ریاست میں ان دنوں ریزرویشن کے نام پر رسہ کشی جاری ہے۔ اس پورے معاملے میں مسلمانوں کا کہیں کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن او بی سی سماج کا مسیحا بننے کی تگ ودو میں مصروف کانگریس لیڈر وجے وڈیٹی وار نے گزشتہ دنوں پربھنی میں گوتم بدھ کی مورتیاں تقسیم کرنے کیلئے منعقد کی گئی ایک تقریب کے دوران بیان دیا کہ ’’ اگر بابا صاحب امبیڈکر نے اسلام قبول کر لیا ہوتا ملک کے ۲؍ ٹکڑے ہو جاتے۔‘‘
وجے وڈیٹی وار۔ تصویر : آئی این این
ریاست میں ان دنوں ریزرویشن کے نام پر رسہ کشی جاری ہے۔ اس پورے معاملے میں مسلمانوں کا کہیں کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن او بی سی سماج کا مسیحا بننے کی تگ ودو میں مصروف کانگریس لیڈر وجے وڈیٹی وار نے گزشتہ دنوں پربھنی میں گوتم بدھ کی مورتیاں تقسیم کرنے کیلئے منعقد کی گئی ایک تقریب کے دوران بیان دیا کہ ’’ اگر بابا صاحب امبیڈکر نے اسلام قبول کر لیا ہوتا ملک کے ۲؍ ٹکڑے ہو جاتے۔‘‘ اس بیان سے وہ کون سا ’امن کا پیغام‘ دینا چاہتے تھے اس کا علم نہیں ہو سکا لیکن جب ان کے اس’ خیال‘ پر تنقید یں ہونے لگیں تو انہوں نے تاویل پیش کی کہ ان کے بیان کا غلط مطلب نکالا گیا۔ وہ بابا صاحب کے زمانے کی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ آج کے پس منظر میں بات کر رہے تھے۔ چونکہ آج دو قوموں کے درمیان منافرت پھیلانے والے اقتدار میں ہیں ، لہٰذا آج اگر بابا صاحب نے اسلام قبول کر لیا ہوتا تو ملک کے ۲؍ ٹکڑے ہو گئے ہوتے۔ وڈیٹی وار کی یہ صفائی ناکافی نہیں بلکہ بے معنی ہے۔
ان کا پورا بیان کچھ یوں تھا’’آج ملک میں ذات پات اور مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے کا کام جاری ہے۔دنیا کا سب سے بڑا تبدیلیٔ مذہب ناگپور میں ہوا تھا۔ بابا صاحب امبیڈکر نے بودھ دھرم قبول کیا تھا۔ حالانکہ انہیں مختلف مذاہب کی جانب سے دعوت دی گئی تھی لیکن انہوں نے امن کا پیغام دینے والے بودھ دھرم کو اختیار کیا۔ ‘‘ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن آگے وڈیٹی وار نے کہا ’’ اگر بودھ دھرم کے بجائے انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہوتا تو ملک کے۲؍ ٹکڑے ہو جاتے۔ اسی لئے انہوں نےامن کا پیغام دینے والے بودھ مذہب کو قبول کیا جس کی ساری دنیا کو ضرورت ہے۔‘‘ اس میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ وہ بابا صاحب کے زمانے ہی کی بات کر رہے تھے اور بودھ دھرم کو اسلام سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
وجے وڈیٹی وار کے اس بیان کا جواب تاریخی اور سیاسی دونوں ہی اعتبار سے دیا جا سکتا ہے لیکن اسلام کو کسی دفاع کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے اس کا تاریخی جواب دینے کی ضرورت نہیں ۔ وجے وڈیٹی وار کو صرف یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ گزشتہ ۷۵؍ سال میں چاہے کانگریس کی حکومت رہی ہو یا بی جے پی کی، اسکول کی نصابی کتابوں میں مغلوں کی یا انگریزوں کے زمانے ہی کی تاریخ کیوں پڑھائی جا رہی ہے۔ مغلوں یا مسلمانوں کی ہندوستان آمد سے قبل یہاں کیا ہو رہا تھا، اس تعلق سے طلبہ کو کچھ پڑھانے کی ضرورت کیوں نہیں سمجھی جاتی؟ اسی سوال کے جواب میں ساری حقیقت پوشیدہ ہے۔ البتہ وجے وڈیٹی وار کی لن ترانی نے کئی سیاسی سوال کھڑے کر دیئے ہیں جو کانگریس لیڈر سے بھی پوچھے جانے چاہئے اور ان کی پارٹی سے بھی۔
پہلا سوال یہ ہے کہ وجے وڈیٹی وار کا تعلق او بی سی سماج سے ہے۔ گزشتہ الیکشن میں ۶۰؍ فیصد او بی سی ووٹروں نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔ کانگریس کو مسلمانوں کے علاوہ اور کوئی ووٹ دینے کو تیار ہی نہیں ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ کانگریس نے اسمبلی میں اپنا سب سے بڑا عہدہ (اپوزیشن لیڈر) ایک او بی سی لیڈر یعنی وجے وڈیٹی وار کو کیوں دیا؟ کسی مسلم لیڈر کو کیوں نہیں دیا؟ مان لیتے ہیں کہ ایسا سیاسی حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہوگا ، اس طرح او بی سی سماج کو پارٹی کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی لیکن کیا اب تک ایسا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے؟ کیا وجے وڈیٹی وار اس بات کی ضمانت دیں گے کہ آئندہ پارلیمانی اور اسمبلی الیکشن میں او بی سی ووٹر کانگریس کو ووٹ دے گا؟
اب تک ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے (جو کہ یقیناً ہے )آئین نے سب کو مساوی حقوق دیئے ہیں (بالکل دیئے ہیں ) پھر سوال یہ ہے کہ مراٹھا سماج کے دل میں عدم تحفظ کا احساس کیسے پیدا ہوا؟ اسے کیوں محسوس ہونے لگا کہ اگر ریزرویشن نہیں ملا تو آئندہ اس کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا؟ حالانکہ ملک یا ریاست میں مراٹھا سماج کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی جا رہی ہے، اس کے خلاف کوئی نفرت نہیں پھیلائی جا رہی ہے،اس کے لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں ، کابینہ میں ،ا سمبلی میں اور دیگر سرکاری اداروں میں وہ خاصی تعداد میں بلکہ اکثریت میں ہیں ۔ پھر انہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوتی آئی ہے؟ اور اگر ایسا محسوس ہو رہا ہے تو وجے وڈیٹی وار کیوں انہیں ریزرویشن دینے کی مخالفت کر رہے ہیں ؟ کیا وہ انہیں اپنا بھائی نہیں سمجھتے ہیں ؟ اور جب وہ اپنی ہی قوم کے ایک طبقے کو اپنا بھائی نہیں سمجھتے ہیں تو مسلمانوں کو اپنا بھائی کیسے سمجھیں گے؟
مراٹھا سماج کا ریزرویشن مانگنا اور او بی سی سماج کا اس ریزرویشن کی مخالفت کرنا ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو مسلمانوں کو ۷۵؍ سال سے یہ کہہ کر تھپکیاں دیتے رہے کہ انہیں اپنی قیادت کی کوئی ضرورت نہیں ہے، انہیں اسمبلی میں نمائندگی کی یا کابینہ میں کسی عہدے کی کیا حاجت ہے؟ ان کے ’سیکولر‘ بھائی ان کی قیادت بھی کریں گے، وکالت بھی کریں گے اور ان کی حفاظت بھی کریں گے۔ یہ سب سیکولر ایک ایک کرکے ای ڈی کا بہانہ بنا کر بی جے پی کے ساتھ ہو گئے۔
مسلمانوں نے ان پارٹیوں کو ، ان لیڈروں کو ہر بار بلاشرط ووٹ دیا، ریزر ویشن تو مسلمانوں کے تصور میں بھی نہیں ہے، انہوں نے اپنے اکثریتی علاقوں سے اپنے نمائندوں کو ٹکٹ دینے کی بھی ضد نہیں کی، کبھی کابینہ میں کوئی بڑا قلمدان نہیں مانگا ، اپنے آئینی حقوق تک نہیں مانگے صرف ووٹ دیتے رہے ۔ مسلمانوں کے ووٹ لے کر اپنے اپنے سماج کی بھلائی کا کام کرنے والی ان پارٹیوں کو ہمیشہ اس بات کا اطمینان رہا کہ مسلمانوں کیلئے کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، ان کے ووٹ لینے کیلئے صرف ایک لفظ کافی ہے ’بی جے پی،‘ اس کے اقتدار میں آنے کا خوف تازہ رکھو اور ووٹ حاصل کرتے رہو۔ پہلے بی جے پی کے اقتدار میں آنے کا خوف دلاکر مسلمانوں کو الیکشن کے ٹکٹ اور کابینی عہدوں سے محروم رکھا گیا، پھر وہ وقت آیا کہ بی جے پی کی شر انگیزی کا حوالہ دے کر مسلم مسائل پر آواز اٹھانے سے روکا جانے لگا۔ اب یہ عالم ہے کہ خود سیکولر پارٹیاں کھل کر کبھی ہندوتوا کا نعرہ بلند کر رہی ہیں تو کبھی مسلمانوں پر لعن طعن کر رہی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ نے باگیشور دھام کے بابا دھیریندر کمار شاستری کے ہندوراشٹر کی حمایت کی ہے، تو مہاراشٹر میں وجے وڈیٹی وار اسلام قبول کرنے پر ملک کے ۲؍ ٹکڑے ہو جانے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔
کانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولےبابری مسجد کا تالا کھلوانے پر فخر ظاہر کر چکے ہیں۔ لیکن ان لیڈران کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مراٹھا ریزرویشن تحریک کے بعد سارے ڈرامے پر سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ مسلمانوں کے اونچے عہدوں پر بیٹھے لوگ بھلے ہی اس سے ناواقف ہوںلیکن مسلم نوجوان اب اس بات پر غور کرنے لگے ہیں کہ جو لوگ گزشتہ ۷۰؍ سال سے اقتدار میں ہیں اور اونچے عہدوں پر فائز ہیں انہیں ریزرویشن کی ضرورت ہے یا ان مسلمانوں کو جن کو کبھی مناسب نمائندگی نہیں ملی؟ ریزرویشن کے ذریعے تحفظ انہیں ملنا چاہئے جو حکومت اور سسٹم پر پکڑ رکھتے ہیں یا ان لوگوں کو جن کے گھر بلڈوزر سے گرائے جا رہے ہیں، جن کے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں؟ وجے وڈیٹی وار اور ان کی پارٹی کو بہت جلد نوجوانوں کے ان سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مسلمانوں نے اب تک مراٹھا ریزرویشن کے تعلق سے وہی موقف اختیار کر رکھا ہے جو عام طور پر تمام لیڈران اور تنظیموں کا ہے کہ مراٹھا سماج کو ریزرو یشن دیا جائے، لیکن او بی سی سماج کے ریزرویشن کو کوئی نقصان بھی نہ پہنچنے دیا جائے۔ لیکن اس سے پہلے چھگن بھجبل نے یہ کہہ کر کہ ’’اگر دلت، او بی سی اور مسلم سماج متحد ہو کر سامنے آگئے تو معلوم پڑے گا۔‘‘ مراٹھا سماج کو چیلنج کیا اور اب وجے وڈیٹی وار نے دو مذاہب کا موازنہ کرکے دو فرقوں کو آمنے سامنے کرنے کی کوشش کی۔ یہ کام اگر کوئی بی جے پی لیڈر کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے لیڈر یہ حرکت کیوں کر رہے ہیں؟