کچھ برس قبل ترکی میں جدید ترقیات کی روشنی میں نئے ہجری قمری مہینے کا تعین کرنے کیلئےعا لمی کانفرنس منعقدہوئی تھی۔ علماء سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس پر اپنی رائے دیں گے۔
EPAPER
Updated: April 01, 2025, 2:20 PM IST | Afrooz Alam Sahil | Mumbai
کچھ برس قبل ترکی میں جدید ترقیات کی روشنی میں نئے ہجری قمری مہینے کا تعین کرنے کیلئےعا لمی کانفرنس منعقدہوئی تھی۔ علماء سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس پر اپنی رائے دیں گے۔
رمضان کے آخری لمحات میں چاند محض اپنی فلکیاتی دلکشی تک محدود نہیں رہتا بلکہ منفرد روحانی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ مسلمان بیتابی سے نئے چاند کے نظر آنے کا انتظار کرتے ہیں جو عید کی آمد کی خوشخبری دیتا ہے مگر ان انتظار کے لمحات میں بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کے درمیان ایک پرانی مگر سلگتی ہوئی بحث پھر سے جنم لیتی ہے۔کیا وجہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ایک ہی دن عید الفطر نہیں منا سکتے؟ کیا ایک عالمی ہجری کیلنڈر اس سالانہ اضطراب اور اختلاف کا خاتمہ کر سکتا ہے؟
اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ترکی میں مئی ۲۰۱۶ء میں استنبول شہر میں بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس کا بنیادی مقصد یہ جاننا تھا کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق فلکیات کے شعبے میں ہونے والی جدید ترقیات کی روشنی میں نئے ہجری قمری مہینے کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس خاص مقصد کیلئے ترکی، قطر، اردن، سعودی عرب، ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، مراکش، امریکہ اور یورپ کے پچاس ممالک کے اسلامی اسکالرس نے ۳؍ دن تک اس پر غور و خوض کیا تھا ۔
یہ کانگریس بین الاقوامی ہجری کیلنڈر یونین کانگریس کے نام سے جانی گئی۔ دنیا بھر میں ہجری کیلنڈر سے متعلق پائے جانے والے اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئےاس کانگریس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام مسلمان ایک متفقہ کیلنڈر پر اتفاق کریں تاکہ روزوں کی شروعات کے ساتھ ساتھ عید الفطر اور عید الاضحی ایک ہی دن منائی جا سکے۔ اس تعلق سے ترکی کی وزارت برائے مذہبی امور سے رابطہ کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ اس میں ہندوستان سے بھی ۳؍ علماء نے شرکت کی تھی ۔ ترکی کی ماہر فلکیات ہمیرا نور اشلیک کے مطابق اس کانفرنس میں میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر محمد امین عثمانی، ہجری کمیٹی آف انڈیا کے ارشاد نور محمد سعید اور پی ای ٹی پالی ٹیکنیک کالج اورپی ای ٹی ٹیچر ایجوکیشن کالج کے چیئرمین عبداللطیف ایس عثمان موجود تھے۔
ہجری کمیٹی آف انڈیا کے ارشاد نور محمد سعید نے اس بارے میںکہا کہ ہم آج کے سائنسی دور میں جی رہے ہیں، جب چاند کی ہر حرکت کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ ایسے میں عید ا لفطر دنیا بھر میں بہت آسانی سے ایک ساتھ منائی جا سکتی ہے لیکن ہمارے ملک کے علما اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ یہی صورتحال ہمارے پڑوسی ممالک کی بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم (ہجری کمیٹی آف انڈیا) گزشتہ ۴۵؍سال سے عالمی ہجری کیلنڈر پر تحقیق کررہے ہیں اور قرآنِ مجید کی تعلیمات، مستند احادیث اور فلکیاتی ڈیٹا کی مدد سے ہم نے ایک ایسا کیلنڈر مرتب کیا ہے، جو چاند کی گردش سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی اسکالر اور سافٹ ویئر انجینئر شیخ عبد اللطیف عثمان عمری نے ۳۱؍ سو سال کا ہجری کیلنڈر اور کنورٹر تیار کیا ہے۔ جب ان سے استنبول کانفرنس کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ کانگریس انتہائی منظم اندازمیں منعقد ہوئی تھی اور اس میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پوری دنیا میں ایک متفقہ ہجری کیلنڈر نافذ کیا جانا چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے: عید دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے
لیکن چاند کے تعلق سے تنازع جلد ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ ہندوستان اور اس کے پڑوسی ممالک میںاس کانفرنس کے نو سال گزرنے کے باوجود یہ بحث اب بھی جاری ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں رمضان کا آغاز عام طور پر سعودی عرب میں چاند نظر آنے کے ایک دن بعد ہوتا ہے اور اکثر عید کا تہوار بھی ایک دن بعد منایا جاتا ہے۔اس سال بھی، جنوبی ایشیا کے کچھ شہروں میں، کیرالا اور جموں کشمیر میں سعودی عرب کے ساتھ رمضان کا آغاز کیا گیا۔ وہاں کے لوگ ایسا ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں ۔ اس سے متعلق میری کیرالا کے کئی دوستوں سے بات چیت ہوئی تو ان کا جواب تھا کہ وہ چاند نظر نہ آنے یا نہ آنے کی صورت میں خلیجی ممالک کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا ضروری بھی ہے تاکہ مسلمانوں میں اتحاد قائم رہے اور عرب ممالک کی اہمیت برقرار رہے۔اس سلسلے میں ہمارے ایک اور دوست کا کہنا تھا کہ عید درحقیقت عالمی اسلامی بھائی چارے اور اتحاد کی علامت ہے مگر آج کے سائنسی دور میںجہاں انسان ستاروں کو مسخر کر رہا ہے، سورج، چاند اور پورے نظامِ شمسی کے بارے میں وسیع معلومات رکھتا ہے، وہاں محض `چاند دیکھنے پر تنازع کھڑا کرنا خود کی ہنسی اڑانے کے مترادف ہے۔
اس معاملے میں برصغیر کے علماء کا رویہ غور طلب ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمارے ملک کی ریاست کیرالا یا کشمیر میں لوگوں نے چاند دیکھ لیا تو کیا باقی ہندوستان کے لوگ ان کی گواہی پر یقین نہیں کر سکتے؟ اور پھر یہ کیسا نظام ہے کہ عرب یا دیگر ممالک میں چاند پہلے نظر آتا ہے جبکہ ہندوستان میں چاند نظر آنے میں تاخیر کیوں ہوتی ہے؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عرب اور ہندوستان کے وقت میں صرف ۳؍گھنٹے کا فرق ہے تو چاند ہندوستان کے بجائے امریکہ، افریقہ یا کسی اور خطے میں کیوں چلا جاتا ہے؟ برطانیہ میں قائم ’ای تلاوت اکیڈمی ‘ سے منسلک عاصم حسین کے مطابق عیدالفطر کے چاند کا مسئلہ صرف ہندوستان کا نہیں ہے بلکہ یورپی ممالک کا بھی ہےکیونکہ یہاں رہنے والے مسلمانوں میں زیادہ تر کا تعلق انڈیا یا پاکستان سے ہے۔ یہ لوگ اپنے ملک کے حساب سے عید کا دن مقرر کر لیتے ہیں اس چکر میں یہاں عید ایک دن کے بجائے دو تاریخوں میں منائی جاتی ہے۔ حالانکہ گزشتہ کچھ برسوں سے عید اب تمام مسلم ملکوں کے ساتھ ہی منائی جا رہی ہے۔
اسی طرح جرمنی میں رہنے والے ایک ہندوستانی نوجوان محمد شاہنواز کا کہنا ہے کہ یہاں عید عرب ممالک کے ساتھ ہی منائی جاتی ہے ۔ کئی بار موسم صحیح نہ ہونے یا مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہیں آتا لیکن جب معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب یا ترکی میں کل عید ہے تو یہاں کے لوگ بھی عید کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی میں ۲۰۱۶ء میں ہونے والی کانفرنس ایسی دوسری کوشش تھی ۔ اس سے قبل نومبر۱۹۷۸ء میں ترکی میں ہی نئے قمری سال کے تعین کے حوالے سے کانفرنس ہو چکی ہے جبکہ کچھ سال قبل کوالالمپور (ملائیشیا) کانفرنس اور کویت کے اوقاف وزراء کی کانفرنس بھی اسی موضوع پر منعقد ہو چکی ہے۔