’’وقف کی کروڑوں، اربوں روپے کی جائیداد سے ہم مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کو بے مثال اونچائی تک لے جا سکتے تھے۔ ‘‘( کوئی بتائے، وقف کالج آف انجینئرنگ کہاں ہے؟)
EPAPER
Updated: April 20, 2025, 2:18 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
’’وقف کی کروڑوں، اربوں روپے کی جائیداد سے ہم مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کو بے مثال اونچائی تک لے جا سکتے تھے۔ ‘‘( کوئی بتائے، وقف کالج آف انجینئرنگ کہاں ہے؟)
نوجوانو! اسکول کی سطح کے امتحانات میں آپ سے جو کچھ سوالات پوچھے جاتے تھے، وہ یہ تھے: تعریف بیان کیجئے (یعنی ڈیفائن)، موازنہ کیجئے(کمپیئر)، نسبت معلوم کیجئے(ریلیٹ)، خاکہ کشی کیجئے (آئوٹ لائن) اور تلخیص بیان کرنا (سمرائز) وغیرہ۔ یونیورسٹی کے امتحانات میں سوالات کی نوعیت کچھ یوں ہوتی ہے: مفصّل جواب لکھیے (ڈسکرائب)، مفصّل جواب مع اپنی رائے کے لکھئے (انٹرپریٹ)، وضاحت کیجئے (ایکس پلین)، تجزیہ کیجئے(اینالائز)، جائزہ لیجئے(ریویو)، اہمیت بیان کیجئے (اویلیویٹ) وغیرہ۔ لیکن آگے کی تعلیم یعنی پوسٹ گریجویشن سے لے کر ریسرچ تک اور ہر مقابلہ جاتی امتحان (خصوصاً سِوِل سروسیز) میں شریک ہونے والے طلبہ میں حالاتِ حاضرہ اور سیاسی، سماجی قائدین کے اقوال و افعال کو سمجھنے اور اُن کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت موجود ہونی چاہئے۔ بصیرت کا جنم اسی طرح ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
(۱)’’وقف بِل کے ذریعے آج پوری قوم پر مصیبتوں کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے‘‘ (تجزیہ: ہم قوم کے نوجوان یہ نہیں سمجھ پائے ہیں کہ یہ وقف بِل کیا ہے؟ دراصل وقف کیا ہے وہ بھی ہم نہیں جانتے۔ )
(۲)’’وقف کی کروڑوں، اربوں روپے کی جائیداد سے ہم مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کو بے مثال اونچائی تک لے جا سکتے تھے۔ ‘‘( کوئی بتائے، وقف کالج آف انجینئرنگ کہاں ہے؟)
(۳)’’وقف کی املاک سے ہماری قوم کی تقدیر سنور سکتی ہے۔ ‘‘ (اوقاف کالج آف میڈیکل سائنسز کا کوئی پتہ ہمیں بتائے)
(۴)’’اوقاف کی ملکیت سے ہمیں محروم رکھنے کی یہ سازش ہے‘‘ (وقف ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا قیام اب تک کیوں نہیں ہوا؟)
(۵)ہماری مساجد کو ہڑپنے کیلئے یہ بِل لایا گیا ہے۔ ‘‘ (شرپسندوں کا شاید منصوبہ یہی ہوگا مگر ہم خیر پسند لوگوں نے اپنی بے شمار ویران مساجد کو آباد کرنے کیلئے کیا منصوبہ بنایا ہے؟)
(۶)’’ اب تو ہمارے مسجد و مدرسے ٹرسٹ کا حساب کتاب بھی مانگا جائے گا۔ ‘‘(اِس میں برائی کیا ہے؟ آخر ہمیں آڈٹ یا حساب کتاب رکھنے میں خدا واسطے کا بیر کیوں ؟)
(۷)’’ہم نے اپنے مسجد ٹرسٹ کا۱۵۔ ۲۰؍ برسوں سے کوئی آڈٹ کیا ہی نہیں، ہم یک لخط یہ سب کیسے کریں گے؟‘‘( اسلام، دین ہی ہے حساب کتاب کا۔ انسان کے ہر فعل کا حساب کتاب ہوگا۔ اللہ کے گھر کے ضمن میں ہر حساب کتاب کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ کسی مسجد ٹرسٹ کا حساب کتاب یا آڈٹ اگر۱۵۔ ۲۰ ؍برسوں تک نہیں ہوا ہے، اس کوتاہی اور غفلت پر ہم خاموش کیوں کر ر ہیں اور جب جاگے، تب سویرا پر عمل کیوں نہیں کرتے؟آخر ہم سرکارکے تازیانے پر ہی کیوں جاگتے ہیں ؟)
(۸)’’حساب کتاب رکھنے کیلئے ہمارے ٹرسٹیوں میں کوئی پڑھا لکھا تو ہونا چاہئے۔ ‘‘( ہم محلّے کے نوجوان ہم میں سے کئی گریجویٹ بھی ہیں، ہم کو بھی کبھی بلائیے مسجد ٹرسٹ کی کسی میٹنگ میں، ہم آپ کو حساب کتاب باقاعدہ رکھنے، چندے کے رسیدیں بنانے وغیرہ میں بلا معاوضہ مدد کریں گے)
(۹)’’ہماری مساجد، مدارس، حتیٰ کہ قبرستان کی زمینوں کو ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ ‘‘( ہم دوسری قوموں کے اوقاف ٹرسٹوں سے کچھ کیوں نہیں سیکھتے۔ مثلاً سِکھوں کے گرودوارہ اور عیسائیوں کے چرچ کے ٹرسٹوں کے حسن انتظام سے! یہ دونوں قومیں جب بھی فلاحی کاموں کیلئے کوئی زمین پاتے ہیں اور انہیں دی جاتی ہے تو اُس کے سارے دستاویز پوری طرح محفوظ کر لیتے ہیں اور ہر ہر قطع اراضی کو پہلے باڑ لگاتے ہیں۔ اسلئے اُن کی زمینیں کوئی ہڑپ نہیں کرتا اور ہر کورٹ کچہری میں انہی دو قوموں کے مقدمے سب سے کم ہوتے ہیں )
(۱۰)’’دینی مدارس پر تو سرکاری ایجنسیوں کی بُری نظریں ہیں۔ ہر بار کر کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے دینی مدر سے کا نصاب اردو زبان میں ہی کیوں لکھ رکھا ہے؟ ہمیں ریاستی کی زبانوں میں اُس کا ترجمہ چاہئے۔ ‘‘( یہ تو کتنی اچھی بات ہے کہ مقامی زبانوں میں ہمارے مدارس کا ترجمہ غیروں کے زیر مطالعہ ہو جائے؟ یہ الزام تو ختم ہو جائے گا کہ وہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے یا مدارس میں دوسری قوموں کے افراد کو صرف دشمن بنایا جاتا ہے۔ دوّم یہ کہ ہمیں کثیر الانسان بننے میں خدا واسطےکا بیر کیوں ہے؟ ہم دوسری زبانوں کو قبول کرنے کیلئے تیار کیوں نہیں رہتے؟)
(۱۱)’’ ٹرینوں میں ہمارے مدرسے کے طلبہ پکڑے جاتے ہیں انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ‘‘( سچ یہ ہے کہ ہمارے چند مدارس اپنے طلبہ کو شناختی کارڈ تک مہیانہیں کرتے، اکثر اُنہی بچوں کو پکڑ ا جاتا ہے)
(۱۲) خوشی کی بات یہ ہے کہ اب وقف بورڈ میں صرف مسلمانوں ہی کو شامل کیا جائے گا۔ ‘‘( اس میں خوش ہونے کی بات کیا ہے؟ہمارے یہاں نام نہاد مسلمانوں کی کوئی کمی ہے کیا؟)
(۱۳)’’ پھر ہم سرکار کو سبق سکھائیں گے اور ضد کریں گے کہ مسلمانوں کو بھی مندرٹرسٹوں میں شامل کیا جائے۔ ‘‘( سبق خود لیجیے جناب! کیوں کوئی مسلمان کسی مندر ٹرسٹ کا ٹرسٹی بننا چاہے گا اور کوئی کیوں بنے؟)
(۱۴) نوجوانو! وقت آگیا ہے....‘‘( زندہ باد.... مُردہ باد.... کے فلک شگاف نعرے لگانے کا۔ مورچہ نکالنے کا.... پولیس سے ٹکرانے کا ....ریلیف کمیٹیاں قائم کرنے کا)
(۱۵)’’گَرو سے کہو ہم ہندو ہیں کے جواب میں ہمیں کہنا چاہئے: فخر سے کہوہم مسلمان ہیں ‘‘( لغت اٹھا کر دیکھ لیجیے فخر کا مطلب غرور، گھمنڈ، اکڑ، ہیکڑی اور تکبّربھی ہوتا ہے اور یہ ساری صفات ہمیشہ صرف ابلیس سے منسوب ہیں۔ اسلئے فخر سے کہو ہم مسلمان ہیں کہنے کے بجائے بہتر ہے کہ ہم دل میں یہ کہیں کہ’’ شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں !‘‘)
(۱۶) ’’سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہسنایا کہ اُردو زبان نے اسی ملک میں جنم لیا ہے۔ ‘‘ (بالآخر آٹھ دہائیوں بعد سپریم کورٹ نے اردو زبان کو جنم داخلہ جاری کردیا)
(۱۷)’’سپریم کورٹ نے کہا کہ اردو اس ملک کی بڑی اہم زبان ہے۔ ‘‘(اب عدالت عظمیٰ نے گیند اُردو والوں کے پالے میں ڈال دی۔ اب اہلِ اردو ثابت کریں کہ وہ حقیقی ارد ووالے ہیں، اردو کے چاہنے والے ہیں، اس زبان کو زندہ رکھیں گے، اُسے صرف نہ بولیں گے بلکہ پڑھیں گے اور لکھیں گے بھی اور اپنے بچّوں کو بھی پڑھائیں گے، لکھائیں گے)
(۱۸)’’سپریم کورٹ نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ تہذیب ہے۔ ‘‘ (پھرہم اردو والے اُس تہذیب سے کیوں بھاگتے رہتے ہیں ؟ اس تہذیب کو اپنانے میں کمتری کا احساس کیوں ہوتا ہے؟ گھر پر مہمان آنے پر بچّے سے اصرار کیوں کرتے ہیں ، بیٹا پانی نہیں واٹر بولو؟’لب پہ آتی ہے دُعا‘ کے بجائے ہمیں ’جیک اینڈ جِل‘ گنگنانے والے بچوں کو ہم خوشی سے گلے کیوں لگاتے ہیں ؟)
(۱۹) ’’ ہم نہ کہتے تھے کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے، اور اب تو اس کا اعتراف اس ملک کی عدالت عظمیٰ نے بھی کرلیا۔ ‘‘ (اس قدر دھوم ہے تو بھلا گلے محلے کی اردو اسکولیں دھڑادھڑ بند کیوں ہو رہی ہیں ؟ اُن بند اسکولوں کے گرائونڈ پر مشاعروں کا انعقاد کرکے ہم اُنھیں ’ عظیم الشان‘ بھی قراردے رہے ہیں ؟ ہماری نظر میں سب سے کامیاب مشاعرہ وہ ہوگاجس میں مشاعرہ گاہ کے باہر ایک ٹیبل پر کسی اردو اسکول میں داخلے کے فارم رکھے ہوں اور مشاعرے سے متاثر ہوکر پانچ بچّوں نے اُس اردو اسکول میں داخلہ لیا)۔
(۲۰) ’’خسرو کی پہیلی...خسرو کی پہیلی...‘‘ (انگلش ہی پڑھتا ہے اب ہر اقبال ہر مومن ...اور اُردو غریب کلو کی بٹیا کی سہیلی۔ ابّا کہاں گئے یہ پوچھئے بشیر سے یا وسیم سے ...’’ پِتاجی وِدّیالیہ گئے ہیں ‘‘ یہی کہے گا قسم سے)۔