Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

جہاں لڑکیوں کا پہلا اسکول شروع ہوا تھا وہیں خواتین غیر محفوظ رہیں، یہ المیہ ہے

Updated: March 02, 2025, 2:23 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

پونے جیسے ترقی یافتہ شہر میں صبح کے وقت بھی اگر کوئی لڑکی محفوظ نہیں ہے تو ہم کس قسم کی ترقی کی بات کررہے ہیں ؟

The bus depot at Pune`s Swargate where a young woman was raped in broad daylight. Photo: INN.
پونے کے سوار گیٹ کا وہ بس ڈپو جہاں دن کے وقت ایک دوشیزہ کی آبروریزی ہوئی۔ تصویر: آئی این این۔

مہاراشٹر میں پے در پے رونما ہونے والے دل سوز واقعات نے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا سارا زعم خاک میں ملا دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں خواتین کی آبروریزی کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ چلتی بس میں نربھیا کی آبروریزی کے بعد پونے کے سوارگیٹ بس ڈپو میں پیش آنے والا شرمناک واقعہ ہماری غیرت کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہے مگر پولیس اور سرکار دونوں اس طرح کے واقعات پر قدغن لگانے اور سخت اقدامات کرنے میں ناکام ہیں۔ پونے جیسے ترقی یافتہ شہر میں صبح کے وقت بھی اگر کوئی لڑکی محفوظ نہیں ہے تو ہم کس قسم کی ترقی کی بات کررہے ہیں ؟
مہاراشٹر حکومت معمول کے مطابق سو رہی تھی
مراٹھی اخبار’ سامنا‘ نے ۲۸؍ فروری کے اداریے میں لکھا ہے کہ’’پونے میں ریاستی حکومت کی ’شیو شاہی‘ بس میں ایک لاڈلی بہن کی عصمت تار تار ہوگئی۔ علی الصباح ۵؍ بجے جب یہ انسانیت سوز سانحہ پیش آیاتو مہاراشٹر حکومت معمول کے مطابق سو رہی تھی۔ چند سال پہلے جب دہلی کی ایک چلتی بس میں ایسا ہی نربھیا کا واقعہ پیش آیا تھا اس وقت بی جے پی نے پوری پارلیمنٹ ٹھپ کرکے سڑکوں پر احتجاج کیا تھا۔ آج مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت ہے اور اجیت پوار پونے کے نگراں وزیر ہیں، اس کے باوجود لاڈلی بہنوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے کیونکہ غنڈوں کو سیاسی سرپرستی مہیا کی گئی ہے۔ پونے میں قتل، اغوا، ہفتہ خوری اور خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ غنڈے ہاتھ میں تلوار لئے سرعام گھوم رہے ہیں۔ سوارگیٹ ڈپو میں کھڑی بسوں کے اندر شراب کی بوتلیں، مرد اور خواتین کے کپڑے اور بہت ساری ممنوعہ اشیا ملی ہیں۔ اس کا کیا مطلب نکالا جائے؟ چونکہ ایس ٹی خسارے میں چل رہی ہے توکیا بسوں کو طوائف کا کوٹھا بنا کر پیسہ کمایا جارہا ہے؟آبروریزی کا واقعہ پیش آنے کے بعد وزیرٹرانسپورٹ نے آناً فاناً ۲۳؍ سیکوریٹی گارڈ کو معطل کردیا ہے۔ یہ تمام سیکوریٹی گارڈ ایک پرائیویٹ کمپنی کے تھے اور یہ کمپنی بی جے پی کے کسی قریبی سے تعلق رکھتی ہے۔ ہر کام میں پیسہ کمانا موجودہ حکمرانوں کی پالیسی بن چکی ہے۔ لاڈلی بہنوں کو ۱۵۰۰؍ روپے دے کر خواتین پر ہونے والے ظلم سے یہ پاپ نہیں دھل سکتا۔ جب پوجا چوہان کی مشتبہ حالت میں موت ہوئی تھی تب اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر دیویندر فرنویس اُس موت کے ذمہ دار وزیر سنجے راٹھور سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے میں پیش پیش تھے۔ آج یہی سنجے راٹھور وزیر اعلیٰ فرنویس کی بغل میں بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر دیویندر فرنویس کو خواتین کا حقیقت میں احترام ہوتا تو وہ سنجے راٹھور کو کابینہ میں قطعی جگہ نہیں دیتےلہٰذا جو فرنویس پوجا چوہان کو انصاف نہیں دلا سکے، وہ دوسری مظلوم خواتین کو کیا انصاف دیں گے؟‘‘
خاطی میں اچانک اتنا ’اعتماد‘ نہیں پیدا ہوا ہوگا
ہندی اخبار ’لوک مت سماچار‘ ` اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’ پونے میں اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کارپوریشن(ایس ٹی) کے انتہائی مصروف ترین سوار گیٹ بس اسٹینڈ پر کھڑی بس میں دوشیزہ کی آبروریزی نے ایک بار پھر سماج کے باشعور لوگوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ بدھ کو علی الصباح تقریباً ۶؍ بجے پیش آیا۔ اس وقت بس ڈپو کے احاطے میں بہت سے مسافر موجود تھے اور کئی بسیں وہاں کھڑی تھیں۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایسے حالات میں کسی عوامی جگہ پر ایسا واقعہ رونما ہو۔ متاثرہ لڑکی نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ اسی لئے اُسے دیدی کہنے والے نوجوان پر بھروسہ کرکے خالی بس کے پاس چلی گئی جہاں ملزم دتاتریہ گاڑے نے اس کی عصمت کو تار تار کیا۔ یہی نہیں، اس نے لڑکی کو اتنا ڈرایا کہ وہ فوری طور پر پولیس سے شکایت کرنے کی ہمت نہیں کر پائی۔ ملزم کی ڈھٹائی دیکھئے اس نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ ۲۳؍ سیکوریٹی گارڈز کی موجودگی میں اگر لڑکی چیخے تو لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور وہ پکڑا جائے گا۔ یقیناً اس میں اچانک ایسا اعتماد پیدا نہیں ہوا ہوگا۔ اس نے پہلے بھی ایسی غلطیاں کی ہوں گی اور آسانی سے بچ نکلا ہوگا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جائے وقوع سے کچھ فاصلے پر پولیس اسٹیشن بھی ہے۔ اگر محکمہ ٹریفک کا عملہ، پولیس اور سیکوریٹی گارڈ کی موجودگی کے باوجود جرائم پیشہ عناصر میں کوئی خوف نہیں ہے تو سیکوریٹی کے ذمہ دار لوگوں پر شک پیدا ہوتا ہے کہ یا تو اس میں اُن کی ملی بھگت تھی یا سنگین غفلت۔ اگر آپ کو یاد ہوتو ملزم سنجے رائے جس نے کولکاتا کے آر جی میڈیکل کالج اور اسپتال میں ایک لیڈی ڈاکٹر کی عصمت دری کی اور پھر بے دردی سے قتل کیا تھا، وہ بھی بلا روک ٹوک اسپتال میں آتا جاتا رہتا تھا۔ اسی طرح سوارگیٹ بس ڈپو میں بھی محکمہ ٹریفک کا عملہ، وہاں تعینات سیکوریٹی گارڈ یا قریبی پولیس اسٹیشن میں تعینات پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی کے حوالے سے چوکس رہتے تو جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے اتنے بلند نہیں ہوتے۔ ‘‘
یہ بے حسی اور بے شرمی کی انتہا ہے
مراٹھی اخبار’ نوشکتی‘ نے لکھا ہے کہ ’’ ذاتی مفاد کی سیاست کرنے والے لیڈران خواتین کے ساتھ پر تشدد واردات رونما ہوتے ہی اچانک متحرک ہوجاتے ہیں اور جیسے ہی عوام کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہےاور حالات قابو میں آجاتے ہیں تو یہ سیاست داں حسب معمول اپنی سیاست میں ایسے مشغول ہوجاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اور ایسا اُس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک کوئی دوسرا ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوتا۔ یہ بے حسی اور بے شرمی کی انتہا ہے۔ عام لوگوں کی حمایت سے کرسی پر بیٹھے ان سیاست دانوں کی دنیا میں عام آدمی کیلئے کوئی جگہ ہے یا نہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان لیڈران کے پاس خواتین کے ساتھ ہونےوالے ظلم وستم کی وارداتوں پر کوئی ٹھوس اقدامات کرنے کی قوت ارادی ہی نہیں ہے۔ انتہائی پر ہجوم سوارگیٹ بس اسٹینڈ میں کھڑی ایک ’شیو شاہی‘ بس میں ایک دوشیزہ کے ساتھ ہونےوالی آبروریزی نے ہر کسی کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ سیکوریٹی انتظامات کس حد تک ناقص ہیں، اسے ثابت کرنے کیلئے ہر بار خواتین کو زیادتی کا شکار بننا پڑتا ہے۔ اس سے زیادہ شرم ناک اور کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ اب کچھ لوگ کہیں گے کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہئے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر خواتین کے تحفظ کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ پولیس پر حکام کا کنٹرول نہیں تو کس کا ہوگا؟سوارگیٹ جیسی مصروف ترین جگہ پر مجرموں کو نہ صرف پناہ ملتی ہے بلکہ وہ عصمت دری جیسی گھناؤنی حرکت انجام دیتے ہیں اس کی ذمہ داری بس ڈپو منیجر سے لےکر پولیس تک سبھی کی ہے۔ پونے کے واقعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ ملزم اچھی طرح سے جانتا تھا کی انتہائی معیوب اور گھناؤنی حرکت انجام دینے کے بعد بھی اس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK