دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی حکومت خود پارلیمنٹ میں کئی بار کہہ چکی ہے کہ سرکاری ڈکشنری میں `اربن نکسل نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: November 17, 2024, 3:07 PM IST | Yogendra Yadav | Mumbai
دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی حکومت خود پارلیمنٹ میں کئی بار کہہ چکی ہے کہ سرکاری ڈکشنری میں `اربن نکسل نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
سوال تھا: ’یہ اربن نکسل کیا ہے؟‘ میرا جواب تھا: ’یہ ایک بھوت ہے، یعنی یہ کچھ نہیں ہے اور بہت کچھ ہے۔ ‘ اگر آپ آنکھیں کھول کر دیکھیں گے تو آپ کو کچھ نہیں ملے گا، لیکن اگر آپ کے دماغ میں خوف ہے اور آپ کی آنکھیں بند ہوں تو یہ سائے کی طرح منڈلائے گا، آپ مجھے پہیلی مت بجھائیے، ٹھیک ٹھیک بتائیے۔ یہ نکسل ازم کیا ہے؟ ? اور اربن نکسل کیا ہے؟’ سوال بھارت جوڑومہم کے ایک نوجوان دوست کا تھا۔ گزشتہ ہفتے مہاراشٹر کے بی جے پی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے انتخابات کے دوران کہا تھا کہ بھارت جوڑو مہم میں شامل لوگوں کا نظریہ اور کام کرنے کا انداز’ اربن نکسل ازم‘ کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اربن نکسل ازم کا مطلب ہے لوگوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنا، ان کے ذہنوں میں شک پیدا کرنا، ملک کے اداروں اور نظام کے بارے میں شکوک پیدا کرنا اور ملک کی سالمیت کو دھوکہ دینا ہے۔
گزشتہ مہینے وزیر اعظم مودی نے کانگریس پر اربن نکسلیوں کے ذریعہ چلائے جانے کا الزام لگایا تھا، اسلئے نوجوان دوست کا جواب دینا ضروری تھا:میں سمجھتا ہوں کہ نکسل اور نکسل ازم کیا ہے؟ لیکن اربن نکسل کو سمجھنا قدرے مشکل ہے لیکن میں کوشش کرتا ہوں۔ نکسل ازم ۶۰ءاور ۷۰ء کی دہائی میں اٹھنے والی ہندوستان کی بائیں بازو کی تحریک کا ایک ذیلی حصہ تھا، جو اپنی اصل شکل میں تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ آزادی کے بعد’سی پی آئی‘ کمیونسٹ سیاست کا اہم نمائندہ تھی لیکن چین کے ساتھ جنگ کے بعد یہ پارٹی تقسیم ہو گئی۔ اس کا اعتدال پسند اور روس نوازگروپ بنیادی پارٹی کے ساتھ رہا جبکہ اس کا انتہا پسند اور چین نواز گروپ ۱۹۶۴ء میں الگ ہو گیا اور سی پی آئی (ایم) بنائی۔ نکسل تحریک اسی پر مبنی ہے۔ یہ اس سے بھی زیادہ بنیاد پرست ذیلی حصے کا نام ہے جو چند سال بعد ٹوٹ گیا۔ اس کا نام نکسلزم پڑا کیونکہ اس کی ابتدا شمالی بنگال کے ایک گاؤں نکسل باڑی سے ہوئی تھی۔ بائیں بازو کا یہ گروہ کمیونسٹ لیڈر ماؤ نواز کے نظریے سے متاثر تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان میں انقلاب کی اصل حکمت عملی گاؤں کے غریب زرعی مزدوروں کو زمینداروں کے خلاف منظم کرنا ہوگی۔ نکسلیوں نے شکایت کی کہ قائم شدہ کمیونسٹ پارٹیوں نے نظام سے سمجھوتہ کیا ہے اور نظام کو بدلنے کیلئے مسلح انقلاب کی ضرورت ہے۔
اسی نظریے کے زیر اثر ۷۰ءکی دہائی میں ملک کے مختلف حصوں میں نکسل تنظیمیں وجود میں آئیں اور انہوں نے دیہی علاقوں میں پرتشدد شورش شروع کرنے کی ناکام کوشش کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ تر نکسل تنظیموں نے تشدد کا راستہ چھوڑ دیا اور جمہوری انتخابات یا جمہوری عوامی تحریکوں کے مین اسٹریم میں شامل ہو گئیں۔ آج سی پی آئی (ایم ایل) نکسل تحریک کا پارلیمانی خاتمہ ہے۔ اس کے ۲؍ ایم پی ہیں۔ نکسل تحریک اب اپنے ماضی کی باقیات کے طور پر زندہ ہے۔
’تو یہ شہری نکسل کون ہیں ؟ کیا یہ کوئی نیا گروہ ہے یا ذیلی گروہ ؟’ میرے نوجوان ساتھی کا سوال تھا۔ ’نہیں، اربن نکسل کچھ نہیں ہے۔ ملک میں کوئی بھی تنظیم یا فرد خود کو اربن نکسل نہیں کہتا ہے، ایسا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک گالی ہے، جسے جب چاہیں کسی بھی شخص یا ادارے پر کسی بھی وقت ثبت کی جا سکتی ہے۔ بھارت جوڑو مہم کو ہی لے لیجئے، جس میں کئی گاندھی وادی، سماج وادی، لبرل اور امبیڈ کروادی تنظیمیں وابستہ ہیں، جنہوں نے ہمیشہ پرتشدد سیاست کی مخالفت کی ہے، جن کا نکسلی تحریک سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا، اب یہ گالی ان سے جوڑ دی گئی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مودی حکومت خود پارلیمنٹ میں کئی بار کہہ چکی ہے کہ سرکاری ڈکشنری میں `اربن نکسل نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
ایک طویل مضمون کااقتباس