• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کون ہوگا نیا دلائی لاما

Updated: January 01, 2021, 5:46 PM IST | Shamim Tariq

موجودہ دلائی لاما کی عمر ۸۵؍ سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ دعا اور دوا کے باوجود وہ کتنے دن زندہ رہ سکتے ہیں؟چین کی حکومت نے نیا دلائی لاما منتخب کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ پچھلے تجربات کی روشنی میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ چین کی حکومت کی نیت درست نہیں ہے اور پھر پنچین یا پنجم لاما کے ساتھ کئے گئے سلوک سے بھی یہ واضح ہوچکا ہے کہ چین مذہبی منصب پر اپنے ہی لوگوں کو چاہتا ہے اگرچہ وہ مذہب کو نہ ماننے کا مدعی ہے۔

14th Dalai Lama.Picture :INN
دلائی لاما۔ تصویر:آئی این این

اگر کسی مذہبی جماعت کے لوگ کسی شخص کو اپنا مذہبی رہنما منتخب کرتے ہیں تو کسی حکومت کو پریشان ہونے یا انتخاب کے اس عمل میں ہی رخنہ ڈالنے کا کیا حق ہے؟ مگر دلائی لاما کے انتخاب کے معاملے میں چینی حکومت ایسا کررہی ہے۔ بدھ مذہب کے روحانی رہنما دلائی لاما کہتے جاتے ہیں جن کو سیاسی اور حکومتی سطح پر انتظامی اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ دلائی لاما کے متعلق تبتی بودھ عوام کا یقین ہے کہ وہ مرتے ہی کہیں اور کسی بچے کی صورت میں جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ دلائی لاما کے انتقال کے بعد ہی ان کے کچھ خاص شاگرد یا قریبی لوگ کچھ نشانیوں کے سہارے یہ طے کرتے ہیں کہ ان کا جنم کس بچے کی شکل میں کہاں ہوا ہے۔ مگر اس فیصلے یا انتخاب کو چینی حکومت کی تائید حاصل ہونا ضروری ہے۔ اب تک ۱۳؍ معاملوں میں چین کی شخصی حکومتیں اور چودھویں معاملے یا چودھویں دلائی لاما کے معاملے میں وہاں کی ایک قوم پرست حکومت تبتیوں کے فیصلے کی تائید کرچکی ہے مگر چین کی برسر اقتدار جماعت یا کمیونسٹ حکومت موجودہ دلائی لاما کو دلائی لاما نہیں مانتی یا ان کو وہ درجہ نہیں دیتی جو ان کو ملنا چاہئے۔ کچھ دوسری روحانی شخصیتوں کے ساتھ بھی چین میں یہی ہوا ہے۔دلائی لاما کے بعد دوسرے نمبر کی روحانی شخصیت کو ’’ پنچین لاما ‘‘  کہتے ہیں۔ پنچین یا پنجم لاما کی حیثیت سے ۱۹۹۵ء میں ’’ گے دھن نیاما ‘‘ کو منتخب کیا گیا تھا مگر اس حیثیت سے منتخب ہونے کے تین دن کے اندر ہی ان کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور تب سے ان کو نہیں دیکھا گیا ہے۔ چین کی حکومت یہ بھی نہیں بتاتی کہ وہ زندہ ہیں یا ان کی روح پرواز کرچکی ہے۔ ان کے بجائے ایک دوسرے شخص ’’گیال سین نیربو‘‘ کو گیارہواں پنچین یا پنجم لاما بھی قرار دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح ۱۷؍ ویں ’’کرماپا‘‘ بھی دو ہیں۔ یعنی اس مذہبی منصب پر ایک تو وہ ہیں جنھیں اپنی روایت کے مطابق بودھ عوام نے منتخب کیا ہے اور ایک وہ جس کو چین کی حکومت نے نامزد کیا ہے۔
 مذہبی منصب کیلئے حکومت کی تائید کیوں اور کب ضروری قرار دی گئی؟ یہ واضح نہیں ہے۔ مہاتما بدھ کے انتقال جس کو ان کے ماننے والے ’’پری نروان‘‘ کہتے ہیں کے بعد بدھ مذہب کے ماننے والوں کی وہ جماعت جو ترکِ دنیا کرچکی تھی اور جس کو ’’بھکشو‘‘ کہا جاتا تھا تبلیغ و اشاعت مذہب کا کام کرنے لگی۔ اس کے برعکس بدھ مذہب کے ماننے والوں میں وہ لوگ بھی تھے جنھوں نے دنیا ترک نہیں کی تھی بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے بدھ مذہب کی تعلیمات پر عمل کررہے تھے۔ ’’بھکشوئوں‘‘ کی جماعت نے جس کو ’’سنگھ‘‘ کہا گیا ہے، کئی اجتماعات منعقد کئے۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات جمع کیں اور آئند ہ کیلئے لائحۂ عمل مرتب کیا۔ بھکشوئوں کے دوسرے اجتماع کے بعد یہ مذہب دو حصوں یا دو فرقوں میں تقسیم ہوگیا۔ مہاتما بدھ کے انتقال یا ’’پری نروان‘‘ کے بعد ان کے ماننے والوں کے دو فرقوں میں تقسیم ہونے کے سلسلے میں بہت کچھ تفصیلات بیان کی گئی ہیں مگر بہت کچھ تاریکی میں بھی ہے۔بہرحال صدیوں کی روایت یہ ہے کہ ایک دلائی لاما جب انتقال کرجاتا ہے تو بعض نشانیوں اور علامتوں کی بنیاد پر بھکشوئوں کی جماعت یا دلائی لاما کے قریبی لوگ کسی دوسرے بچے کو دلائی لاما کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔ موجودہ دلائی لاما کی عمر ۸۵؍ سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ دعا اور دوا کے باوجود وہ کتنے دن زندہ رہ سکتے ہیں؟ چین کی حکومت نے نیا دلائی لاما منتخب کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ پچھلے تجربات کی روشنی میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ چین کی حکومت کی نیت درست نہیں ہے اور پھر پنچین یا پنجم لاما کے ساتھ کئے گئے سلوک سے بھی یہ واضح ہوچکا ہے کہ چین مذہبی منصب پر اپنے ہی لوگوں کو چاہتا ہے اگرچہ وہ مذہب کو نہ ماننے کا مدعی ہے۔ 
 چین کے اس رویے کو کسی طرح بھی جائز نہیں کہا جاسکتا۔ تبتیوں کی روایت صحیح اور جمہوری ہے یا نہیں اس کا فیصلہ وہ خود کریں گے دوسرا کون ہوتا ہے اس میں مداخلت کرنے والا؟ مگر چونکہ چین تبتیوں یا بدھ مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی معاملات یا روایات میں مداخلت کررہا ہے اسلئے امریکہ کیوں خاموش رہتا؟ اس نے بھی تبتیوں کے شہری اور مذہبی حقوق کی حمایت کے نام پر مداخلت کرنا شروع کردیا۔ ’’مداخلت‘‘ کا لفظ نہ بھی استعمال کریں تو کہنا پڑے گا کہ تبتیوں کی حمایت کے نام پر سیاسی دائوں چلنا شروع کر دیا۔
 دلائی لاما منتخب کرنے سے متعلق تبتیوں کے اختیارات کو تسلیم کرنے والا ایک مسودہ قانون امریکہ کے ایوان نمائندگان House of Representatives میں گزشتہ جنوری یعنی جنوری ۲۰۲۰ء میں ہی پاس کیا جاچکا تھا۔ اب امریکی سینیٹ نے بھی اس کو پاس کردیا ہے۔ امریکہ کے صدر کے دستخط ہوتے ہی یہ مسودہ قانون قانون ہی نہیں امریکہ کی پالیسی کا حصہ بھی بن جائے گا۔ اس پالیسی کے مطابق اگر چین تبتی عوام کے دلائی لاما منتخب کرنے کے حق کو کسی طرح بھی متاثر کرنے یا چھیننے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ امریکہ کے اس قانون یا فیصلے سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تبتی عوام خوش ہوئے ہیں مگر چین اس کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے رہا ہے۔امریکہ اور چین میں کس کی پالیسی صحیح ہے؟ اس کا فیصلہ کرتے ہوئے جہاں اس حقیقت کا ذہن میں ہونا ضروری ہے کہ تبتیوں کی روایت کے مطابق چین کی تائید کے بغیر دلائی لاما نہیں منتخب کیا جاسکتا یا جس شخص کو دلائی لاما کے منصب پر فائز کیا جائے اس کو چین کی تائید حاصل ہونا ضروری ہے مگر اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ چین اپنی پسند کا یا متوازی دلائی لاما منتخب کرسکتا ہے۔ چین یہی کرنے کی کوشش کررہا ہے اور تبتی عوام اس سے نالاں ہیں۔ امریکہ نے ایک قانون بنا کر چین کو ایسا پیغام تو دیدیا ہے جس میں اس کیلئے دھمکی ہے مگر چین پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ تبتیوں کے مذہبی حق یا روایت کے تحفظ کیلئے وہ کیا کرے گا؟ اس کا کوئی واضح نقشہ دنیا کے سامنے نہیں ہے مگر یہ طے ہے کہ وہ تبتیوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کے نام پر چین کے خلاف کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔جمہوری ذہن کے لوگ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ کسی حکومت کے تائید کردہ شخص کو مذہبی اور سیاسی معاملات میں سربراہی کا حق دینا ہی غلط ہے۔ اس حق کے سبب ہی امریکہ ایسے دلائی لاما کی حمایت کرسکتا ہے جو چین کا مخالف ہو اور چین ایسا دلائی لاما منتخب کرسکتا ہے جو ہر کام میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھے ’’ بتا تیری رضا کیا ہے؟ ‘‘ موجودہ صورت میں دلائی لاما کا منصب چینی اور امریکہ مفاد کے ٹکرائو کا مرکزی نقطہ اسی لئے بن گیا ہے کہ چین اپنے اختیار کے نام پر ایک روایت کو ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے اور امریکہ اس روایت کے تحفظ کے نام پر چین سے کئی حساب چکانا چاہتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK