ء۱۹۹۰ءکی دہائی میں سابقہ سوویت ریاستوں سے دس لاکھ یہودیوں کو لاکر اسرائیل میں بسایا گیا تھا۔ ان کی آمد سے اسرائیل کی آبادی میں خاصا اضافہ ہوا، معیشت کو فروغ ملا اور ملک میں بے پناہ ترقی ہوئی۔
EPAPER
Updated: March 23, 2022, 1:28 PM IST | Pravez Hafeez | Mumbai
ء۱۹۹۰ءکی دہائی میں سابقہ سوویت ریاستوں سے دس لاکھ یہودیوں کو لاکر اسرائیل میں بسایا گیا تھا۔ ان کی آمد سے اسرائیل کی آبادی میں خاصا اضافہ ہوا، معیشت کو فروغ ملا اور ملک میں بے پناہ ترقی ہوئی۔
یوکرین کے خلاف ایک ماہ سے جاری روسی جنگ نے’’ مہذب دنیا‘‘کی مجبوریوں، منافقت اور مفاد پرست کو پوری طرح عیاں کردیا ہے۔ امریکہ اور مغرب نے یوکرین پر روس کی چڑھائی کی شدید مخالفت اور مذمت کی اور ماسکو پر سخت ترین اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں تاہم روس کے خلاف مغرب کی اس زبردست محاذ آرائی میں ایک ملک کی عدم موجودگی بری طرح کھٹک رہی ہے۔اس ملک کا جو امریکہ کا سب سے خاص اسٹریٹیجک پارٹنر ہے اوریورپ کا بھی منظور نظر ہے،نام اسرئیل ہے۔ اس تنازع میں دنیا کی واحد یہودی مملکت کا موقف قدرتی طور پر روس مخالف اور یوکرین نواز ہونا چاہئے تھا۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اس جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔
یوکرین اور اسرائیل کے باہمی اقتصادی رشتے کافی گہرے ہیں اور دونوں کے درمیان زراعت اور تکنالوجی کے شعبوں میں کروڑوں کی سالانہ تجارت ہوتی ہے۔ یہودیوں کا یوکرین کے ساتھ تاریخی اور ثقافتی رشتہ رہا ہے۔ہر سال ہزاروں اسرائیلی ایک یہودی بزرگ کے مزار کی زیارت کے لئے یوکرین جاتے ہیں۔اس وقت دو لاکھ یہودی یوکرین میں بستے ہیں۔ اسرائیل کی پہلی خاتون وزیر اعظم گولڈا مائیر کا تعلق بھی یوکرین سے تھا۔ موجودہ یوکرینی صدر زیلنسکی بھی یہودی النسل ہیں۔ان دیرینہ رشتوں کے باوجود اسرائیل نے یوکرین کی فوجی مدد کرنے سے انکار کردیا۔اسرائیل کے پاس Iron Dome نام کا میزائیل شکن سسٹم ہے جو دشمنوں کے راکٹوں کو فضا میں ہی تباہ کردیتا ہے۔ روسی یلغار سے بچاؤ کی خاطر زیلنسکی اس امریکی۔ اسرائیلی دفاعی ہتھیار کے لئے گڑگڑاتے رہے لیکن بینیٹ نے ان کی درخواست مسترد کردی۔
صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کسی قیمت پر پوتن کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتا ہے۔ بینیٹ نے مغرب کی تنقیدوں سے بچنے کے لئے غیر جانبداری کا ڈھونگ رچایا ہے۔ روس نے یوکرین کی آزادی،خود مختاری اور علاقائی سالمیت پر حملہ کیا ہے۔ اس صورتحال میں جو ملک غیر جانبدار رہنے کا دعویٰ کرتا ہے وہ در اصل بالواسطہ طور پر روس کی حمایت کررہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم جنگ بند کروانے کے لئے روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کا ناٹک بھی کررہے ہیں۔ تاہم امن قائم کرنے کی ان کی کوششوں میں بھی خلوص نیتی اور دیانت داری کا فقدان ہے۔اسرائیل کے رویے سے یوکرین کس قدر ناخوش ہے اس کا اندازہ اتوار کو اسرائیلی پارلیمنٹ میں کی گئی زیلنسکی کی جارحانہ تقریر سے ہوگیا۔ ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ کئے گئے خطاب میں انہوں نے اسرائیل کے غیر جانبدار رہنے کے موقف پر اسے کھری کھری سنائی۔انہوں نے یوکرین کوIron Dome نہ دینے اور یوکرین کی تباہی سے بے نیازی برتنے پر بھی تل ابیب کی سرزنش کی۔یوکرین یا مغرب اسرائیل کو بے وفائی کے لاکھ طعنے دیتا رہے لیکن اسرائیل نے روس کے ساتھ تصادم سے گریز کرکے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔ تین ہزار کلو میٹر دورواقع ایک دوسرے ملک کی حمایت کرنے کے بجائے اسرائیل نے اپنے پڑوسی ملک شام میں اپنی سلامتی کو یقینی بنانا زیادہ ضروری سمجھا۔ شام میں گیارہ برس قبل بشار الاسد کے خلاف بغاوت ہوئی تھی جس نے بعد میں خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی۔بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لئے ایرانی فورسز اور لبنان کی حزب اللہ شروع سے ہی سر گرم عمل تھیں۔ ۲۰۱۵ء میں روس بھی اسد کی حمایت میں میدان میں کود پڑا۔ اسرائیل کو اپنی سرحدوں کے نزدیک ایرانی فوج اور لبنان کی ملیشیا کی موجودگی قابل قبول نہیں تھی۔ ایک طرف اسرائیل بشار الاسد کا تختہ الٹوانے کے لئے شام کے باغی گروہوں کی مالی اور فوجی مد د کررہا تھا اور دوسری جانب روس ان کی سلطنت کے تحفظ کے لئے باغیوں کے ٹھکانے تباہ کررہاتھا۔ تھا۔دونوں متحارب خیموں کی سرپرستی کررہے تھے لیکن اس کے باوجود اسرائیل کا روس کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوا جس کے تحت پوتن نے بنجامن نیتن یاہو کو یہ کھلی چھوٹ دے دی کہ اسرائیلی جنگی طیارے حزب اللہ اور ایرانی فورسز کو نشانہ بناسکتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ روسی فوج پر آنچ نہ آنے پائے۔روس نےشام میں اسرائیل کو ایران پر حملے کرنے کا لائسنس دے کر جواحسان کیا،یو کرین میں روس کی جارحیت پر خاموش رہ کر اسرائیل وہی احسان چکارہا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے ماسکو سے تصادم سے اس لئے بھی گریز کیا کیونکہ اسے یہ ڈر تھا کہ اگر پوتن نے پلٹ کر اسے اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دے دیا تو کیا ہوگا۔ اب تو مغربی اور اسرائیلی لیڈران اور دانشور بھی یہ پوچھنے لگے ہیں کہ ۱۹۸۲ء میں لبنان پر اسرائیل نے جو دھاوا بولا تھا اس میں اور یوکرین پر روسی چڑھائی میں کیا فرق ہے؟پانچ دہائیوں سے مغربی کنارہ پر جو اسرائیلی قبضہ ہے اس میں اور یوکرین پر روسی قبضہ میں کیا فرق ہے؟اسرائیل کے ایک رکن پارلیمنٹ اوفر کاسف نے تو یہاں تک کہ دیا کہ’’ جو فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتے ہیں انہیں یوکرین کی حالت پر گریہ وزاری کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘یوکرین میں پوتن کی فوج (کے مظالم) میں اور گولان کی پہاڑیوں، مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلی فوج(کے مظالم) میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘
ہم ہندوستانیوں کو چند برسوں سے ’’مصائب میں مواقع‘‘ ڈھونڈنے کا گیان دیا جارہاہے۔اسرائیل کے صہیونی حکمرانوں کو بھی کسی نے یہ منتر سکھادیا ہے۔ وہ یوکرین کی موجودہ صورتحال سے ایک بڑے فائدے کی توقع کررہے ہیں۔گزشتہ ایک ماہ میں یوکرین سے نقل مکانی کرکے تیس سے چالیس لاکھ لوگ پولینڈ، ہنگری، اور رومانیہ جیسے پڑوسی ممالک میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔اسرائیل نے موقع سے فائدہ اٹھا کریہودی پناہ گزینوں کو اپنے ’’ ہوم لینڈ‘‘ میں آکر بسنے کی کھلی دعوت دے دی ہے۔ اس طرح اسرائیل کو مزید فلسطینی زمینیں ہڑپنے کا موقع ملے گاجن پر یوکرینی پناہ گزینوں کی آبادکاری کے ذریعہ تل ابیب مغربی کنارہ میں یہودیوں کی آبادی میں اضافہ کرے گا۔
۱۹۹۰ءکی دہائی میں سابقہ سوویت ریاستوں سے دس لاکھ یہودیوں کو لاکر اسرائیل میں بسایا گیا تھا۔ ان کی آمد سے اسرائیل کی آبادی میں خاصا اضافہ ہوا، معیشت کو فروغ ملا اور ملک میں بے پناہ ترقی ہوئی۔پچھلے ہفتے بینیٹ کابینہ نے یوکرینی پناہ گزینوں کے لئے ہزاروں گھروں کی ہنگامی پیمانے پر تعمیر کی تجویز کو منظوری دے دی۔ حکومت کو توقع ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زیادہ نئے یہودیوں کو اسرائیل میں بسایا جاسکے گا جو ملک کی ترقی میں بڑا کردار ادا کریں گے۔ کس نے کہا تھا کہ جنگ صرف تباہی لاتی ہے؟