• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بنگلہ دیش میں انتخابات کی کیا ضرورت ہے؟

Updated: December 27, 2023, 1:19 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں ۷؍جنوری کو عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ الیکشن کادن جیسے جیسے قریب آرہا ہے سیاسی محاذ آرائی اور ریاستی جبر میں اضافہ ہورہا ہے۔ عوامی لیگ حکومت اپوزیشن کو ٹھکانے لگانے کیلئے تمام غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرنے پر تلی ہے۔

Sheikh Hasina. Photo: INN
شیخ حسینہ۔ تصویر : آئی این این

 پارلیمانی جمہوری نظام میں انتخابات کے ذریعہ ایک سیاسی پارٹی سے دوسری سیاسی پارٹی کو اقتدار کی منتقلی ایک فطری عمل ہے۔ اس مروجہ روایت کے برخلاف جب کوئی حکمراں ہر قیمت پر اقتدارپر قابض رہنے پر مصرہو جائے تو اس کی یہ ہوس جمہوریت کیلئے خطرہ بن جاتی ہے۔ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں جہاں سات جنوری کو عام انتخابات ہونے والے ہیں ، خطرے کی یہ گھنٹی صاف سنائی دے رہی ہے۔ الیکشن کادن جیسے جیسے قریب آرہا ہے سیاسی محاذ آرائی اور ریاستی جبر میں اضافہ ہورہا ہے۔ عوامی لیگ حکومت اپوزیشن کو ٹھکانے لگانے کیلئے تمام غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔پچھلے دو ماہ سے جاری پولیس کریک ڈاؤن میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بی این پی کے دس ہزار سے زیادہ لیڈران اور ورکرز گرفتار کئے جاچکے ہیں ۔ مغربی میڈیا بار باریہ وارننگ دے رہاہے کہ شیخ حسینہ حکومت الیکشن کے قبل اپوزیشن کو چن چن کر ٹارگٹ کررہی ہے۔ہیومن رائٹس واچ کا الزام ہے کہ حسینہ حکومت نے اپوزیشن کے خلاف ’’پر تشدد آمرانہ کریک ڈاؤن‘‘کر رکھا ہے۔
 موجودہ حکومت کو تحلیل کرکے کسی نگراں حکومت کے ذریعے الیکشن کرائے جانے کا خالدہ ضیا کا مطالبہ جب مسترد کردیاگیا تو ان کی پارٹی نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ دوسری اہم اپوزیشن پارٹی جماعت اسلامی پر پہلے سے ہی ا نتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ ٹائم میگزین کا یہ دعویٰ درست لگتا ہے کہ یہ الیکشن حسینہ کی’’تاجپوشی کی تقریب‘‘ ہونے والا ہے۔ ۱۹۷۵ء میں شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کے بعد پندرہ برسوں تک بنگلہ دیش میں فوجی آمریت رہی۔جب جمہوریت بحال ہوئی تو یہ قانون بنایا گیا کہ الیکشن سے چند ماہ قبل حکومت تحلیل کرکے ایک غیر جانبدار عبوری حکومت تشکیل دی جائے اور اسی کی نگرانی میں انتخابات کروائے جائیں ۔ ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۸ء تک بنگلہ دیش کا ہر الیکشن کار گزار حکومت کے زیر نگرانی ہی کرایا گیا لیکن ۲۰۱۲ء میں حسینہ حکومت نے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئین میں ترمیم کرکے یہ طریقہ کار ختم کردیا۔
 شیخ حسینہ پچھلے چودہ سالوں سے لگاتار اقتدار میں ہیں ۔ اس سے قبل وہ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک بھی وزیر اعظم رہ چکی ہیں ۔ لیکن اقتدار پر جیسے جیسے ان کی گرفت مضبوط ہوتی گئی ان کے طرز عمل میں مطلق العنانیت آتی گئی۔ ٹائم میگزین نے پچھلے ماہ حسینہ پر ایک کور اسٹوری بعنوان "Hasina and the Future of Democracy in Bangladesh" شائع کی ہے جس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ عوامی لیگ کی سربراہی میں بنگلہ دیش جمہوریت سے آمریت میں بدلتا جارہا ہے۔
 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیخ حسینہ کے طویل دور اقتدار میں بنگلہ دیش میں غریبی، بیماری اور بے روزگاری میں کافی کمی بھی ہوئی اور معاشی ترقی بھی۔ کبھی فقط زراعت پر انحصار کرنے والا ملک صنعتی میدان میں بھی آگے بڑھا ہے۔ چین کے بعد بنگلہ دیش ریڈی میڈ ملبوسات کا دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔ فی کس جی ڈی پی میں بنگلہ دیش بھارت سے آگے نکل گیا۔ حسینہ حکومت نے دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی پر لگام لگانے میں کامیابی حاصل کی اور فوج کی مشکیں بھی کس دیں تاکہ وہ مستقبل میں سیاست میں مداخلت نہ کرسکے۔لیکن ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ حسینہ حکومت پر جمہوریت کی بیخ کنی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، سیاسی اور نظریاتی مخالفین کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور کرپشن کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں ۔ بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا جو ماضی میں دو بار وزیر اعظم منتخب ہوچکی ہیں اس وقت شدید علیل ہیں ۔ اس کے باوجود حسینہ نے فرضی مقدموں میں پھنسا کر انہیں گھر میں نظر بند کررکھا ہے۔ انہیں علاج کے لئے امریکہ جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور اس وقت وہ ڈھاکہ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
 الیکشن میں رائے دہندگان کسی بھی سیاسی پارٹی کے نمائندوں کو منتخب کرنے کیلئے آزاد ہوتے ہیں۔ کثیر الجماعت پارلیمانی انتخابات کی خوبی یہ ہے کہ ووٹروں کو متعدد پارٹیوں اور متعدد امیدواروں میں سے اپنی پسند کی پارٹیوں کے امیدواروں کو چننے کا موقع ملتا ہے۔ اگر بیلٹ پیپرپر صرف حکمراں جماعت کے امیدواروں ہی کے نام ہوں گے تو پھر الیکشن کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی عدم موجودگی میں ٹھیک یہی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ عوامی لیگ تین سو میں سے تین سو سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں تھی۔ اسی لئے حسینہ نے ۶؍ سیٹیں اپنی اتحادی جماعتوں کے لئے چھوڑ دی ہیں اور ۲۵؍ سیٹوں سے اپنے امیدواروں کانام واپس لے لیا ہے تاکہ جاتیو پارٹی کی جیت یقینی بنائی جاسکے۔ جاتیو پارٹی دراصل عوامی لیگ کی اتحادی جماعت ہے لیکن اسے اپوزیشن پارٹی کی جرسی پہنا کر میدان میں اتار ا جارہا ہے۔ دیگر سیٹوں پر عوامی لیگ کے امیدواروں کے مقابل اسی پارٹی کے ایرے غیرے ورکر زکو ڈمی امیدوار بناکر کھڑا کیا جارہا ہے تاکہ ان انتخابات کو تھوڑا جواز فراہم کرایا جاسکے۔ بنگلہ دیش کے اندر حسینہ کی تاناشاہی کو کسی خاص چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔ اپنی منجھی ہوئی خارجہ پالیسی کی وجہ سے حسینہ حکومت کو بیک وقت ہندوستان، چین اور روس کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
  وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ حسینہ کے رشتے پچھلے دس سالوں میں بہتر سے بہتر ہوئے ہیں کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔لیکن سپر پاورامریکہ حسینہ سے کافی بدگمان ہے اور حسینہ امریکہ سے برہم ہیں ۔چند ماہ قبل حسینہ نے تو یہ الزام تک لگادیا تھا کہ واشنگٹن جو ڈھاکہ کو جمہوریت اور انسانی حقوق پر لیکچر دیتا رہتا ہے، ان کی حکومت گراکر بنگلہ دیش میں جمہوریت کو کمزور کرنے پر تلا ہے۔الیکشن سے قبل حسینہ پر امریکہ کے ساتھ ساتھ مغرب کادباؤ بڑھ گیا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے یہ واضح کردیا ہے کہ انتخابات اگر صاف و شفاف ہوئے اور ان میں دیگر پارٹیوں کی شمولیت ہوئی تبھی وہ قابل قبول ہوں گے۔
 میرا سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں عام انتخابات کی بھلا کیا تک ہے؟پارلیمانی جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ انتخابات کے قبل حکمراں اور حزب اختلاف دونوں کے لئے ماحول اور مواقع یکساں طور پر سازگار ہوں اور میدان ہموار ہو۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ انتخابی گول پوسٹ بالکل خالی ہے: برسر اقتدار پارٹی خواہ جتنے چاہے گول اسکور کرسکتی ہے۔ توپھر انتخابات کراکے ملک پر کروڑوں ٹاکا کا اضافی بوجھ ڈالنے کی بھلا کیا ضرورت ہے خاص کر ایسے وقت میں جب بنگلہ دیش کو معاشی دشواریوں کا سامنا ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK