یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے کہ نوٹ بندی سے جن مقاصد کے حصول کا دعویٰ کیا گیا تھا ان میں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ کیا اسی لئے سناٹا ہے؟
EPAPER
Updated: November 12, 2023, 5:46 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے کہ نوٹ بندی سے جن مقاصد کے حصول کا دعویٰ کیا گیا تھا ان میں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ کیا اسی لئے سناٹا ہے؟
نوٹ بندی کی سالگرہ (برسی) آئی اور چلی گئی، مرکزی حکومت نے اس تاریخی کارنامے (ماسٹر اسٹروک) کا دفاع تک نہیں کیا۔ اتنے برسوں میں بہتوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ نوٹ بندی کا شاندار خیال لاتور کے ایک ایسے شخص کی اختراع ہے جس کی تعلیمی لیاقت میکانیکل انجینئرنگ میں ڈپلوما ہے۔ان کا نام انیل بوکل ہے جو ’’ارتھ کرانتی‘‘ (معاشی انقلاب) نامی تنظیم چلاتے ہیں اور خود کو معاشی نظریہ ساز قرار دیتے ہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ۷۰؍ فیصد لوگ ۱۵۰؍ روپے یومیہ کماتے ہیں، وہاں۱۰۰؍ روپے سے زیادہ کے کرنسی نوٹ کی کیا ضرورت ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ ۸۶؍ فیصد کی کرنسی نوٹس کے منسوخ کئے جانے کے بعد ایک انٹرویو میں انیل بوکل نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم کو نوٹ بندی کا آئیڈیا کب اور کہاں سے ملا۔ یہ جولائی ۲۰۱۳ء کی بات ہے۔ جب وزارت عظمیٰ کے اُمیدوار کی حیثیت سےنریندر مودی کے نام کا اعلان ہوا تب انیل بوکل اپنے ایک دوست کے ساتھ احمد آباد گئے اور اُس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ وہ ارتھ کرانتی کے بارے میں پریزینٹٹیشن دینا چاہتے ہیں۔ مودی نے اُنہیں دس منٹ کا وقت دیا۔ بقول انیل بوکل: ’’جب میں نے اپنا پریزینٹٹیشن ختم کیا تب احساس ہوا کہ وہ مجھے نوے منٹ تک سنتے رہے مگراُس وقت اُنہوں نے اس کےبارے میں کچھ کہا نہیں تھا۔‘‘
یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔ اِس احساس نے اُنہیں یقیناً پہلے سے تیار کیا ہوگا کہ وہ کسی سادا، جادوئی اور بہت کچھ بدل دینے والے آئیڈیا کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ ارتھ کرانتی کی ویب سائٹ پر نوٹ بندی کے وہ تمام فوائد درج کئے گئے تھے جو انیل بوکل نے مودی کو بتائے تھے۔ اس میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ اس کی وجہ سے دہشت گردانہ اور ملک مخالف سرگرمیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے، ٹیکس چوری کے واقعات کم ہوسکتے ہیں، بدعنوانی پر لگام لگے گی اور روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ اس میں ایسا کیا ہے جسے منظور نہیں کیا جاسکتا مگر اس ضمن میں تفصیل نہیں دی گئی کہ کس مقصد کو نوٹ بندی کے ذریعہ کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی نہیں لکھا گیا کہ نوٹ بندی کس طرح نافذ کی جاسکتی ہے اور اس کے کیا نتائج ہونگے۔
ارتھ کرانتی نے ایک تجویز ٹیکس کے نظام سے متعلق پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ موجودہ ٹیکس نظام کو ختم کرکے صرف ایک ٹیکس کا طریقہ رائج کیا جانا چاہئے جو ٹرانز یکشن ٹیکس ہو۔ اس میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ نقدی کے لین دین کی حد دو ہزار روپے ہو۔ یہ اور ایسے نکات سننے میں اچھے تھے اس لئے مودی کیلئے بڑے کام کے تھے۔ البتہ ان میں جو سب سے زیادہ ڈرامائی محسوس ہوا وہ نوٹ بندی تھا جسے اُنہوں نےمنتخب ہی نہیں کیا، نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پھر ۸؍ نومبر ۲۰۱۶ء آیاجب مودی نے نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ ملک کو جن مسائل کا سامنا ہےوہ بدعنوانی، کالا دھن اور دہشت گردی ہے۔ ان کے خلاف سخت قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے اور وہ ایسا کریں گے (کیونکہ) ہندوستانی ایماندار ہیں اس کے باوجود ہندوستان میں بدعنوانی ہے، اس لئے بدعنوانی، کالا دن اور دہشت گردی کے خلاف بہت طاقتور اور فیصلہ کن اقدام کی ضرورت ہے۔ مودی نے دریافت کیا تھا کہ کیا عوام جانتے ہیں کہ دہشت گردی کیلئے پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ جعلی نوٹوں کے خلاف جو اقدامات کئے جاتے ہیں اور جو گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں اُن سے بہت سی اطلاعات ملتی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ نقدی کی گردش کا براہ راست تعلق بدعنوانی سے ہے اور اسی لئے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ ملک کی پوری کرنسی کا ۸۰؍ تا ۹۰؍ فیصد ہے۔ یہ اور ایسے کئی دعوؤں اور اعلانات کے ساتھ انہوں نے ۸۔۹؍ نومبر کی نصف شب سے (یعنی تقریر کے محض چار گھنٹوں بعد) نوٹ بندی کروا دی۔ اس وقت وزیر اعظم مودی نے یہ اعتراف کیا تھا کہ نوٹ بند ہونے سے عوام کو پریشانی ہوگی مگر کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا (کیونکہ، اُن کے بقول) عام ہندوستانی قربانی دینا جانتا ہے اور اپنے وطن کی بھلائی اور بہتری کیلئے سختیاں اُٹھانے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ جہاں تک نوٹ بندی کا تعلق ہے، اس کیلئے کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی۔
۸؍ نومبر کو کابینہ کی میٹنگ رکھی گئی تھی مگر تمام وزراء سے تاکیداً کہا گیا تھا کہ وہ اپنا موبائل فون میٹنگ گاہ سے باہر رکھیں تاکہ جب تک وہ اعلان نہ کردیں تب تک تمام باتیں صیغۂ راز میں رہیں۔ چونکہ وزراء خود نہیں جانتے تھے کہ کیا اعلان ہونے والا ہے اس لئے اُن کے محکموں کو اس کا علم نہیں تھا اور کسی نے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ قارئین جانتے ہیں کہ ۲۰۲۰ء کے لاک ڈاؤن کے وقت بھی کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ اتنا سخت لاک ڈاؤن لگنے والا ہے۔
وزیر اعظم مودی کو ریزرو بینک آف انڈیا نے منع کیا تھا کہ نوٹ بندی کا اختیار اسی کو ہے جس کے گورنر (آر بی آئی گورنر) نے نوٹ پر دستخط کرکے نوٹ کے حامل سے وعدہ کیا ہے مگر اس کی نہیں سنی گئی۔ جب آر بی آئی کے گورنر رگھو رام راجن سے اس معاملے میں تبادلۂ خیال کیا گیا تھا تب اُنہوں نے اس کی شدید مخالفت کی تھی جس کے بعد اُنہوں نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ نئے گورنر اُرجت پٹیل کو اس اقدام کو منظوری دینے کیلئے راضی کیا گیا۔ یہ اُن کے عہدہ سنبھالنے کے چند ہفتوں کے درمیان کا واقعہ ہے۔ ارجت پٹیل نے آر بی آئی کی اُس ہنگامی میٹنگ کا احوال (مِنٹس) جاری کرنے سے انکار کردیا تھا جو ۸؍ نومبر کو شام ساڑھے پانچ بجے منعقد کی گئی تھی۔ میٹنگ کا احوال نومبر ۲۰۱۸ء میں یعنی نوٹ بندی کے دو سال بعد اخبارات پر افشاء ہوگیا تب اُرجت پٹیل نے استعفےٰ دے دیا تھا۔ آر بی آئی کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس سے یہ باتیں کہی تھیں:
(۱) ۲۰۱۱ء تا ۲۰۱۶ء معاشی نمو ۳۰؍ فیصد تھی مگر بڑی نوٹ کا سرکولیشن اس سے زیادہ رفتار سے بڑھا ہے (۲) نقدی، کالے دھن کے اضافے میں معاون ہوتی ہے (۳) سسٹم میں ۴۰۰؍ کروڑ روپے کے برابر کالا دھن ہے (۴) اسی لئے ۵۰۰؍ اور ۱۰۰۰؍ کے نوٹ منسوخ کئے جانے چاہئیں۔ اس کے علاوہ اور بھی چند باتیں۔
اس کے جواب میں آر بی آئی نے یہ کہا تھا:
(۱) کالا دھن صرف نقدی کی شکل میں نہیں، اثاثہ جات کی شکل میں بھی ہے (۲) نوٹ بندی سے جی ڈی پی پر منفی اثر پڑے گا (۳) سسٹم میں ۴۰۰؍ کروڑ روپے کے جعلی نوٹ زیادہ معنی نہیں رکھتے کیونکہ یہ صفر اعشاریہ صفر دو فیصد ہے، وغیرہ۔ اب ۷؍ سال بعد جب ہم حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آر بی آئی نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا، درست تھے۔