سپریم کورٹ تک معاملہ پہنچنے کے بعد اس مسئلے کا یہ حل نکالاگیا کہ گریس مارکس منسوخ کردیئے گئے او ر طلبہ کو یہ متبادل دیاگیا کہ وہ یاتو گریس مارکس کے بغیر رزلٹ کو قبول کریں یا پھر دوبارہ امتحان دیں لیکن کیا اسے انصاف کا نام دیا جاسکتا ہے؟
EPAPER
Updated: June 16, 2024, 2:58 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
سپریم کورٹ تک معاملہ پہنچنے کے بعد اس مسئلے کا یہ حل نکالاگیا کہ گریس مارکس منسوخ کردیئے گئے او ر طلبہ کو یہ متبادل دیاگیا کہ وہ یاتو گریس مارکس کے بغیر رزلٹ کو قبول کریں یا پھر دوبارہ امتحان دیں لیکن کیا اسے انصاف کا نام دیا جاسکتا ہے؟
میڈیکل کورسیز میں داخلہ کیلئے منعقد ہونےوالا قومی اہلیتی امتحان ’’نیٹ‘‘ اس وقت موضوع بحث ہے۔ یہ امتحان کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ ملک میں ایم بی بی ایس کی محض ایک لاکھ ۶؍ ہزار ۳۳۳؍ نشستیں (تقریباً۵۵؍ ہزار ۶۰۰؍ سرکاری کالجز میں اور ۵۰؍ ہزار ۶۰۰؍ پرائیویٹ اسپتالوں میں ) ہیں۔ ان کیلئے امسال ۲۴؍ لاکھ طلبہ نے داخلہ امتحان میں شرکت کی۔ امتحان میں جتنے اچھے نمبر ملیں گے، اتنے اچھے کالج میں داخلے کی راہ ہموار ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھنے والے والدین اس امتحان میں اچھے نمبروں کے حصول کیلئے لاکھوں روپے خرچ کردینے کو تیار بیٹھے ہیں۔ کوچنگ کلاسیز کی ایک پوری انڈسٹری تیار ہوگئی ہے جو داخلہ امتحان میں کامیابی کے اسی خواب کے استحصال کیلئے لاکھوں روپے اینٹھ رہی ہے۔
راجستھان کا علاقہ کوٹہ جومقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کا مرکز بن کر ابھرا ہے، میں نیٹ میں اچھے نمبرات سے کامیابی کا خواب دکھانے والی دکانیں بھی کھل گئی ہیں۔ یہاں والدین ۱۰؍ ویں میں کامیابی کے بعد ہی اپنے ۱۵؍ سے ۱۶؍ سال کے بچوں کو بھیج دیتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر بچے سماجی زندگی سے پوری طرح کٹ کر نیٹ یا اس طرح کے دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاریوں کیلئےخود کو وقف کر دیتے ہیں۔ وہ کبھی ’’زندگی میں کامیابی ‘‘ کیلئے اپنی مرضی سے ایسا کرتے ہیں کبھی والدین کی خواہش پوری کرنے کیلئے انہیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی ذہنی کیفیت کو حساس طبیعت کے حامل افراد تھوڑی سی توجہ دے کر بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: لوک سبھا انتخابات کی ۵؍ مثبت اور۵؍ منفی باتیں
اس سے پہلے کہ نیٹ کے حالیہ تنازع پر گفتگو کریں، ایک نظر اُن خود کشیوں پر ڈال لیتے ہیں جو نیٹ یا اس جیسے دیگر مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب نہ ہوپانے یا دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دینے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس کیلئے کوٹہ کے ہی اعدادوشمار کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ اسی مہینے (جون میں ) نیٹ کا رزلٹ جاری ہونے کے دوسرے دن ۵؍ جون کو اپنے نتیجے سے مایوس ہونے ایک ۱۸؍ سالہ طالبہ نے کوٹہ کی ایک کثیر منزلہ عمارت سے کود کر جان دیدی۔ یہ اس سال کی ۱۰؍ ویں خود کشی تھی۔ جو خام اعدادوشمار دستیاب ہیں ان کےمطابق ۲۰۲۳ء میں ۲۷؍ طلبہ نے، ۲۰۲۲ء میں ۱۵؍ طلبہ نے، ۲۰۱۹ء میں ۱۸، ۲۰۱۸ء میں ۲۰، ۲۰۱۷ء میں ۷، ۲۰۱۶ء میں ۱۷؍ اور ۲۰۱۵ء میں ۱۸؍ بچوں نے خود کشی کی۔ ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۱ء میں چونکہ کورونا کی وبا پھیلی ہوئی تھی اور کوٹہ میں کوچنگ مراکز بند تھے اس لئے ان دوبرسوں میں کوئی خود کشی ریکارڈ نہیں ہوئی۔ خود کشی کرنے والے ان طلبہ کی عمریں ۱۷؍ سال سے ۲۰۔ ۲۲؍ سال کے درمیان تھیں کیوں کہ اسی عمر کے طلبہ امتحان کی تیاری کررہے ہوتے ہیں۔
ضرورت تو اس بات کی تھی کہ یہ اعدادوشمار ہمیں اور ہماری حکومتوں کو چونکادیتے۔ یہ سوچنے پر مجبور کرتے کہ ۱۰؍ ویں اور ۱۲؍ ویں میں اچھے نمبرات سے کامیاب ہونے والے طلبہ کو بھی اُس داخلہ امتحان میں کوچنگ کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے جس کی اہلیت ہی ۱۲؍ ویں میں کامیابی ہے۔ یعنی جس طالب علم نے ۱۲؍ ویں تک ٹھیک ٹھاک پڑھائی کی ہے اسے اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ ان امتحانات میں بیٹھ سکے۔ اگر اس کی کوچنگ کیلئے سالانہ ۱۰؍ ہزار کروڑ ٹرن اووَر کی انڈسٹری کھڑی ہوجاتی ہے تو پھر یہ ہمارے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ پھریہ سوال جائز ہے کہ ہمارے اسکولوں اور جونیئر کالجز میں کیا پڑھا ئی ہورہی ہے اور ۱۰؍ ویں اور ۱۲؍ ویں کے بورڈ کے امتحان کی کیا افادیت ہے؟
بہرحال اب آتے ہیں نیٹ کے تازہ تنازع پر اور اس سوال پر کہ اس کیلئے ذمہ دار کون ہےا ور سزا کسے بھگتنی پڑ رہی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں مودی حکومت کی ایک خاصیت جو کھل کر سامنے آئی ہے وہ اپنی غلطی یا ناکامی کو قبول نہ کرنا ہے۔ اس پس منظر میں بہار میں پرچہ لیک کرنے کے الزام میں گرفتاریوں اور گجرات کے امتحانی مرکز میں دھاندلی، رشوت ستانی اور ڈھائی کروڑ روپے تک کی لین دین کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد بھی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کا یہ دعویٰ کہ نہ پرچہ لیک ہوا نہ کوئی دھاندلی ہوئی حیرت انگیز تو نہیں افسوسناک ضرور ہے۔ وزیر تعلیم اور نیٹ امتحان منعقد کرنےو الا ادارہ ’’نیشنل ٹیسٹنگ اتھاریٹی ‘‘ دعوے کچھ بھی کررہے ہوں لیکن جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ چونکادینےوالی اور تحقیق طلب ہیں۔ اول تو وقت سے پہلے اور خاص طور سے ۴؍ جون کو جبکہ عام انتخابات کے نتائج کا شور تھا، نیٹ کے رزلٹ کے اعلان پر ہی سوال اٹھ رہے ہیں۔ دوم انتظامی خامیوں کی وجہ سے کئی مراکز میں طلبہ کا وقت ضائع ہونا اور پھرانہیں گریس مارکس کا ملنا اور جن طلبہ کو گریس مارکس ملے ان میں سے ۸؍ کا ۷۲۰؍ میں سے ۷۲۰؍ نمبر حاصل کرنا شک پیدا کرتاہے۔ ایک معاملے میں ایک امیدوار کو ۷۸؍ گریس مارکس ملنے کا انکشاف ہوا ہے جو یقیناً حیرت انگیز ہے۔ اس سے دیگر طلبہ کے اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ ۱۰۰؍ مارکس تک گریس کے طور پر دیئے گئے ہیں۔ شور شرابہ اور سپریم کورٹ تک معاملہ پہنچنے کے بعد اس مسئلے کا یہ حل نکالاگیا کہ گریس مارکس منسوخ کردیئے گئے او ر طلبہ کو یہ متبادل دیاگیا کہ وہ یاتو گریس مارکس کے بغیر رزلٹ کو قبول کریں یا پھر دوبارہ امتحان دیں۔ سوال یہ ہے کہ جن طلبہ کا وقت ضائع ہواتھا، انہیں اُسی وقت جتنا وقت ضائع ہواتھا اتنا بڑھا کر کیوں نہیں دے دیاگیا۔ اس طرح یہ مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا یاپھر وقت کا ضائع ہونا اور پھر گریس مارکس کا ملنا بھی کسی سازش کا حصہ تھا۔
اس کے علاوہ دوسرا بڑا معاملہ پرچوں کے لیک ہونے کا ہے۔ وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہے ہیں کہ پرچہ لیک ہی نہیں ہوا اور اپوزیشن بلا وجہ اس پر واویلا مچا رہاہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن واویلا ا س لئے مچا رہا ہے کہ طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ وہ بھی بلا وجہ احتجاج نہیں کررہے ہیں۔ امتحان منسوخ کرنے کا مطالبہ اگر کیا جارہاہے تو وہ اس لئے کہ پرچوں کے لیک ہونے کے اشارے ملے ہیں۔ میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ۵؍ مئی کو امتحان کے انعقاد سے پہلے ہی کچھ مراکز پر پرچے لیک ہوگئے تھے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق کم از کم ۳؍ مراکز پر پرچوں کے لیک ہونے کا معاملہ سامنے آیا ہے اور پولیس نےکیس درج کیا ہے۔ بہار پولیس کی اکنامک آفیس وِنگ نےجانچ میں پایا ہے کہ پرچوں کیلئے طلبہ اور والدین نے ۵۰؍ لاکھ روپے تک ادا کئے ہیں۔ اس سلسلے میں ۱۳؍ افراد کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امتحان کو فوری طو رپر یا تو منسوخ کردیا جاتا یا پھر پرچے لیک ہوئے یا نہیں ہوئے ا س کے تصفیہ تک نتائج کو روک لیا جا تا مگر وزیر تعلیم نے این ٹی اے کے اس دعوے کو من وعن تسلیم کرلیا کہ پرچے لیک نہیں ہوئے۔ اسی طرح گجرات میں امتحان میں دھاندلی اور چیٹنگ کے الزام میں ۵؍ افراد کی گرفتاری کو بھی فراموش کردیاگیا، حالانکہ وہاں تو خود بی جےپ کی حکومت ہے۔ گجرات میں جو انکشافات ہوئے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں۔ پولیس کی اب تک کی جانچ کےمطابق پوری ایک گینگ کام کررہی تھی جو امیدواروں کو ’’بہترین نتائج‘‘ کی یقین دہانی کے عوض لاکھوں نہیں کروڑوں روپے وصول کرچکی تھی۔ الزام ہے کہ گودھرا میں ۳۰؍ طلبہ کیلئے چیٹنگ کا انتظام کیاتھا۔ جانچ میں شامل افسر نے جو بتایا ہے اس کےمطابق مذکورہ طلبہ سے کہا گیاتھا کہ انہیں جن سوالات کے جواب آتے ہیں وہ لکھ دیں اور جن کے جواب نہیں آتے انہیں چھوڑ دیں تاکہ پرچہ کا وقت ختم ہونے کے بعد مذکورہ گینگ کے افراد جو امتحانی مرکز کے ذمہ دار بھی تھے، پرچوں میں صحیح جواب بھر سکیں اور اس طرح امتحان دینےوالے طلبہ ’’بہترین نمبر‘‘ حاصل کرکے میڈیکل کورسیز میں داخلے کے اہل ہوجائیں۔ اس کیلئے ایک ایک طالب علم سے ۱۰۔ ۱۰؍ لاکھ روپے لئے جانے کے انکشافات ہوئے ہیں۔ یہ معاملہ کسی اور کی شکایت پر منظر عام پر نہیں آیا بلکہ گودھرا کی ضلع ایجوکیشن آفیسر کریٹ پٹیل کی شکایت پر بے نقاب ہوا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ بہار اور گجرات میں نیٹ کے یہ وہ معاملات ہیں جو منظر عام پر آگئے، نامعلوم کتنی ایسی کتنی ہی دھاندلیاں منظر عام پرآہی نہ سکی ہوں۔
ایک ایسا امتحان جس کے دباؤ کی وجہ سے کئی طلبہ خود کشی جیسے انتہائی قدم اٹھالیتے ہیں، غیر معمولی احتیاط اور توجہ کا متقاضی ہے۔ نیٹ میں امسال ۲۴؍ لاکھ طلبہ نے شرکت کی۔
دھاندلی اگر ہوئی ہے تو اس میں مشکل سے چند ہزار طلبہ یا ان کے والدین ملوث ہوں گے مگر اس کی سزا ذہنی تناؤ کی شکل میں تمام طلبہ بھگت رہے ہیں ۔ حکومت کا جو رویہ ہے اس سے نہیں لگتا کہ وہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں جانچ کیلئے تیار ہوگی اس لئے اب ساری امیدیں سپریم کورٹ سے وابستہ ہیں کہ وہ کیا فیصلہ سناتا ہے۔ بہرحال نیٹ میں کامیابی کیلئے والدین کا لاکھوں روپے خرچ کرنے کیلئے تیار ہونا اور کچھ والدین کا دسیوں لاکھ روپے تک رشوت دے کر اپنے بچوں کے ’’اچھے نمبرات‘‘ کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ نظام ناقص ہے۔ یہ ایسے چور دروازے کھولتا ہے جو اُن طلبہ کیلئے میڈیکل کے شعبے میں داخلے کی راہ ہموار کردیتا ہے جو اپنے اکیڈمک کارکردگی کی بنیاد پر اس کے اہل نہیں ہیں۔ اس لئے اہلیتی امتحان کے اس نظام پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔