• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

۴؍ جون کو تصویر بدلی تو کیا اور اگر نہ بدلی تو کیا؟

Updated: June 02, 2024, 10:33 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

تین متبادل ہوسکتے ہیں: بی جے پی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے، بی جے پی کو اکثریت سے کم سیٹیں ملیں اور بی جے پی الیکشن ہار جائے۔حقیقت میں کیا یہ ہوگایہ چار جون کو منظر عام پر ہوگا۔

lok sabha elections 2024. Photo: INN
لوک سبھا انتخابات ۲۰۲۴ء۔ تصویر: آئی این این

طویل اور تکلیف دہ الیکشن جو کہ شدید گرمی کے ایام میں ہوا، اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ کل شام ہی سے ایگزٹ پول کے نتائج منظر عام پر آنے لگے ہیں مگر یہ بات ذہن نشین رہنا چاہئے کہ ایگزٹ پول کرنے والے اداروں کا اب تک کا ریکارڈ خاصا ناقص رہا ہے۔ کئی بار ان کے ظاہر کردہ نتائج اور ووٹوں کی گنتی کے بعد منظر عام پر آنے والے حقیقی نتائج میں کافی فرق ملا ہے۔
  الیکشن سے پہلے اوپنین پول منظر عام پر آئے تھے جن میں شرکت کرنے والے تمام اداروں کی رائے یکساں تھی اور سب کے سب ایک ہی سُر میں کہہ رہے تھے کہ بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوجائیگی۔ ایگزٹ اور اوپنین پول چاہے جو کہیں، آئندہ سطروں میں ہم یہ بتانا  چاہیں گے کہ ہمیں کیا امکان دکھائی دیتا ہے۔
 مگر اس سے پہلے یہ کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نتائج جس کسی پارٹی یا اتحاد کے حق میں ظاہر ہوں، ایک بات صاف ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں تھے۔ انتخابی مہم شروع ہونے سے قبل ہی دو وزرائے اعلیٰ کو جیل بھیج دیا گیا تھا اس لئے نہیں کہ اُنہیں کسی جرم میں عدالت نے سزا سنائی بلکہ یہ بی جے پی کی ایماء پر ہوا۔ ان میں سے ایک کو محدود وقفے کیلئے ضمانت پر رہا کیا گیا تاکہ وہ انتخابی مہم میں حصہ لے سکیں مگر اب اُنہیں جیل واپس جانا پڑے گا۔ اس دوران یہ بھی ہوا کہ بینک کھاتوں تک اپوزیشن کی رسائی روکی گئی کیونکہ کھاتے فریز کردیئے گئے تھے۔ انتخابی کمیشن کا کردار بھی غیر جانبدارانہ نہیں رہا۔ اس نے انتخابی مراحل کی منصوبہ بندی کے دوران اس بات کا خیال رکھا کہ بی جے پی کو سہولت ہو ۔ اتنا ہی نہیں، انتخابی کمیشن، اپوزیشن کے اُٹھائے ہوئے سوالات کے جواب میں غیر سنجیدہ تھا، اس نے وزیر اعظم کی نفرتی تقاریر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور انتخابی اعدادوشمار ظاہر کرنے کے معاملے میں ردوکد سے کام لیا جس کے سبب یقینی طور پر جمہوریت کو نقصان پہنچا۔ الیکٹورل بونڈز کو عدالت نے غیر آئینی قرار دے دیا اس کے باوجود اُن سے حاصل شدہ کروڑوں روپے الیکشن میں استعمال کئے گئے۔ کیا اس سے انتخابی کمیشن کی ساکھ مجروح نہیں ہوئی؟ 
 یہ اور ایسی بے ضابطگیوں پر لکھنے جائیں تو صفحات کے صفحات لکھے جاسکتے ہیں، اسے اختصار کے ساتھ قلمبند کرنا ہو تب بھی مضمون کی طوالت کا اندیشہ ہے اس لئے اب آئیے یہ دیکھیں کہ انتخابی نتائج کے تعلق سے کون سے امکانات ہمارے سامنے ہیں۔الیکشن سے پہلے ہونے والے تمام اوپنین پول کا اس بات پر اتفاق تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی پہلے جیسی اکثریت کے ساتھ پھر اقتدار میں آئے گی اور نریندر مودی تیسری بار وزیر اعظم بنیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟ اس کا جواب ہے کہ جو گزشتہ دس سال میں ہوتا رہا وہی ہوگا۔ اُنہوں نے دس سال تک ملک کی باگ ڈور اس طرح سنبھالی جیسے کوئی بادشاہ حکمرانی کرتا ہے۔ اُن کے وزراء اور حلیف جماعتیں درباریوں اور مصاحبین جیسے تھے۔ اگر تصویر نہیں بدلی اور این ڈی اے (سہ بارہ) اقتدار میں آیا تو اپوزیشن کے خلاف ایجنسیوں کی کارروائیاں جاری رہیں گی، سول سوسائٹی کو نیست و نابود کرنے کے منصوبے پر عمل ہوگا اور عالمی جدولوں میں ہندوستان کا گھسٹنا جاری رہے گا۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو بہت کچھ جھیلنا پڑے گا۔ ادارے زوال پزیر ہی رہیں گے اور ان کا اثرورسوخ کم سے کم ہوجائیگا جیسا کہ گزشتہ دس سال میں ہوا۔ ۲؍ اے (اڈانی اور امبانی) کا دبدبہ اور معیشت پر کارپوریٹ کا غلبہ جاری رہے گا۔ مختصر یہ کہ تصویر بدلے گی نہیں بلکہ جیسی تھی ویسی ہی رہے گی۔
 یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ جمہوریت میں ایک پارٹی کا حاوی رہنا صحتمند رجحان نہیں۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے تب اپوزیشن باقی تو رہتی ہے مگر وہ حاشئے پر رہتی ہے۔ اگر این ڈی اے یا بی جے پی ہی کی حکومت لگاتار تیسری مرتبہ اقتدار میں آئی تو جو کچھ سورت میں ہوا وہ دوسری جگہوں پر بھی ہوسکتا ہے۔ تیسری مرتبہ حکومت بننے پر وزیر اعظم مودی غیر معمولی طور پر کامیاب لیڈر کے طور پر اپنی ساکھ کو برقرار رکھیں گے اور تاریخ میں ایک ایسے حکمراں کے طور پر درج ہوں گے جن کے دور میں بی جے پی نے بہتیری ریاستوں کے انتخابات بھی جیتے اور لوک سبھا کے انتخابات میں لگاتار تین مرتبہ فتح حاصل کی۔ 
 دوسرا امکان یہ ہے وہ یہ ہے کہ بی جے پی زیادہ سیٹوں پر قبضہ تو کرلے مگر اکثریت سے دور رہ جائے۔ مثال کے طور پر اُسے ۲۵۰؍ سیٹیں ملیں تو حکومت بنانے کی کوشش میں اسے کئی دشواریوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ حلیف جماعتیں خود کو منوانے کی کوشش کریں گی اور بادشاہ اپنے درباریوں کو نظر انداز کرنے کا اہل نہیں رہ جائیگا۔ کیا ایسی صورت میں مودی اقتدار میں رہنا چاہیں گے؟ اس سوال کے جواب سے ہم سب واقف ہیں۔
 حلیف جماعتیں ہی نہیں، اکثریت سے دور رہنے کے باوجود حکومت بنانے کی کوشش میں بی جے پی کو اپنی ہی صفوں کا انتشار بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ تب ناگپور کے فرمان کو فوقیت حاصل ہوجائیگی۔
 اگر بی جے پی اکثریت سے دور رہی تو اقلیتوں پر حملے جاری رہیں گے کیونکہ کئی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے جو اپنی عصبیت کے ذریعہ اپنی عوامی مقبولیت کو برقرار رکھنے کیلئے کوشاں رہتی ہے۔ اگر بی جے پی کا اقتدار بحال رہا تو غیر بی جے پی ریاستوں کے ساتھ معاندانہ طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی ۔ ہندوستان وفاقیت پر یقین رکھتا ہے مگر عملاً وفاق کا تصور بہت دھندلا ہوچکا ہے۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد ریاستو ںکو یہ اختیار نہیں رہ گیا ہے کہ وہ اپنے طور پر ٹیکس عائد کریں۔ جی ایس ٹی میں انہیں ان کا حصہ بھی کس مشکل سے ملتا ہے یہ کسی سے مخفی نہیں۔البتہ اگر بی جے پی اکثریت سے دور رہی اور دیگر پارٹیوں کو جیسے تیسے اپنے ساتھ لے کر اسے حکومت بنانی پڑی تو ایسی حکومت کے قائد کو بہت سی مصلحتوں اور مصالحتوں پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے عوام کی راحت کا کچھ سامان یقیناً بہم ہوگا۔ 
 رہی یہ صورت کہ بی جے پی الیکشن ہار جائے تو اس امکان کو خارج نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جمہوریت خود کو تازہ دم کرتی رہتی ہے ۔ n 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK