EPAPER
مدینہ فلائٹ کا اعلان ہوا تو ہم مصلیٰ سے باہر نکلےاور دوبارہ جہاز پہ سوار ہوئے۔ جہاز کے پہیوں نے جب مدینہ کی سر زمین کو چھوا تو مانو دل کو جیسے پنکھے لگ گئے۔ جہاز کی رفتار کے ساتھ گویا دل بھی دوڑ لگا رہا تھا۔ اس وقت دل کی بے تابی کا عالم مت پوچھئے۔ مدینہ شہر اب ہمارے سامنے ہے۔ بچپن میں اقبال عظیم کی یہ غزل جسے ہم ناسمجھی میں علامہ اقبال کی سمجھتے تھے بہت گنگناتے تھے: مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ/ جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ!
March 18, 2025, 1:54 pm IST
صحیح تو کہہ رہی تھیں بیگم نفیس۔ آج اگر خود ڈرائیو کرنا آتا تو یوں شوہر صاحب کی منتیں نہ کرنی پڑتیں۔ خود ڈرائیور کرتے مال چلے جاتے۔ اور ’مال‘ اڑاتے۔ خود ڈرائیو کرتے اور امی کے پاس موجود۔ یوں ہماری سوچوں کا رخ اب ڈرائیونگ سیکھنے پر چلا گیا تھا۔
February 26, 2025, 11:38 am IST