یہ حکومت عوام کے مطمئن طبقے کو تواپنا ہم نوا بناسکتی ہے اور اس کا ہدف بھی اکثر یہی طبقہ ہوتا ہے لیکن غیر مطمئن طبقےکی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہےجس میں کسان بھی شامل ہیں۔
EPAPER
Updated: February 25, 2024, 6:06 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
یہ حکومت عوام کے مطمئن طبقے کو تواپنا ہم نوا بناسکتی ہے اور اس کا ہدف بھی اکثر یہی طبقہ ہوتا ہے لیکن غیر مطمئن طبقےکی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہےجس میں کسان بھی شامل ہیں۔
گزشتہ دنوں جب پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے اپنے مطالبات کیلئے حکومت کے خلاف ایک مرتبہ پھر احتجاج کرتے ہوئے ’دہلی چلو‘کا نعرہ دیا تواس وقت ان کا مزاج وتیور وہ نہیں تھا جو۲۰۲۱ء کے متنازع زرعی قوانین کے خلاف مارچ کے دوران تھا۔ اس وقت یعنی ۲۰۲۱ ء میں حکومت کی نظر میں کسانوں کی حیثیت صرف مظاہرین کی تھی لیکن اس بارحکومت ان سے خوفزدہ ہے۔ گھبرائی ہوئی ہے اور چاہتی ہےکہ وہ دہلی نہ پہنچیں،اسی لئے دہلی کی سرحدوںپر حکومت نے دور دور تک کیلیں لگا دیں، خاردارتاریں بچھا دیں، سیمنٹ کے بڑے بڑے بلاک کھڑے کر دئیے۔ اس پر تنقیدیں بھی ہوئیں کہ یہ دہلی نہیں بلکہ ہندوستان اور چین کی سرحد کا منظر ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہند چین سرحد پربھی اکثر ایسی سیکوریٹی نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھئے: الیکشن کمیشن اب پارٹی کی بنیاد نہیں، باغیوں کی تعداد وطاقت دیکھتا ہے
۲۰۲۰-۲۱ء میں کسان تین زرعی قوانین کے خلاف متحد ہوئے تھے جن کے تعلق سےکہا جارہا تھا کہ یہ قوانین کسانوں کو کارپوریٹ اداروں کے رحم وکرم پر چھوڑنے والے ہیں۔اس وقت ۱۳ ؍ مہینوں کے احتجاج کے بعد وزیر اعظم مودی نے یہ قوانین منسوخ کرنے کااعلان کیا تھا۔کسانوں کے شدید احتجاج کو دیکھتے ہوئے حکومت نے قوانین توواپس لےلئے تھے لیکن دیگر مطالبات یقین دہانی کے باوجود پورے نہیں کئے گئے جس کے خلاف کسان ایک بار پھر سینہ سپر ہیں لیکن حکومت انہیں اَن داتا نہیں بلکہ’ دشمن فوج ‘سمجھ رہی ہے۔
کسانوں کے مطالبات کیا ہیں؟ بس یہی کہ وہ اپنی فصلوں کی مناسب قیمت چاہتے ہیں۔ وہ چاہتےہیں کہ حکومت کم از کم سہارا قیمت پر ایک قانون بنا دےکہ اس کے مطابق ہی کسانوں کوان کی فصلوں کے دام ملیں گے، کسی بھی صورتحال میں ایم ایس پی سے کم قیمت پر فصلیں نہیں خریدی جا سکتیں اور قیمتوں کے تعین میں کارپوریٹ ادارے مداخلت نہیں کر سکتے۔ گزشتہ احتجاج کے دوران لکھیم پوری کھیری میں کسانوں پرجو حملہ ہوا تھا،اس میں مارے گئے کسانوں کے اہل خانہ کیلئے وہ معاوضہ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کے مطالبات میں یہ بھی شامل ہےکہ اس وقت جن کسانوںکے خلاف معاملات درج کئےگئے تھے انہیں واپس لیا جائےاورسوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کو نافذ کیا جائے جس کی رپورٹ۴؍ اکتوبر ۲۰۰۶ءکو پیش کی گئی تھی۔(حکومتیں فنڈ میں کمی کی وجہ سے کمیشن کی ان سفارشات کو اب تک عملی جامہ نہیں پہنا سکیں)۔ یہ سارے بنیادی اور معقول مطالبات ہیں،ان میں کہیں کسی تنازع کا شائبہ تک نہیں ہے، پھر کیاوجہ ہےکہ یہ عام سے مطالبات بھی پورے نہیں کئے جا رہے ہیں اور کسانوں کوباربار احتجاج پرمجبور ہوناپڑرہا ہے؟ کیا وجہ ہےکہ اب تک ایم ایس پی پر کوئی کمی کمیٹی ہی نہیں تشکیل دی گئی ہے۔
حکومت کے خلاف مارچ کرنے والے کسان ہریانہ اورپنجاب کے قریب شمبھوبارڈر پر رُکے ہوئےہیں۔ فی الحال دہلی کوچ کا فیصلہ ایک بار پھر ملتوی کیاگیا ہے۔ حکومت گھبرائی ہوئی ہے۔ کسانوں کےساتھ ۴؍ مراحل میں گفتگو ہوچکی ہےاورسبھی مراحل بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔ سنگھو،غازی پور اورتکری بارڈر پرسیکوریٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔ مرکز کی طرف سے وزیرزراعت ارجن منڈا،وزیر برائے کامرس اورانڈسٹری پیوش گوئل اوروزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے کسانوں کے نمائندہ وفد سرون سنگھ پنڈھیر(کسان مزدور مورچہ کے کو آرڈی نیٹر)، جگجیت سنگھ ڈلیوال (صدر،بھارتیہ کسان یونین ایکتا، سدھو پور) سے مذاکرات کرچکے ہیں۔ کسان اپنے موقف سے قدم پیچھے نہیں ہٹا رہے ہیں اورکہا ہےکہ اب گیند حکومت کے پالے میں ہے۔ ایک طرف بات چیت کا دور مسلسل ناکام ہورہا ہے اوردوسری طرف شمبھوبارڈر پر صورتحال یہ ہےکہ وہاں پولیس اورفور س نے کسانوں پرربر کی گولیوں اور آنسوگیس کے ساتھ ساتھ ساتھ پیلٹ گولیاں بھی چلائی ہیں۔ اگر حکومت کسانوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو احتجاج کے مقام پران کے ساتھ دشمنوں اور دہشت گردوں جیسا سلوک کیوں کیاجارہا ہے؟ یہ حکومت کا منافقانہ رویہ ہی ہےکہ ایک طرف کسانوں کےوفد سے بات چیت کررہی ہے اور دوسری طرف ان پر گولیاں چلا رہی ہے اور دونوں ہی پہلوؤں سے وہ ناکام بھی ہورہی ہے۔ یہاں کسانوں نے گولیاں کھانے کے بعد بھی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ چاہیں توبات چیت سے بھی انکار کردیں، وہ چاہیں توکہہ دیں کہ انہیں حکومت کے کسی وفد سے نہیں ملنا ہے لیکن اب تک انہوں نے بات چیت کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ پہلے وہ احتجاج کرنے والے کسانوں کو تحفظ فراہم کرتی ، دہلی کی سرحدوں سے سیکوریٹی کے نام پر کھڑے کئے گئے جوابی کارروائی کا دستہ ہٹاتی اور کسانوں کوپُر امن احتجاج کیلئے پورا کا موقع دیتی ! کسان تشدد کیلئے جمع نہیں ہوئے تھے لیکن انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ حالانکہ تشدد اورڈرون حملوں کے جواب میں انہوں نے پتنگیں اڑانے کا طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے پتنگوں سے ہی ڈرون کو روکنے کی بھی کوشش کی اوریہ پیغام بھی دیا کہ وہ اپنی روایتوں اورزمین سےکتنے جڑے ہوئے ہیں۔ جن کے پاس ہتھیار نہیں ہیں، ان کے پاس مانجھا ہے ،جن کے پاس ڈرون نہیں ہے، ان کے پاس پتنگ ہے۔جن کے پاس آنسوگیس نہیں ہے ان کی آنکھوںکا پانی انہیں متحد کرنے کیلئے کافی ہےاور یہی آنسو کاپانی انہیں کھیتوں سےسڑکوں پر لے آیا ہے۔
کئی کسان آنسوگیس کے گولوں سے شدید زخمی ہوئے ہیںجن میں خود جگجیت سنگھ ڈلیوال بھی شامل ہیں جنہیں پٹیالہ کے راجندر گورنمنٹ اسپتال میں داخل کیاگیا ہے۔ انہوں نے دودن قبل پنڈھیر کے ساتھ مل کر اسپتال کے باہر ہی میڈیا سے گفتگو بھی کی تھی۔ کسان صرف اس لئے ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے مطالبات کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ حکومت خوف محسوس کررہی ہے کیونکہ اس کے پاس کسانوں کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ نہ ان کی فصلوں کی صحیح قیمت ہے،نہ معاوضہ، نہ زمین، نہ ٹیکنالوجی، نہ دیگرزرعی سہولتیں۔ جو ڈرون ان پر حملے کیلئے استعمال کئے گئے ، اسی ڈرون ٹیکنالوجی کا ایک معمولی حصہ اگرزراعت وآبپاشی کے شعبے کی جدید کاری کیلئے استعمال کیا جائے تو اس سے کیا بڑی تبدیلی ممکن نہیں؟ یہ حکومت عوام کی سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ یہ حکومت عوام کے مطمئن طبقے کو تواپنا ہم نوا بناسکتی ہے اور اس کا ہدف بھی اکثر یہی طبقہ ہوتا ہے لیکن غیر مطمئن طبقے کی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہےجس میں کسان بھی شامل ہیں۔
کسان اپنی فصلوں کی مناسب قیمت چاہتے ہیں۔ وہ چاہتےہیں کہ حکومت کم از کم سہارا قیمت پرایک قانون بنا دے کہ اس کے مطابق ہی کسانوں کوان کی فصلوں کے دام ملیں۔
کسی بھی صورتحال میں ایم ایس پی سے کم قیمت پر فصلیں نہیں خریدی جا سکتیں اور قیمتوں کے تعین میں کارپوریٹ ادارے مداخلت نہیں کر سکتے۔
گزشتہ احتجاج کے دوران لکھیم پوری کھیری میں کسانوں پرجو حملہ ہوا تھا،اس میں مارے گئے کسانوں کے اہل خانہ کو معاوضہ کا بھی مطالبہ ہے۔
ان کے مطالبات میں یہ بھی شامل ہے کہ اُس وقت جن کسانوں کے خلاف معاملات درج کئےگئے تھے انہیں واپس لیا جائےاورسوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کونافذ کیا جائے جس کی رپورٹ۴؍ اکتوبر ۲۰۰۶ءکو پیش کی گئی تھی۔