گزشتہ کئی مہینوں سے نتیش کمار کی پرگتی یاترا ہو رہی ہے اور گزشتہ جمعہ کو اس کا پہلا مرحلہ ختم ہواہے۔اس بار نتیش کمار نے اپنی اس ریاست گیر یاترا میں صرف اور صرف ’’تقابلی سیاست‘‘ کو محور و مرکز بنائے رکھا۔
EPAPER
Updated: February 27, 2025, 3:55 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai
گزشتہ کئی مہینوں سے نتیش کمار کی پرگتی یاترا ہو رہی ہے اور گزشتہ جمعہ کو اس کا پہلا مرحلہ ختم ہواہے۔اس بار نتیش کمار نے اپنی اس ریاست گیر یاترا میں صرف اور صرف ’’تقابلی سیاست‘‘ کو محور و مرکز بنائے رکھا۔
سالِ رواں میں ریاست بہار میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے اور یہ انتخاب ایک طرف قومی جمہوری اتحاد کیلئے ناک کا سوال ہے تو دوسری طرف عظیم اتحاد کے وجود کی جنگ ثابت ہو سکتی ہے۔اس لئے دونوں طرف سے سیاسی سرگرمیاں تیز ہیں اور ایک دوسرے کو مات دینے کے لئے زمین تیار کی جارہی ہے۔چونکہ اب یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ نتیش کمار کے تعلق سے جو افواہیں تھیں کہ وہ کبھی بھی پھر اپنا سیاسی پالا بدل سکتے ہیں وہ ختم ہو چکی ہیں اور اس کی کئی وجہیں ہیں۔اس لئے قومی جمہوری اتحاد عوام کو یہ پیغام دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ وہ بی جے پی کی قیادت میں متحد ہے۔ واضح رہےکہ بہار میں اس وقت قومی جمہوری اتحاد کی حکومت ہے اور سب سے بڑی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ہے اورنتیش کمار کی جنتا دل متحدہ دوسرے نمبر کی جماعت ہے مگر قیادت نتیش کمار کے ہاتھوں میں ہے اور آئندہ اسمبلی انتخاب بھی نتیش کمار کی قیادت میں ہی ہونا طے ہے۔قومی جمہوری اتحاد میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتا دل متحدہ کے علاوہ لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) ہندوستانی عوام مورچہ(جیتن رام مانجھی) اور راشٹریہ لوک منچ (اوپندر کشواہا)شامل ہیں۔گزشتہ کئی مہینوں سے نتیش کمار کی پرگتی یاترا ہو رہی ہے اور گزشتہ جمعہ کو اس کا پہلا مرحلہ ختم ہواہے ۔اس بار نتیش کمار نے اپنی اس ریاست گیر یاترا میں صرف اور صرف ’’تقابلی سیاست‘‘ کو محور و مرکز بنائے رکھا ۔ وہ ہر عوامی جلسے میں یہ کہتے رہےکہ ۲۰۰۵ء سے قبل بہار کی کیا صورتحال تھی اور اس کے بعد جب سے وہ وزیراعلیٰ ہیں بہار میں کتنی تبدیلی آئی ہے اور ایک ایک فلاحی سرکاری اسکیموں کی مثال پیش کرتے رہے۔ بالخصوص ۲۰۰۵ء سے قبل بہار میں سڑک ، بجلی ، اسپتال کی خستہ حالی اور پینے کے پانی کے فقدان یاد دلاتے رہے اور ان کی بیس سالہ حکومت میں ان شعبوں میں جو ترقیاتی کام ہوئے ہیں وہ عوام سے باورکراتے رہے۔نتیش کمار نے اپنی ہر ایک جائزہ میٹنگ اور عوامی جلسوں میںخطاب کے دوران ۲۰۰۶ء سے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والی لڑکیوں کیلئے پوشاک اسکیم، ۲۰۰۹ء سے سائیکل اسکیم اور ۲۰۱۰ء سے لڑکوں کیلئے بھی سائیکل اسکیم کو اپنا تاریخی کارنامہ قرار دیتے رہے ۔ اسی طرح ریاست کے کسی بھی ضلع سے راجدھانی پٹنہ پانچ گھنٹے میں پہنچنے کی سہولت یعنی سڑک تعمیری کاموں کا بکھان کرتے رہے۔طبی شعبے میں بھی جو کام ہوا ہے اس کوبھی یاد دلاتے رہے۔انہوں نے اقلیت طبقے کیلئے اپنی دودہائی کی مدت کار میں جو کام کئے ہیں بالخصوص قبرستان کی گھیرا بندی کا حوالہ دیتے رہے کہ انہوں نے اب تک ۱۲۷۳؍ قبرستانوں میں ۷۴۶؍ کی گھیرابندی کی ہے اور مزید بچے ہوئے قبرستانوں کی گھیرا بندی کا کام چل رہا ہے۔ نتیش کمار نے اپنے عوامی جلسوں میں لالو ۔رابڑی کی۱۵؍ سالہ حکومت اور اپنی حکومت کا تقابلی اعداد وشمار پیش کر کےیہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کے دور اقتدار میں بہارمیں چہار طرفہ ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ۲۰۰۶ء سے پنچایتی راج اور ۲۰۰۷ء سے میونسپل کارپوریشن میں خواتین کے لئے پچاس فیصد ریزرویشن اور سرکاری نوکریوں میں خواتین کے لئے ۳۳؍ فیصد ریزرویشن کے ساتھ ساتھ ریاست بہار کے اسکولوں میں بڑی تعداد میں اساتذہ کی بحالی کا بھی حوالہ دیتے رہے۔ غرض کہ نتیش کمار کی اس پرگتی یاترا سے بہار میں تقابلی سیاست کا آغاز ہوگیاہے ۔ کیوں کہ حزب اختلاف کے لیڈر تیجسوی یادو بھی ان دنوں ’’کارکن درشن‘‘ یعنی اپنے پارٹی ورکروں سے ملاقات کی یاترا پر ہیں اور وہ پوری ریاست میں گھوم گھوم کر نتیش کمار کے دور اقتدار میں جو انتظامی امور اورنظم ونسق میں جس طرح کی پستی آئی ہے اور سرکاری آفیسروں کی بالا دستی قائم ہوئی ہے اس کو نشانہ بنارہے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ گزشتہ دو دہائی میں دو بار نتیش کمار کے ساتھ حکومت میں شامل ہو کر جتنے کام کئے ہیں اس کی بھی مثال پیش کر رہے ہیں۔
بہرکیف! ایک طرف نتیش کمار کی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد نے اب ریاست کے تمام ۲۴۷؍ اسمبلی حلقوں میں آئندہ اپریل سے مشترکہ عوامی جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ عوام کو یہ باور کرا سکیں کہ قومی جمہوری اتحاد میں کسی طرح کی پھوٹ نہیں ہے اور نتیش کمار کی قیادت میں ہی آئندہ اسمبلی انتخاب متحد ہو کر لڑیں گے تو دوسری طرف تیجسوی یادو کی قیادت میں عظیم اتحاد نے بھی ریاست گیر سطح پر خصوصی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے کہ وہ نتیش کما ر کی حکومت کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اگر ریاست میں عظیم اتحاد کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو وہ کون کون سی فلاحی اسکیموں کا آغاز کریں گے ۔ بالخصوص خواتین کو ڈھائی ہزار ماہانہ وظیفہ اور غریب طبقے کو مفت بجلی مہیا کرانے کے ساتھ بیروزگاروں کو سرکاری ملازمت دیں گے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تقابلی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور بہار کی کیسی تصویر سامنے آتی ہے کیوں کہ بہار اسمبلی انتخاب کے نتائج دونوں اتحادیوں کیلئے غیر معمولی سیاسی اہمیت کے حامل ہیں اس لئے دونوں اتحادیوں نے جی جان لگا کر اپنی زمینی حقیقت کو سمجھنے اور سیاسی حکمت عملی طے کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ عظیم اتحاد میں شامل کانگریس نے بھی اپنے ریاستی پارٹی نگراں میں تبدیلی کی ہے اور بایاں محاذکی فعالیت بھی قدرے بڑھی ہوئی ہے ۔لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ قومی جمہوری اتحاد ہو کہ عظیم اتحاد دونوں میں سیٹوںکی تقسیم کے بعد ہی سیاسی تصویر صاف ہوگی اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ سامنے آسکے گا۔کیوں کہ دونوں اتحادیوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ سیٹوں کی تقسیم کا ہے اور جس طرح کی رسّہ کشی دیکھنے کو مل رہی ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اگر دونوں اتحاد میں سیٹو ں کی تقسیم کو لے کر یونہی رسّہ کشی جاری رہی تو باغی امیدواروں کی ایک بڑی صف تیار ہو سکتی ہے اور چوںکہ بہار میں ایک نئی سیاسی جماعت جن سوراج دونوں کے خلاف ہوا بنا رہی ہے ایسے وقت میں باغیوں کی امیدواری دونوں اتحاد کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ شاید اسی لئے دونوں اتحاد سیٹوں کی تقسیم کے معاملے میں بہت ہی محتاط بیان دے رہے ہیں۔