی میرے لئے مضحکہ خیز ہے)۔ آخری اطلاع یہ تھی کہ ابن صفی کاا نتقال ہوگیا۔اس خبر پر سچ مچ دل اس طرح بھر آیا جیسے میں خود ہی ابھی ابھی ابن صفی کو مٹی دے کر واپس آیا ہوں۔ پھر درجنوں ابن صفی پیدا ہوگئے، جو اب بھی بفضل تعالیٰ بقید حیات ہیں اور دھڑلے سے میرے کرداروں کی مٹی پلید کررہے ہیں۔ان میں سے تو ایک ایسا ہے جس نے فحاشی کی حد کردی۔ حمید اور فریدی کو بھی رنڈی باز بنا کر رکھ دیا۔ سوچئے اور سر دُھنئے!خدا ان سبھوں کی مغفرت فرمائے اور مجھے صبر جمیل کی توفیق عطا کرے۔
(پیش رش۔ڈیڑھ متوالے۔ اکتوبر ۱۹۶۳ء)