Updated: November 13, 2024, 10:43 PM IST
| Mumbai
ہند اور کنیڈا کے تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور سفارتی نظام اثر انداز ہوا ہے اس تلخی کو دور کرنےکیلئے کوئی ٹھوس پہل کرنی ہوگی کیونکہ کنیڈا میں بڑی تعداد میں ہندوستانی رہتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ بھی حالیہ برسوں میں کنیڈا کا رخ کرتے رہے ہیں۔
ہند اور کنیڈا کے تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور سفارتی نظام اثر انداز ہوا ہے
ہندوستان کی آزادی کے بعد سے پوری دنیا میں ہندوستان کی خارجہ پالیسی ایک مثالی حیثیت کی حامل رہی ہے اوربالخصوص اپنی غیر جانب دارانہ پالیسی کی وجہ سے عالمی برادری کو ہندوستان ہمیشہ اپنا گرویدہ بنائے رہا ہے یہی وجہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد بھی جتنی عالمی تنظیمیں بنی ہیں اس میں آزادی کے فوراً بعد ہندوستان کی شمولیت ہوئی اور دنیا کے تمام بین الاقوامی سیاسی پلیٹ فارم پر ہندوستان نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ مگر حالیہ برسوں میں بین الاقوامی سطح پر ہماری خارجہ پالیسی قدرے ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ اگرچہ ہمارے وزیر خارجہ اور وزیر اعظم مودی جی کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت میں پوری دنیا میں ہندوستان کی ساکھ بڑھی ہے۔مگر تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے تمام پڑوسی ممالک سے ہمارے رشتے خراب ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان سے ہمارے تعلقات خراب ہوئے ۔ مگر بنگلہ دیش ،نیپال ، مالدیپ اور سری لنکا کے ساتھ بھوٹان بھی ہمارے اثر سے دور ہو گیا ہے جو ہمارے لئے فکر مندی کی بات ہے۔
سب سے خطرناک صورتحال اب پیدا ہو گئی ہے کہ کنیڈانے ہمارے وزیر داخلہ امیت شاہ پر ایک سنگین الزام عائد کیا ہے کہ ہرجیت سنگھ نجرکے قتل میں مبینہ طورپر ان کا ہاتھ ہے اور سب سے افسوس ناک اور تشویشناک حالت پیدا ہو گئی ہے کہ امریکہ نے کنیڈاکے موقف پر صرف یہ کہہ کر اپنا دامن صاف کر لیا ہے کہ اس کی نظر میں یہ مسئلہ فکرمندی کا باعث ہے۔
وا ضح رہےکہ گزشتہ ایک سال سے کنیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹرو ڈو کے قتل کے واردات میں ہندوستان کو کٹہرے میں کھڑا کرتا رہا ہے اور اب جب لندن پوسٹ اخبار نے وزیر داخلہ امیت شاہ کو اس معاملے میں ملوث کر دیا ہے تو ہندوستان کے لئے ایک بڑا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ وہ کس طرح امیت شاہ کو بچائے اور اپنی خارجہ پالیسی کو مستحکم کرے۔کیونکہ آزادی کے بعد سے اب تک کسی بھی وزیر داخلہ پر اتنا سنگین الزام عائد نہیں ہوا تھا اور عالمی سطح پر ہمارے ملک کی ایسی بدنامی نہیں ہوئی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کنیڈا میں سکھ برادری کی بڑی تعداد ہے اور وہاں کی سیاست کو اثر انداز کرتی ہے مگر اس وقت امریکہ نے جس طرح کی سیاست کی ہے وہ ہمارے لئے فکر مندی کی بات ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم نے کنیڈا سے سفارتی رشتے منقطع کر کے ایک پیغام دیا ہے کہ ہندوستان اس مسئلہ پر سنجیدہ ہے اور کنیڈا کے مبینہ الزام کو خارج کرتا ہے۔لیکن جس طرح کنیڈا امیت شاہ کو اس قتل کیس میں گھسیٹ رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اپنی بات دہرا رہا ہے اس سے تو اب شک پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں عالمی سطح پر ہندوستان کے خلاف کوئی سازش تو نہیں ہو رہی ہے۔ایک بڑا سوال تو یہ بھی ہے کہ کنیڈا کو ہمارے ملک کے محکمہ خارجہ کے اندر کی پل پل کی خبر کون دے رہا ہے۔دوسرا سوال یہ ہے کہ مودی جی امریکہ کو اپنا سب سے بڑا دوست کہتے ہیں تو وہ کنیڈا کے ساتھ کیوں کھڑا ہے۔اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے اور امیت شاہ کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ان کی پالیسی کی وجہ سے آج ملک کی خاجہ پالیسی پر سوالیہ نشان لگا ہے اور اس کا اثر ملک کی سیاست پر بھی پڑے گا ۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ برکس کے سربراہ اجلاس میں روس میں وزیر اعظم مودی اور چینی سربراہ شی جن پنگ کی ملاقات ہوئی ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آرہے ہیں ۔ اس سے پہلے مالدیپ کےصدر معیزو کے دورۂ ہند سے یہ اشارہ ملا کہ مالدیپ سے بھی تعلقات بہتر ہوں گے مگر دنیا کے بدلتے حالات کے مدنظر ہر قدم احتیاط سے اٹھانا ہوگا ۔ اب جب کہ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ دوبارہ صدارتی انتخاب جیت گئے ہیں اور دو ماہ بعد وہ پھر امریکہ کے صدر کے طورپر حلف لیں گے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ٹرمپ ان کے بہت اچھے دوست ہیں اور ظاہر ہے کہ ماضی میں ٹرمپ کے دورِ اقتدار میں وزیر اعظم مودی کا امریکہ میں جس طرح والہانہ استقبال ہوا تھا اور اس کے بعد ہند امریکہ تعلقات کے سازگار ہونے کی دہائی دی جا رہی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں صدر کے عہدے پر کوئی بھی ہو وہ امریکہ کے مفاد کو بالا تر رکھتے ہیں اور خود کو دنیا میں سپر پاور کے طورپر جگہ بنائے رکھنے کیلئے ہر وہ کوشش کرتا ہے جو اس کے حق میں ہو ۔مگر ہم خوش فہمی کے شکار ہو جاتے ہیں کہ امریکہ ہمارے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے اور اس کا فائدہ ملے گا۔جب کہ سچائی یہ ہے کہ اس وقت امریکہ اور روس دونوں سے کہیں زیادہ چین اپنے سیاسی اثرات کا دائرہ بڑھانا چاہ رہا ہے اور یہ بات امریکہ کو بھی اچھی طرح معلوم ہے اور شاید اس لئے امریکہ بھی چین کے ساتھ اپنے تعلقات کی راہوں کو ہموار کر رہاہے اور اپنا ہر ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھا رہاہے کیونکہ روس کے رشتے چین سے گہرے ہوئے ہیں۔ ان دنوں روس ۔یوکرین جنگ کو لے کر بھی دنیا الگ الگ خیموں میں تقسیم ہے۔ ایسے وقت میں ہندوستان کو عالمی سیاست کے تناظر میں اپنی خارجہ پالیسی طے کرنی ہوگی اور پل پل بدلتی عالمی سیاست پر گہری نگاہ رکھنی ہوگی ۔ بالخصوص چین کے ساتھ تعلقات بہتر ہو یہ پہل قابلِ خیر مقدم ضرور ہے لیکن چین پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرنے کا مطلب ہوگا کہ ہم روس اور امریکہ دونوں کے دبائو میں ہیں اس لئے زمینی حقیقت سے نہ صرف واقف ہونے کی ضرورت ہے بلکہ عالمی سیاست کے تناظر میں لائحہ عمل بھی تیار کرنا ہے ۔ بالخصوص ہند اور کنیڈا کے تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور سفارتی نظام اثر انداز ہوا ہے اس تلخی کو دور کرنےکیلئے کوئی ٹھوس پہل کرنی ہوگی کیونکہ کنیڈا میں بڑی تعداد میں ہندوستانی رہتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ بھی حالیہ برسوں میں کنیڈا کا رخ کرتے رہے ہیں اس لئے اگر یہ تلخی بر قرار رہی تو ہندوستان سے جانے والے طلبہ کیلئے بھی پریشانی بڑھے گی ۔میرے خیال میں پوری دنیا میں اس وقت جس طرح خارجہ پالیسی میں تبدیلی ہو رہی ہے اس کے مطابق ہندوستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کو مستحکم کرنے کیلئے نئے ویژن کے ساتھ یقیں محکم کی بھی ضرورت ہے ۔n