سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں غزوۂ تبوک کے واقعات کا تذکرہ جاری ہے۔ اسی دوران منافقین کے ایک گروہ نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ایک مسجد تعمیر کی تھی ۔ آج کی قسط میں اس کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔
EPAPER
Updated: December 22, 2023, 1:34 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں غزوۂ تبوک کے واقعات کا تذکرہ جاری ہے۔ اسی دوران منافقین کے ایک گروہ نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ایک مسجد تعمیر کی تھی ۔ آج کی قسط میں اس کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔
مسجد ضرار کی تعمیر
اس سفر(تبوک) سے واپسی پر مدینہ پہنچنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہ قبا جاکر اس مسجد کو گرادیں جو ابھی حال ہی میں تعمیر ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں اس مسجد کی تعمیر کا ذکر موجود ہے، اللہ رب العزت نے اس مسجد کو مسجد ضرار کہا ہے، مسجد کی تعمیرکے مخفی مقاصد بھی بیان فرمائے ہیں اور نبی اکرم ﷺ کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ آپؐ اس مسجد میں کبھی بھی نماز نہ پڑھیں۔
تفسیر کی کتابوں میں مسجد ضرار کی تعمیر کا قصہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے یہاں قبیلۂ خزرج کا ابوعامر راہب نامی ایک شخص موجود تھا، یہ شخص پہلے بت پرست تھا، بعد میں اہل کتاب کی صحبت میں رہا، ان لوگوں کے کچھ صحیفے پڑھے یا سنے، اور نصرانی بن گیا۔ چونکہ قبیلۂ خزرج میں اسے بڑا سمجھا جاتا تھا، نصرانی بننے کے بعد بھی اس کی یہ اہمیت برقرار رہی، بلکہ کچھ اور بڑھ گئی، یہاں تک کہ اس کی پرستش کی جانے لگی۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہ شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے کچھ سوالات کئے، آپؐ نے جوابات مرحمت فرمائے، مگر اسے تشفی نہیں ہوئی۔ یہ بدبخت یہ کہہ کر مجلس سے اٹھا کہ ہم میں سے جو شخص جھوٹا ہے وہ مردود ہوکر مرے، اور اس کی موت حالت مسافرت میں عزیز واقارب سے دور رہ کر واقع ہو۔ اس نے یہ بھی کہا کہ میں آپؐ کی مخالفت کرتا رہوں گا اور ہمیشہ آپؐ کے دشمنوں کی مدد کروں گا۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کو سربلندی عطا کی، بدر کی جنگ ہوئی، مسلمان فاتح بن کر مدینہ واپس آئے، یہ دیکھ کر ابو عامر راہب کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ وہ مدینہ سے بھاگ کر مکہ پہنچا تاکہ مشرکین مکہ کو آپؐ سے جنگ پر آمادہ کرسکے، ان کے حوصلے بڑھائے اور بدر کی شکست سے ان کو مایوس نہ ہونے دے۔ وہ تمام عرب قبائل میں پھرا، لوگوں سے ملا، اس نے انہیں ہم نوا بنایا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار رہنے پر آمادہ کیا۔ غزوۂ حنین تک تمام غزوات میں اس نے دشمنوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف جنگ بھی لڑی۔ ایک موقع پر اس نے دونوں طرف کی صفوں کے درمیان کئی گڑھے کھود رکھے تھے، ان میں سے ایک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے، آپؐ کا چہرۂ مبارک زخمی ہوا اور نیچے کی طرف سے سامنے کے چار دانت بھی آپ کے شہید ہوگئے، آپؐ کے سر مبارک میں بھی چوٹ آئی۔ ایک جنگ میں ابو عامر نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں اپنی مدد کرنے پر آمادہ کرنا چاہا، مگر انہوں نے مدد کرنے سے صاف انکار کردیا، اس کے قبیلے کے لوگوں نے کہا کہ اے فاسق، اے دشمن خدا، اللہ تجھے برباد کرے۔ مخالفت کی یہ آوازیں سن کر وہ یہ کہتا ہوا واپس ہوا کہ میرے بعد میری قوم بگڑ گئی ہے۔
قبیلۂ ہوازن کی شکست کے بعد ابوعامر مایوس ہوکر شام بھاگ گیا۔ اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت بھی دی، اور اسے قرآن پڑھ کر بھی سنایا، لیکن اس کی قسمت میں اسلام کی دولت تھی ہی نہیں ، اس لئے وہ محروم کا محروم ہی رہا۔ ملک شام کی طرف بھاگنے کی وجہ یہ تھی کہ نصرانیوں کا مرکز یہی علاقہ تھا اور وہاں رہ کر وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اطمینان کے ساتھ سازشیں کرسکتا تھا۔
ان دنوں وہاں ہرقل کی حکومت تھی، اس کے پاس پہنچ کر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مدد مانگی، اس نے وعدہ کرلیا، وہ اس امید میں اس کے پاس ٹھہر گیا کہ ہرقل اس کی مدد کرے گا، اور مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے کوئی لشکر اس کے ساتھ کردے گا، یا خود وہ لشکر کی قیادت کرے گا۔ ہرقل کے ملک میں قیام کے دوران اس نے مدینہ میں اپنے ہم خیال لوگوں کو لکھا کہ ہرقل کی قیادت میں وہ ایک بڑا لشکر لے کر آرہا ہے، تم لوگ لڑنے کے لئے تیار رہو، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی جنگ لڑوں گا کہ ان کو پسپا ہونا پڑے گا اور انہیں اپنی سابقہ حالت پر لوٹنا ہوگا۔ اس نے منافقین مدینہ کو لکھ کر بھیجاکہ وہ ایک ایسی عمارت تعمیر کریں جو فی الوقت میرے قاصدوں کے لئے اور بعد میں میرے لئے پناہ گاہ کا کام دے، یہ عمارت تمہاری اجتماعیت کے لئے بھی ضروری ہے، اس میں جمع ہوکر تم میرے احکام کے مطابق منصوبہ سازی بھی کرسکو گے اور اس میں تم آئندہ ہونے والی جنگ کے لئے ہتھیار وغیرہ بھی چھپا کر رکھ سکوگے۔
ابوعامر نے اپنے خطوط میں اپنے ساتھیوں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ تم یہ عمارت بناؤ، اور یہ ظاہر کرو کہ ہم ایک مسجد بنا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو کسی طرح کا کوئی شبہ نہ ہو، جو جگہ اس مسجد کے لئے تجویز کی گئی اس کے تھوڑے ہی فاصلے پر مسجد قبا موجود تھی۔ یہ اسلام کی اوّلین مسجد ہے، جس کی تعمیرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس حصہ لیا۔ ہجرت کے بعد چند روزہ قیام کے دوران اہل قبا کے لئے یہ مسجد تعمیر ہوئی تھی۔ منافقین نے اپنے سرغنہ کے حکم کے مطابق ایک مناسب جگہ تلاش کرکے عمارت بنائی، جب یہ عمارت جس کو انہوں نے مسجد مشہور کیا تھا بن کر تیار ہوگئی تو ان کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم نے ایک مسجد بنائی ہے، قبا میں جو مسجد آپؐ نے تعمیر کی تھی وہ بہت سے لوگوں کیلئے دور ہے، خاص طور پر بوڑھوں اور بیماروں کے لئے اس مسجد تک پہنچنا دشوار ہوتا ہے، ویسے بھی وہ مسجد زیادہ وسیع اور کشادہ نہیں ہے، قبا کی آبادی کے لحاظ سے وہ مسجد اب تنگ پڑ گئی ہے، اس لئے ہم نے ایک دوسری مسجد بنائی ہے، وہ بڑی بھی ہے اور علاقے کے بوڑھے اور بیمار حضرات آسانی کے ساتھ اس مسجد میں آکر نماز ادا کرسکتے ہیں ، ہم اس درخواست کے ساتھ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں کہ آپ تشریف لاکر ایک نماز پڑھادیں تاکہ اس میں برکت ہوجائے۔ یہ جاننے کے بعد آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تو ہمیں تبوک کا سفر درپیش ہے، واپسی پر ہم ان شاء اللہ مسجد میں نماز پڑھیں گے۔
آیاتِ کریمہ کا نزول
تبوک سے واپسی پر آپؐ نے مدینہ سے پہلے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، یہاں سے مدینہ منورہ کا فاصلہ یک دن یا آدھے دن کا تھا، اسی دوران آپؐ کی خدمت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ کو مسجد ضرار کے متعلق باخبر کیا، اس موقع پر یہ دو آیتیں بھی نازل ہوئیں :
’’اور کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد اس کام کے لئے بنائی ہے کہ (مسلمانوں کو) نقصان پہنچائیں اور کافرانہ باتیں کریں اور مؤمنوں میں پھوٹ ڈالیں ، اور اُس شخص کو ایک اَڈّہ فراہم کریں جس کی پہلے سے اللہ اور اُس کے رسول کے ساتھ جنگ ہے۔ اور یہ قسمیں ضرور کھالیں گے کہ بھلائی کے سوا ہماری کوئی اور نیت نہیں ہے، لیکن اللہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ قطعی جھوٹے ہیں ۔ (اے پیغمبر) تم اُس (نام نہاد مسجد) میں کبھی (نماز کیلئے) کھڑے مت ہونا، البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، وہ اس بات کی زیادہ حق دار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۔ اُس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک صاف ہونے کو پسند کرتے ہیں ، اور اللہ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
(سورہ توبہ:۱۰۷۔۱۰۸)
پہلی آیت میں مسجد بنانے کے تین مقاصد بیان کئے گئے ہیں ، پہلا مقصد ضِرار، یعنی مسلمانوں کو نقصان پہنچانا، ضَرَرْ اسی کے ہم معنی ہے، بعض اہل لغت نے دونوں میں کچھ فرق بھی کیا ہے کہ ضررر اس نقصان کو کہتے ہیں جس میں نقصان پہنچانے والے کا اپنا فائدہ ہو، اور ضرار ایسے نقصان کو کہتے ہیں جس میں نقصان پہنچانے والے کا اپنا کوئی فائدہ نہ ہو۔ دوسرا مقصد اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ اس مسجد کی تعمیر سے یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں تفریق پیدا ہوجائے، وہ دو ٹکڑوں میں بٹ جائیں اور مسجد قبا کے نمازی گھٹ جائیں ، ان کے اس مقصد پر تفریقاً بین المؤمنین کے عنوان سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان کا تیسرا مقصد جو ارصادا لمن حارب اللہ سے واضح کیا گیا ہے یہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والوں کیلئے گھات لگانے کی جگہ بن جائے، یعنی و ہ لوگ اس عمارت میں اپنا ٹھکانہ بنالیں ، اس میں اسلحہ جمع کریں ، یہاں بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کریں ، اور ان پر حملہ کرنے کے منصوبے بنائیں ۔ دوسری آیت میں آپ ؐ کو حکم دیا گیا کہ آپ اس مسجد میں کبھی نہ جائیں ، نہ ٹھہریں ، نہ نماز پڑھیں بلکہ پہلے دن جو مسجد تقویٰ کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی ( مسجد قبا) اس میں جائیں ، ٹھہریں اور نماز پڑھیں۔ (تفسیر ابن کثیر: ۴/۲۱۰، تفسیر القرطبی: ۸/۲۵۳)