Inquilab Logo Happiest Places to Work

عدالتوں پر بوجھ کیوں بڑھتا ہے؟

Updated: April 10, 2025, 5:29 PM IST | Mumbai

عدالتوں میں عرضداشتوں کے داخل کئے جانے کی شرح کتنی بڑھ گئی ہے اور عدالتوں کو کتنا وقت اور توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے اس کے باوجود زیر التواء مقدمات کی تعداد کم نہیں ہوتی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

جمہوریت میں عدلیہ، آئین کے شارح اور محافظ کا بہت اہم کردار ادا کرتا ہے تاکہ انصاف، مساوات اور فرد کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ عدلیہ، قانون کی تشریح کرتا ہے، تنازعات کا تصفیہ کرتا ہے اور حکومت نیز سرکاری عملے کے اقدامات کو انصاف کے نقطۂ نظر سے جانچتا پرکھتا ہے تاکہ حقوق کی پامالی نہ ہو اور ملک میں جبر، ناانصافی اور استحصال کا سہارا لینے والی طاقتوں کو روکا جائے اور نہ رُکنے کی صورت میں سزا دی جائے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا: ’’عدالتوں کے اوپر ایک عدالت ہوتی ہے، وہ ہے ضمیر کی عدالت‘‘ مگر سماج میں ضمیر کے نام پر بے ضمیری اس قدر عام ہوچکی ہے کہ بے ضمیری کو بے ضمیری کہنے کا چلن بھی ختم ہوگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی غیر تحریر شدہ قانون رائج ہے جس کے تحت ضمیر کی بات کرنا اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا جرم قرار دیا گیا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟
بے ضمیری انسان کو بہت سے غلط کاموں کی طرف راغب کرتی ہے، اس کے سبب جبر، استحصال، ناانصافی، دھوکہ دہی، قتل و غارتگری اور لوٹ کھسوٹ کے واقعات بڑھتے ہیں اور سماج میں اضطراب اور خلفشار پیدا ہوتا ہے جس کا براہ راست اثر عدالتوں پر پڑتا ہے جہاں مقدمات کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ عدالتوں میں عرضداشتوں کے داخل کئے جانے کی شرح کتنی بڑھ گئی ہے اور عدالتوں کو کتنا وقت اور توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے اس کے باوجود زیر التواء مقدمات کی تعداد کم نہیں ہوتی۔ دسمبر ۲۴ء کے اواخر تک صرف سپریم کورٹ میں ۸۲؍ ہزار سے زائد مقدمات التواء میں تھے۔ اگر ملک کے شہری قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے خود کو بھی ذمہ دار مانیں، سرکاری ادارے قانون کے نفاذ کو شفاف بنائیں اور اپنی سطح پر انصاف کی راہیں ہموار کریں تو بہت سے معاملات عدالتوں تک نہیں پہنچیں گے اور مقدمات کی تعداد میں اس قدر اضافہ نہیں ہوگا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ حکومتیں خود بھی عدالتی احکام کو نہ مان کر نہ جانے کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عدالتیں اُنہیں بار بار مورد الزام ٹھہراتی ہیں، ڈانٹتی ڈپٹتی ہیں، ناراض ہوتی ہیں، اُن پر جرمانہ عائد کرتی ہیں مگر حکومتوں کا رویہ تبدیل نہیں ہوتا۔ بطور مثال بلڈوزر کے ذریعہ ’’انصاف‘‘ کے معاملہ ہی کو سامنے رکھ لیجئے، کئی بار عدالتوں نے اسے حق و انصاف کے منافی قرار دیا مگر بلڈوزر ہے کہ آج بھی چل رہا ہے اور اسے فخریہ چلایا جارہا ہے۔ ایسا کرنا قانون و انصاف کے باب میں عدالتوں کی اہمیت کو کم کرنا ہے جو حکومتوں کو زیب نہیں دیتا۔ 
اس کی تازہ مثال تمل ناڈو سے ملتی ہے۔ اگر گورنر نے بلوں کو منظوری دینے میں تامل نہ کیا ہوتا اور ۱۰؍ بل رُک نہ گئے ہوتے تو ایم کے اسٹالن کی حکومت سپریم کورٹ نہ پہنچتی جس نے منگل کو صاف اور دوٹوک الفاظ میں گورنر موصوف کو ہدفِ تنقید بنایا اور کہا کہ بلوں کو روکنا غیر آئینی ہے۔ سپریم کورٹ کو ناراض ہونے اور کیا آئینی ہے اور کیا غیر آئینی یہ سمجھانے کی ضرورت نہ پیش آتی اگر گورنر آر این روی نے اپنی آئینی ذمہ داری کو محسوس کیا ہوتا اور اسمبلی کے منظور کردہ بلوں پر اپنے دستخط ثبت کردیئے ہوتے۔ اس سے قبل بھی گورنروں کے طرز عمل کے خلاف عدالت کو تبصرہ کرنا پڑا ہے۔ یہ محض اسلئے ہورہا ہے کہ آئینی عہدوں پر فائز افراد اپنے فرائض میں کوتاہی برت رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بھی تو عدالتوں کا بوجھ بڑھتا ہے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK