• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

خطبہ ٔنکاح میں پڑھی جانے والی تین آیات کی حکمت

Updated: August 02, 2024, 5:52 PM IST | Maulana Taqi Usmani | Mumbai

پُرمسرت اور خوش گوار ازدواجی زندگی کے لئے تقویٰ ضروری ہے، غور کیا جائے تو ان تینوں آیتوں میں جو بات مشترکہ طور پر کہی گئی ہے وہ تقویٰ کا حکم ہے۔ یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ تقویٰ کا شادی بیاہ سے کیا تعلق؟ زیرنظر سطور میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

If the hearts of the spouses are rich in the wealth of piety, the journey of life becomes easier and calmer. Photo: INN
ؕزوجین کے دل تقویٰ کی دولت سے مالامال ہوں تو زندگی کا سفر آسان اور پرسکون ہوجاتا ہے۔ تصویر : آئی این این

” تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے لئے بہتر ہوں۔ “ 
( سنن الترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء فی حق المرأة علی زوجھا)
” بے شک قرآن کریم نے مردوں کو عورتوں پر قوام(نگراں ) قرار دیا ہے۔ “ ( سورة النساء: ۳۴) ا سکے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ارشادات او راپنے عمل سے یہ بات واضح فرما دی ہے کہ نگراں ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد ہر وقت عورتوں پر حکم چلایا کرے، بیوی کے ساتھ خادمہ جیسا معاملہ کرے یا اسے اپنی آمریت کے شکنجے میں کس کر رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ میاں بیوی کے رشتے کو مودّت (دوستی) اور رحمت سے تعبیر فرمایا ہےنیز شوہر کیلئے بیوی کو سکون کا ذریعہ قرار دیا ہے:
”اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ “ ( سورة الروم:۲۱)
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اصل رشتہ دوستی اورمحبت کا ہے اور دونوں ایک د وسرے کے لئے سکون اور راحت کا ذریعہ ہیں، لیکن اسلام ہی کی ایک تعلیم یہ ہے کہ جب کبھی کوئی اجتماعی کام کیا جائے تو لوگوں کو چاہئے کہ وہ کسی کو اپنا امیر بنالیں، تاکہ کام نظم و ضبط کے ساتھ انجام پائے، یہاں تک کہ اگر دو شخص کسی سفر پر جارہے ہوں، تب بھی مستحسن یہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنالیں، خواہ وہ دونوں آپس میں دوست ہی کیوں نہ ہوں۔ اب جس شخص کو بھی امیر بنایا جائے وہ ہر وقت دوسرے پر حکم چلانے کے لئے نہیں، بلکہ سفر کے معاملات کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے بنایا گیا ہے، اس کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھی یا ساتھیوں کی خبر گیری کرے، سفر کا ایسا انتظام کرے جو سب کی راحت و آرام کے لئے ضروری ہو اور جب وہ یہ فرائض انجام دے تو دوسروں کا کام یہ ہے کہ وہ ان امور میں اس کی اطاعت کریں اور اس کے ساتھ ہر ممکن تعاون کو یقینی بنائیں۔ 
جب اسلام نے ایک معمولی یعنی مختصر سے سفر کیلئے بھی یہ تعلیم دی ہے تو زندگی کا طویل سفر اس تعلیم سے کیسے خالی رہ سکتا تھا؟ لہٰذا جب میاں بیوی اپنی زندگی کامشترک سفر شروع کر رہے ہوں تو ان میں سے شوہر کو اس سفر کا امیر یا نگراں بنایا گیا ہے، کیونکہ اس سفر کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے جو جسمانی قوت اور صفات درکار ہیں وہ قدرتی طور پر مرد میں زیادہ ودیعت کی گئی ہیں لیکن اس انتظام سے یہ حقیقت ماند نہیں پڑتی کہ دونوں کے درمیان اصل تعلق دوستی، محبت اور رحمت کا ہے اور ان میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے ساتھ ایک نوکر کا سا معاملہ کرے یا شوہر اپنی امارت کے منصب کی بنیاد پر یہ سمجھے کہ بیوی اس کے ہر حکم کی تعمیل کے لئے پیدا ہوئی ہے یا اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیوی سے اپنی ہر جائز یا ناجائز خواہش کی تکمیل کرائے، بلکہ الله تعالیٰ نے مرد کو جو قوت اور صفات عطا کی ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے اس منصب کو جائز حدود میں رہتے ہوئے، بیو ی کی دلداری میں استعمال کرے او راس کی جائز خواہشات کو حتی الامکان پورا کرے۔ 
اسی طرح، الله تعالیٰ نے بیوی کو جو مقام بخشا ہے اور اسے جو حقوق عطا کئے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ وہ (یعنی بیوی) اپنی خداداد صلاحیتیں اپنی شریک زندگی کے ساتھ تعاون اور اس کیلئے سہولتیں پیدا کرنے میں صرف کرے۔ اگر دونوں یہ کام کر لیں تو نہ صرف یہ کہ گھر دونوں کیلئے دنیوی جنت بن جاتا ہے، بلکہ ان کا یہ طرز عمل مستقل عبادت کے حکم میں ہے، جو آخرت کی حقیقی جنت کا وسیلہ بھی ہے، اسی لئے دونوں کو نکاح کے خطبے میں تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے۔ 
قرآن کریم کی بے شمار آیات میں سے حضورؐ نے نکاح کے خطبے کیلئے خاص طو رپر جن تین آیات (سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر: ۱۰۲، سورہ نساء کی آیت نمبر: ۱، اور سورہ احزاب کی آیت نمبر : ۷۰، ۷۱ ) کا جو انتخاب فرمایا یقیناً اس میں کوئی بڑی مصلحت ہو گی۔ غور کیا جائے تو ان آیات میں جو بات مشترک ہے وہ تقویٰ کا حکم ہے۔ تینوں آیتیں اسی حکم سے شروع ہو رہی ہیں کہ تقویٰ اختیار کرو۔ کوئی نادان یہ کہہ سکتا ہے کہ تقویٰ کا شادی بیاہ سے کیا جوڑ؟ لیکن جو شخص حالات کے نشیب و فراز اور میاں بیوی کے تعلق کی نزاکتوں کو جانتا ہے اور جسے ازدواجی اُلجھنوں سے کماحقہ واقفیت رکھتا ہے وہ اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میاں بیو ی کے خوشگوار تعلقات او رایک دوسرے کے حقوق کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی کے لئے تقویٰ ایک لازمی شرط ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ نازک ہوتا ہے اوران دونوں کے جذبات او ران کی حقیقی سرشت ایک دوسرے کے سامنے اتنی کھل کر آتی ہے کہ کسی اور کے سامنے اس حد تک واضح نہیں ہوتی۔ دوسروں کے سامنے ایک شخص اپنی بد طینتی کو ظاہری تبسم اور مسکراہٹوں کے پردے میں چھپا سکتا ہے، اپنے اندر کے انسان پر خوب صورت الفاظ اور پوری خوش اخلاقی کا ملمع چڑھا سکتا ہے لیکن بیوی کے ساتھ اپنے شب وروز کے معاملات میں وہ یہ ملمع باقی نہیں رکھ سکتا، اسے لامحالہ اپنی ظاہر دار ی کے خول سے باہر نکلنا ہی پڑتا ہے۔ 

اگر اندر کا یہ انسان تقویٰ سے آراستہ نہ ہو تو اپنے شریک زندگی کا جینا دوبھر کر دیتا ہے، ایک بیوی کو اپنے شوہر سے جو تکلیف پہنچتی ہیں، اس کا ازالہ ہمیشہ عدالت کے ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ بے شمار تکلیفیں ایسی ہیں جو وہ عدالت تو کُجا، اپنے کسی قریبی رشتہ دار کے سامنے بھی بیان نہیں کی جاسکتیں، اسی طرح ایک شوہرکو بیوی سے جو شکایتیں ہوسکتی ہیں بسا اوقات شوہر کے پاس ان کا کوئی حل نہیں ہوتا نہ کسی اور کے ذریعے وہ انہیں دور کرنے کا کوئی سامان کرسکتا ہے۔ 
  اس قسم کی تکلیفوں اور شکایتوں کا کوئی علاج دنیا کی کوئی طاقت فراہم نہیں کرسکتی، ان کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ دونوں کے دل میں تقویٰ ہو، یعنی وہ اس احساس کی دولت سے مالا مال ہوں کہ وہ ایک دوسرے کے لئے امانت ہیں اور اس امانت کی جواب دہی انہیں اپنے الله کے سامنے کرنی ہے، اپنے شریک زندگی کو اپنے کسی طرز عمل سے ستا کر وہ شاید دنیا کی جواب دہی سے بچ جائیں، لیکن ایک دن آئے گا جب وہ الله کے سامنے کھڑے ہوں گے او رانہیں اپنی ایک ایک حق تلفی کا بھگتان بھگتنا پڑے گا، اسی احساس کا نام تقویٰ ہے اور یہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل پر ان تنہائیوں میں بھی پہرہ بٹھاتی ہے، جہاں اسے کوئی اور دیکھنے والا نہیں ہوتا۔ آں حضرت صلی ا لله علیہ وسلم یہ چاہتے ہیں کہ جب دو مرد وعورت زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کے ساتھی بنیں تو وہ روانہ ہونے سے پہلے اپنے دلوں پر یہ غیبی پہرہ بٹھالیں، تاکہ ان کی دوستی پائیدار ہو اوران کے دل میں ایک دوسرے کی محبت محض وقتی نفسانیت کی پیداوار نہ ہو، جو نئی نویلی زندگی کا جوش ٹھنڈا ہونے کے بعد فنا ہو جائے، بلکہ وہ تقویٰ کے سائے میں پلی ہوئی پائیدار محبت ہو، جو خود غرضی سے پاک او رایثار، وفا او رخیر خواہی کے سدا بہار جذبات سے مزین ہوتی ہے او رجسم سے گزر کر واقعی قلب وروح کی گہرائیوں تک سرایت کرجاتی ہے، اس لئے آپﷺ نے نکاح کے خطبے میں ان تین آیات کا انتخاب فرمایا، جن میں سے ہر آیت تقویٰ کے حکم سے شروع ہو رہی ہے اور وہ اس کا بنیادی پیغام ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK