صدقۂ فطر کا معنی اوراُس کا حکم : فطر کالفظ افطار سے ہے صدقہ ٔ فطر کو زکاۃ الفطربھی کہاجاتاہے کہ وہ رمضان کے روزہ پورے ہونے کے بعد دیا جاتا ہے کیونکہ روزہ دار کے روزہ کی حالت میں سرزد ہونے والی خطاؤں سے پاکیزگی اورمساکین کے لئے کھانے کا باعث ہے (ابن ماجہ )
صدقۂ فطر کا معنی اوراُس کا حکم : فطر کالفظ افطار سے ہے صدقہ ٔ فطر کو زکاۃ الفطربھی کہاجاتاہے کہ وہ رمضان کے روزہ پورے ہونے کے بعد دیا جاتا ہے کیونکہ روزہ دار کے روزہ کی حالت میں سرزد ہونے والی خطاؤں سے پاکیزگی اورمساکین کے لئے کھانے کا باعث ہے (ابن ماجہ )
حکم : جمہور سلف کے نزدیک واجب بمعنی فرض ہے ۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کھجور کا ایک صاع یا جَو کا ایک صاع صدقہ ٔ فطر ہر غلام اور آزاد ،مرد ،اور عورت ، چھوٹے ، اور بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے (بخاری ، مسلم ، ابوداؤد)
صدقہ ٔ فطر: تمام مسلمانوں پر واجب ہے ، اس میں کسی مالداری یا نصاب کی کوئی شرط وارد نہیں ہے ۔
صدقہ ٔ فطر کی مقدار: صدقہ ٔ فطر کی مقدار ایک صاع ہے جو ڈھائی کلو گرام کے برابر ہے (بخاری ) صدقہ ٔ فطرمیں گیہوں ،چاول، جَوْ، وغیر ہ میں سے جوچیز زیرِ استعمال ہو وہ دینا افضل ہے (بخاری ،مسلم) البتہ غلہ وغیرہ کی بجائے اس کی قیمت دینا بھی جائز ہے۔
صدقہ ٔ فطر کب اداکرنا چاہئے ؟ صدقہ ٔ فطر عید کی نماز سے ایک دن یا دو دن پہلے بھی نکا لا جاسکتا ہے (بخاری)ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ لوگ صدقہ ٔفطر عید سے ایک یادودن پہلے دیا کرتے تھے (بخاری ) اور اس کے مستحق لوگ وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں ۔ البتہ اس میں فقیر وں اور محتاجوں کو دینا افضل ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ہوا کہ ’’ اُس روز اُن (ضرورتمندوں )کو آسودہ ، غیر محتاج کردو(بیہقی، دارقطنی)اور یہ صدقۂ نمازِ عید کے بعد دیا جائے تو عام صدقہ ٔ ہوگا ، صدقہ ٔ فطر میں شمار نہیں ہوگا ۔ (ابوداؤد)
یہ بھی پڑھئے: قیامت کی ہولناکیاں، زندہ دفنائی گئی بیٹی کا سوال اور دس راتوں کی قسم کی تفصیل
زکوٰۃ الفطر میں اجتماعی نظام بہتر ہے ۔ عہد نبوت میں اور بعد کے ادوار میں بھی اس پر عمل ہوتا تھا ، تاکہ سارے ضرورتمندوں کی ضرورت پوری ہوجائے، کوئی بھی مسکین باقی نہ رہے۔اس نظام کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی آدمی مستقل فائدہ اٹھانے کی بجائے حتی المقدور سارے ضرورتمند مستفید ہوتے ہیں۔
زکوٰۃ الفطر میں قیمت دینے کے سلسلہ میں علماء اسلام کی تین آراء :
(۱) مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کے جمہور اہل علم کی رائے کے مطابق غلہ ہی دینا ہے، چونکہ حدیث میں یہی منصوص ہے، اور یہ آپ ﷺ اور صحابہ ؓ کا عمل بھی ہے، جیساکہ حضرات ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور سے یا ایک صاع جو سے ہر غلام وآزاد، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے ہر ایک مسلمان پرفرض قرار دیا ہے اور یہ بھی حکم دیا کہ زکاۃ الفطر عید کی نماز سے پہلے ادا کیا جائے ۔ (بخاری مسلم )
نیز اسی مفہوم میں حضرت ابوسعید خدری ؓ سے عہد نبوت میں غلہ دینے کے سلسلہ میں ایک حدیث صحیح مسلم میں وارد ہے ۔
(۲) شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کی رائے۔ ضرورت اور مصلحت راجحہ کی بنیاد پر زکوۃ الفطر میں قیمت دینا جائز ہے ، جب کہ اصل یہ ہے کہ غلہ ہی دیا جائے، مگر اصل سے رجوع کرتے ہوئے لوگوں کی حاجتوں ا ورضرورتوں کا لحاظ کرتے ہوئے غلہ دینے کی وجہ سے کسی مشقت کے پائے جانے پر قیمت دینا بھی جائز ہے۔ (اخراج القیمۃ للحاجۃ او المصلحۃ او العدل فلا باس ۔مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیۃ : ۲۵/۷۹)
(۳) حنفیہ اور بعض ائمہ سلف کی رائے غلہ کے بجائے قیمت دینا جائز ہے۔ائمہ سلف میں سفیان ثوری ، عمربن عبد العزیز ، حسن بصری ، اسحق بن راہویہ، ابوثوروغیرہم ۔نیز ان حضرات کی رائے یہ ہے کہ حدیث شریف میں جن غلوں (کھجور، پنیر، منقی ، جو،کشمش) کا تذکرہ ہے علی سبیل المثال ہے نہ کہ حصر مقصود ہے، اور یہ اناج یا غلے عہد نبوت میں درحقیقت مال ہی تھے، اس دور میں کرنسی سے زیادہ اناج کا تبادلہ اناج سے ہی ہوتا تھااور یہی اس دور میں عرف بھی تھا، جب کہ دور حاضر میں یہ صورت نا پید ہے ، جیساکہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے شاہ مصراۃ یعنی دودھ روکی ہوئی بکری خریدی اور اسے دوہا ، اگر وہ اس تجارت پر راضی ہے تو اسے اپنے لئے روک لے اور اگر راضی نہیں ہے تو واپس کردے، اور اس دودھ کے عوض میں ایک صاع کھجور دیدے ۔(صحیح بخاری : ۲۱۵۱)