پچھلے ہفتے حالات کے مارے ان نوجوانوں نے پارلیمنٹ میں دھوئیں کے مرغولے پھیلا کر کیا حکومت کویہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اگر نفرت، فرقہ پرستی، ناانصافی، سماجی عدم مساوات، معاشی ناہمواری اور بد نظمی کی آگ پرجلد قابو نہ پایا گیا تو ملک کا امن و چین اور خوشحالی جل کر خاک ہوجائے گی؟
تیرہ دسمبر کے دن ساگر شرما اور منوج ڈی نام کے دو نوجوانوں نے لوک سبھا کے اندر گھس کر رنگین دھوئیں والے گولے چھوڑے۔تصویر :آئی این این
بچپن میں جب ہمیں عظیم رہنماؤں اور قومی ہیروز کے قصے سنائے جاتے تو ان کے اختتام پر یہ تلقین ضرور کی جاتی تھی کہ نئی نسل کا یہ فرض ہے کہ ان اکابرین کے ولولہ انگیزکارناموں والی زندگی سے تحریک لے کر ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس مادیت پرست دنیا میں اور زندگی کی بھاگم بھاگ میں بھلا کسے یہ نصیحت یاد رہتی ہوگی؟ لیکن یہ ہمارا مغالطہ تھا۔پچھلے ہفتے یہ انکشاف ہواکہ وطن عزیز میں ابھی بھی ایسے نوجوان ہیں جو قومی ہیروز کی زندگیوں سے نہ صرف متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان کے دکھائے ہوئے رستے پر چلنے کے لئے تیار بھی رہتے ہیں خواہ وہ رستہ کتنا ہی کٹھن اور پرخطر کیوں نہ ہو۔
۱۹۲۹ء میں انقلابی بھگت سنگھ اوران کے ایک ساتھی نے سنٹرل اسمبلی(پارلیمنٹ) میں دو بم پھینک کر برطانوی حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
ان انقلابیوں کے ہی انداز میں تیرہ دسمبر کے دن ساگر شرما اور منوج ڈی نام کے دو نوجوانوں نے لوک سبھا کے اندر گھس کر رنگین دھوئیں والے گولے چھوڑے اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔ پارلیمنٹ میں ہوئی اس دراندازی کے پیچھے جو عوامل اور محرکات کار فرما تھے ہم ان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔پولیس نے اس معاملے میں چھ نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان پر انسداد دہشت گردی کے قانون یواے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کیا یہ لوگ واقعی دہشت گرد ہیں ۔ کیا تیرہ دسمبر کے دن پارلیمنٹ میں کسی کی جان گئی، کوئی زخمی ہوا یا یرغمال بنایاگیا یاان لوگوں نے حکومت سے کسی تاوان کا مطالبہ کیا؟ کیا اس واقعہ کو پارلیمنٹ پر حملہ قرار دینا درست ہے؟کیا پولیس کو ان نوجوانوں کا کسی دہشت گرد تنظیم یا کالعدم انتہا پسند گروہ سے کسی تعلق کا کوئی سراغ ملاہے؟کیا اس دن جو ہواوہ ایک انوکھے احتجاج کے سوا کچھ اور تھا؟میں ان ملزمین کا دفاع نہیں کررہا ہوں کیونکہ میں یہ جانتا ہوں کہ ان کی پارلیمنٹ میں دراندازی ایک غیر قانونی حرکت تھی۔ میرا سوال فقط اتنا ہے کہ ان کو دہشت گرد قرار دے کر تاعمر جیل میں سڑادینا کیا انصاف ہوگا؟
غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کے خلاف امریکہ کی پارلیمنٹ (کانگریس) میں پچھلے دوماہ میں کئی بار عوامی مظاہرے ہوچکے ہیں ۔ پولیس عموماً مظاہرین کو منتشر کردیتی ہے یا جو اڑیل ہوتے ہیں انہیں حراست میں لے کر کچھ دیر بعد رہا کردیتی ہے۔ یہ مظاہرین امریکی حکومت کے خلاف نعرے لگاتے اور اپنے صدر کو فلسطینیوں کی نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور پھر بھی انہیں وطن دشمن یا دہشت گرد نہیں کہا جاتا ہے کیونکہ قدیم ترین جمہوریت کے آئین نے شہریوں کو احتجاج کا پورا حق دے رکھا ہے۔
تیرہ دسمبر کوان بھارتی نوجوانوں کا منشا کسی کو گزند پہنچانا نہیں تھا۔ اگر یہ تخریب کار ہوتے تو بے ضرر رنگین دھوئیں والے غباروں کے بجائے پارلیمنٹ میں خطرناک بم یا زہریلی گیس لے کر جاتے۔پھر بھی اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پارلیمنٹ کی سیکوریٹی میں شگاف لگایا گیا۔ وزیر داخلہ نے سیکوریٹی میں ہوئی اس چوک کو تشویشناک قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ اس چوک کے لئے کیا فقط سیکوریٹی کے عملے کو قربانی کا بکرا بنانا کافی ہے؟ مہوا موئترا کی رکنیت اس لئے ختم کردی گئی کیونکہ انہوں نے اپنے کمپیوٹر کا پاس ورڈ کسی کے ساتھ شئیر کیا تھا۔ پھر بی جے پی کے اس ایم پی کو معطل کیوں نہیں کیا گیا جس نے ساگر شرما اور منوج ڈی کو پارلیمنٹ کے اندر داخلے کے لئے خصوصی پاس جاری کیا تھا؟
لیکن کیا ہم صرف پارلیمنٹ کی سیکوریٹی میں لگی سیندھ پر بات کریں گے یا یہ جاننے کی کوشش بھی کریں گے کہ یہ سیندھ کیوں لگی اور ملزموں کو یہ قدم کیوں اٹھانا پڑا؟مودی جی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے آئیے اس واقعے کی گہرائی میں جاکر یہ پتہ لگاتے ہیں اس کے ’’پشت پر کون سے عناصر تھے اور ان کے کیا عزائم‘‘ تھے۔ جو لوگ اس انوکھے احتجاج میں ملوث تھے وہ ملک کے مختلف حصوں کے باشندہ تھے۔ ان کا تعلق راجستھان، ہریانہ، اترپردیش، مہاراشٹر، کرناٹک، بہار اور مغربی بنگال سے تھا۔ یعنی وہ بھارت کے مشرقی خطے سے مغربی خطے تک اور شمالی خطے سے جنوبی خطے تک کی نمائندگی کررہے تھے۔ ان میں تین باتیں مشترک ہیں : سب ہندو ہیں ،بھگت سنگھ کے عقیدت مند ہیں اور سب بے روزگار ہیں ۔
حکمراں پارٹی اور گودی میڈیا ان نوجوانوں کو تخریب کار یا دہشت گرد سمجھیں لیکن مجھے یہ غریب اور مصائب کا شکار عام ہندوستانی شہری نظر آتے ہیں جنہوں نے غریبی، بے روزگاری، مہنگائی اور منی پور میں جاری تشدد پر سرکار کی توجہ مبذول کرانے کے لئے اس غیر معمولی طریقہ احتجاج کا انتخاب کیا۔اپنی جمہوری جواب دہی سے فرار حاصل کرنے کی خاطر اپویشن کے اراکین پارلیمنٹ کو ہول سیل میں معطل کرنے کی بجائے حکومت کو اپنی کارکردگی اور طرز حکومت کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک طرف سرکار آتم نربھر بھارت بنانے کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسری جانب ۸۰؍ کروڑ لوگوں کو پانچ کلو اناج دے کر انہیں ریاست کا دست نگر بناتی ہے۔ ایک طرف ملک میں سو کروڑ لوگوں کے ہاتھوں میں موبائل فون پہنچ گئے ہیں اور دوسری طرف کروڑوں لوگوں کے ہاتھ بالکل خالی ہیں ۔ اس بات پر جشن منایا جارہا ہے کہ ملک کااسٹاک مارکیٹ نئی بلندیاں چھو رہا ہے لیکن اس بات کی فکر نہیں ہے کہ انسانی اقدار تیزی سے زوال پذیر ہیں ۔چند سالوں میں ہندوستان کے تیسری بڑی معیشت بن کر ابھرنے کا مژدہ سنایا جارہا ہے لیکن معاشرے میں جاری قرون وسطیٰ کے جابرانہ نظام کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔چاند پر پہنچنا اگر قومی افتخار کی بات ہے تو ایک برہمن کا ایک قبائلی کے منہ پر پیشاب کرنا قومی شرمندگی کیوں نہیں سمجھی جاتی ہے؟
نیو انڈیا میں احتجاج کرنا غیر قانونی بنادیا گیا ہے۔ احتجاج کرنے والے شہریوں کو حکومت کی ایما پر درباری میڈیا قومی ولین بنادیتا ہے۔ احتجاجیوں پر جہادی، خالصتانی اور اربن نکسل جیسے لیبل چپکا کر ان کے جائز پر امن احتجاج کو شر انگیزی اور وطن دشمنی بنادیا گیا ہے۔ حکومت کو پرامن جمہوری احتجاج سے کس قدر چڑ ہے اس کا اندازہ تو اسی دن ہوگیا تھا جب وزیر اعظم نے’’اندولن جیوی‘‘ کہہ کر احتجاج کرنے والے شہریوں کی تحقیر کی تھی۔بھگت سنگھ نے سینٹرل اسمبلی میں بم پھینکنے کے جواز میں کہا تھا کہ’’بہروں کو سنانے کے لئے دھماکے‘‘ ضروری ہیں ۔پچھلے ہفتے حالات کے مارے ان نوجوانوں نے پارلیمنٹ میں دھوئیں کے مرغولے پھیلا کر کیا حکومت کویہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اگر نفرت، فرقہ پرستی، ناانصافی، سماجی عدم مساوات، معاشی ناہمواری اور بد نظمی کی آگ پرجلد قابو نہ پایا گیا تو ملک کا امن و چین اور خوشحالی جل کر خاک ہوجائے گی؟