’بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے‘ کے مصداق راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اور آر ایس ایس کے ترجمان میگزین آرگنائزر نے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانے میں بڑی دیر لگا دی۔
EPAPER
Updated: June 16, 2024, 12:06 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
’بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے‘ کے مصداق راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اور آر ایس ایس کے ترجمان میگزین آرگنائزر نے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانے میں بڑی دیر لگا دی۔
’بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے‘ کے مصداق راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اور آر ایس ایس کے ترجمان میگزین آرگنائزر نے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو تنقید کا نشانہ بنانے میں بڑی دیر لگا دی۔ ایک طرف آرگنائزر میں آر ایس ایس کے رکن رتن شاد نے اپنے مضمون میں لکھا کہ بی جے پی کو حد سے زیادہ خود اعتمادی لے ڈوبی۔ دوسری جانب آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ناگپور میں منعقدہ ایک ٹریننگ کیمپ کی اختتامی تقریب میں غرور اور تکبر پر شلوک پڑھ کر کہا کہ ایک سچے سویم سیوک میں ’اہنکار‘ نہیں ہوتا ہے۔ ان کا اشارہ کس کی جانب تھا، یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ انہوں نے حیرت انگیز طور پر کہا کہ اسلام نے اچھائی اور انسانیت کی جو تعلیم دی ہے اسے گلے لگانا چاہئے۔ آیئے دیکھتے ہیں مراٹھی اخبارات نے بھاگوت کی مذکورہ تقریر اور تنقید پر کیا کچھ لکھا ہے اور اسے کس طرح دیکھا ہے؟
سنچار(۱۲؍جون)
اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’بی جےپی کو لوک سبھا انتخابات میں دو مرتبہ مکمل اکثریت حاصل ہوئی جس کی بدولت اپنے دم پر سرکار بنائی گئی۔ تاہم اس مرتبہ بی جے پی کو حکومت سازی کیلئے درکار مطلوبہ سیٹیں نہیں ملیں لیکن این ڈی اے کسی طرح سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ مودی خود کو پردھان سیوک اور چوکیدار کہتے ہیں لیکن ’سیوک‘کیسا ہونا چاہئے، اس کا جو تجزیہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس)کے سربراہ موہن بھاگوت نے کیا ہے، اس کا اطلاق مودی پر کیا جاسکتا ہے۔ اپوزیشن بار بار الزام عائد کرتا رہا کہ پچھلے دس برسوں میں مودی کا رویہ آمریت سے پُر رہا۔ قومی مسائل پر بھی انہوں نے اپوزیشن کی رائے کو اہمیت نہیں دی جبکہ نیشنل سیکوریٹی معاملے میں حکمراں جماعت کو حزب اختلاف کی آراء پر غور کرنا چاہئے۔ اس پس منظر میں بھاگوت کی نصیحت مودی کو خود شناسی پر مجبور کرسکتی ہے۔ بھاگوت کا یہ کہنا کہ سچا’سیوک‘ غرور اور گھمنڈ نہیں کرتا ہے۔ یہ بالواسطہ طور پر مودی پر لاگو ہوتا ہے۔ ان کی یہ سوچ ہے کہ انتخابات ناگریز ہیں، البتہ ٹیکنالوجی کا غلط استعمال،جھوٹ پھیلانے کیلئے نہیں ہے۔ انتخابی مہم کے دوران مودی کی حکمت عملی مسلسل بدلتی رہی۔ رائے عامہ کے مخالف سمت میں جانے کا احساس ہوتے ہی مودی نے اپنی انتخابی تقریروں میں کہنا شروع کردیا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ہندو عورتوں کے گلے کا منگل سوتر چھین لے گی۔ عوامی مسائل اور سلگتے ہوئے موضوعات پر انہوں نے کبھی لب کشائی نہیں کی۔ بھلے ہی پچھلے دس برسوں میں سرحد پار عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت میں کمی آئی ہے مگر مودی منی پور میں جاری خوں ریزی کو روکنے میں ناکام رہے۔ دنیا بھر میں منی پور سانحہ کہ مذمت ہوتی رہی مگر سرکار یہاں کی ذات پات کی دوری کو ختم نہیں کرسکی اور تشدد کا لامتناہی سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ آر ایس ایس سربراہ نے بھلے ہی تاخیر سے منی پور کی جانب مودی کی توجہ ضرور مبذول کروائی ہےلیکن مناسب ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: بی جے پی کو زمین پر لانے والے لوک سبھا انتخابات کے خوش کن نتائج
لوک مت(۱۲؍جون)
اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’تیسری مرتبہ مرکز میں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے ۷۱ ساتھیوں نے حلف لیا۔ دوسرے ہی دن راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس ) کے چیف موہن بھاگوت نے منی پور معاملے میں مرکزی حکومت کو خوب کھری کھری سنائی۔ منی پور کی پڑوسی ملک میانمار کے ساتھ ۳۹۰؍ کلو میٹر کی طویل سرحد ہے۔ یہ حساس ریاست گزشتہ ایک سال سے آگ کی لپیٹ میں ہے۔ گاؤں دیہات بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں ، اس درمیان دو سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں اورہزاروں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ حالانکہ ریاست اور مرکز دونوں جگہوں پر بی جے پی کی حکومت ہے اس کے بعد بھی امن قائم نہیں ہورہا ہے۔ اس پر آر ایس ایس سربراہ نے تنقید کی ہے۔ منی پور دس سال تک پر امن رہا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہاں کا گن کلچر پوری طرح ختم ہوگیا لیکن پچھلے سال مئی سے تشدد کی جو نئی لہر بھڑکی ہے مرکزی حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ بھاگوت نے مرکز سے سوال پوچھا ہے کہ منی پور کی آگ کون بجھائے گا؟علاوہ ازیں سر سنگھ چالک نے مزید کئی مسائل پر کھل کر گفتگو کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ انتخابی مہم کے دوران اخلاقی حدود کو بری طرح پامال کیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کو مدمقابل نہیں بلکہ دشمن سمجھ کر ایک دوسرے پر حملے کئے گئے ہیں۔ جھوٹ کو سلیقے کے ساتھ بولا گیا۔ آر ایس ایس کو انتخابی مہم کے دوران بغیر مطلب گھسیٹا گیا۔ عیاں رہے کہ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے کہا تھا کہ ہمیں آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘
نو راشٹر(۱۲؍جون)
اخبار نے لکھا ہے کہ ’’آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے مرکز کی بی جے پی سرکار پر کھل کر تنقید کی۔ بھاگوت بی جے پی لیڈروں کو الیکشن سے قبل بھی تلقین کرسکتے تھے مگر انہوں نے صبر سے کام لیا اور انتخابی نتائج کے بعد نصیحت کی۔ ناگپور میں منعقدہ ایک تقریب میں موہن بھاگوت نے سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی لیڈروں نے ساری حدیں پار کردی تھیں جبکہ ایک سچا سیوک اخلاقیات کو بر قرار رکھتا ہے۔ انتخابی مہم کے وقت بی جے پی لیڈورں نے نفرت انگیزی کو کھل کر ہوا دی تھی۔ ان کے بیانات سے تکبر اور انانیت کی بو آرہی تھی۔ اپوزیشن کے تئیں دشمنی کا احساس پیدا ہورہا تھا۔ کسی کا نام لئے بغیر آر ایس ایس سربراہ نے کہا کہ سچا سویم سیوک مغرورنہی ہوتا۔ سیوک کو اپنی حد میں رہنا چاہئے۔ اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ مقصد کے حصول کے دوران کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ آر ایس ایس سربراہ کی اس تلقین سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غرور اور گھمنڈ کے نشے میں کون چُور تھا اور کس نے سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ ‘‘