• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اوڑھنی اسپیشل: وہ وقت جب جذبات کے اظہار میں دشواری ہوئی

Updated: September 16, 2024, 12:28 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

There are times in life when a person cannot express his feelings. Photo: INN.
زندگی میں کبھی کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جب انسان اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرپاتا۔تصویر: آئی این این۔

وہ سانحہ مَیں کبھی فراموش نہیں کرسکتی!


زندگی میں ایسے کئی مواقع آتے ہیں جب انسان اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا۔ مثال کے طور پر جب رشتے والے آتے ہیں اور والدین بیٹی سے اس کا منشاء پوچھتے ہیں، جب اچانک ہمارا کوئی عزیز کسی حادثے کا شکار ہوجائے یا کوئی ناگہانی صورتحال پیدا ہوجائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے اور زبان کہنے سے قاصر۔ اگر کوئی سانحہ پیش آجائے تب بھی انسان اپنے جذبات کو بیان نہیں کر پاتا۔ مجھ پر ایک وقت ایسا آیا جب مَیں شدید صدمے سے دو چار تھی اور زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہیں کر پا رہی تھی۔ مجھے خدا نے شادی کے بعد بیٹیوں سے نوازا۔ مجھے بیٹیوں سے بڑا پیار تھا۔ لیکن میرے والد صاحب کو بڑی حسرت تھی کہ میری بیٹی کے گھر بیٹا ہو اور میں نواسہ دیکھوں۔ خدا نے جب بیٹے سے نوازا تو یہ خبر سن کر والد صاحب بے حد خوش ہوئے۔ اور مجھ سے کہا تم اپنی فیملی کے ساتھ یہاں وطن آؤ۔ ہم سب رشتے داروں کی دعوت کریں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ کچھ دنوں کے بعد ہی تعطیل شروع ہونے والی تھی۔ اور چونکہ میں اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھی اس لئے مجھے خود بھی اپنے والد صاحب سے ملاقات کا بے صبری سے انتظار تھا۔ میں سفر کی تیاری میں ہی مصروف تھی کہ اچانک ٹیلی گرام آیا، اس وقت فون کا اتنا چلن نہیں تھا۔ خبر ملی کہ حرکت قلب بند ہونے سے والد صاحب انتقال کر گئے تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ والدہ کم عمری میں داغ مفارقت دے گئی تو والد صاحب نے مجھے ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا تھا۔ میرے لئے میرے والد ہی سب کچھ تھے۔ میری حالت غیر ہوگئی تھی۔ زبان سے ایک لفظ ادا نہیں ہو رہا تھا۔ بس آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے۔ سکتے کی کیفیت طاری تھی۔ میری نانی مجھے رلانے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ میرا درد باہر آجائے۔ گھر والوں نے تدفین کے بعد ڈاکٹر کو بلایا۔ ڈاکٹر نے نیند کا انجکشن دیا۔ وہ وقت گزارنا انتہائی مشکل تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ اس وقت مَیں صرف لوگوں کو دیکھ رہی تھی لیکن اپنے غم کا اظہار نہیں پا رہی تھی۔ وہ سانحہ مَیں کبھی فراموش نہیں کرسکتی!
سیدہ نوشاد (کلوا، تھانے)
کم گو شخص اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا


موقع اور وقت کی نزاکت دیکھ کر جذبات کا اظہار کرنا بھی ایک فن ہے۔ مَیں بچپن ہی سے کم گو ہوں۔ اکثر و بیشتر اپنے جذبات کا اظہار نہیں پاتی ہوں۔ لوگ اکثر باتیں بڑھا چڑھا کر پیش کرکے محفل میں چھا جاتے ہیں اور مَیں دل میں آئے حقیقی جذبات کو بھی سامنے والے تک پہنچا نہیں پاتی۔ کسی کے کام، کردار، انداز اور شخصیت کو پسند کرنے کے باوجود اس کا اظہار نہیں کر پاتی۔ اگر کوئی شخص ناپسند ہو تب بھی اخلاقاً اس سے گفتگو کرتی ہوں۔ کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ اس سے صاف صاف سے کہہ دوں اور بتا دوں کہ مَیں اس کے بارے میں کیا سوچتی ہوں لیکن مَیں دوسروں کی دل شکنی نہیں کرنا چاہتی۔ اپنے سارے معاملات صرف اور صرف اللہ کے سپرد کر دیتی ہوں، اس طرح مجھے سکون مل جاتا ہے۔
جویریہ طارق (سنبھل، یوپی)
اس وقت عجیب کیفیت تھی
مَیں بہت چھوٹی تھی۔ خالہ کے انتقال کی خبر آئی تھی۔ مجھے شدید صدمہ پہنچا تھا۔ ماں بالکل خاموش ہوگئی تھی۔ خالہ کی تدفین کے بعد سب کو دیکھ دیکھ کر رونا آتا تھا مگر مَیں روئی نہیں تھی۔ اس وقت عجیب کیفیت تھی۔ اس صدمے کی شدت آج بھی محسوس ہوتی ہے۔
بنت الیاس (ممبئی)
شاید وہ میرا چہرہ دیکھ کر سمجھا ئیں مگر....


جذبات کسی اظہار کے محتاج نہیں ہوتے مگر حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ آپ اگر کسی سے محبت، احترام، عزت اور قدر کرتے ہیں تو اظہار کریں تاکہ ان کو بھی اس کا علم ہو اور آپسی تعلقات بہتر بنیں۔ کم گو لوگوں کے لئے یہ اظہار بڑا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں بولنے کی کیا ضرورت ہے، سب کو پتہ ہے، زیادہ اظہار کرنے سے اپنی قدر گھٹ جاتی ہے۔ بچپن میں بھائی بہن کے رشتے میں بے تکلفی ہوتی ہے، مگر گزرتے وقت کے ساتھ اس رشتے میں دوریاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ میرے ساتھ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ اپنے عزیزوں کے سامنے مَیں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتی ہوں۔ زبان سے کوئی لفظ ادا ہی نہیں ہوتا۔ مَیں منتظر رہتی ہوں کہ شاید میرے بھائی میرا چہرہ دیکھ کر میرے جذبات سمجھ جائیں گے۔ کاش! وہ دور پلٹ آئے جب بغیر بتائے میرے بھائی سب سمجھ جاتے تھے۔
رضوانہ رشید انصاری (امبرناتھ، تھانے)
منفی خیالات جذبات کو دل میں دبا دیتے ہیں


جذبات کا اظہار کرنا ہر کسی کے لئے آسان نہیں ہوتا۔ ہر کسی کی زندگی میں یہ مرحلہ درپیش ہے۔ کبھی نہ کبھی اسے اپنے جذبات کو ظاہر کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ دراصل ہمارے دل میں اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ پتہ نہیں سامنے والا ہماری بات سمجھے گا یا نہیں! اگر غلط سمجھ لیا تو رشتے میں تلخی پیدا ہوجائے گی۔ بعض دفعہ ہمارے جذبات سے زیادہ سامنے والا فرد ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے اور ہم اسے کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانا نہیں چاہتے ہیں۔ ذہن میں گردش کرنے والے اس قسم کے خیالات ہمارے جذبات ہمارے دل میں ہی دبا دیتے ہیں۔ انسان کو اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہئے۔ اس طرح انسان مضبوط ہوتا ہے۔ خود کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ آپسی رشتے مستحکم ہوتے ہیں۔
خان نائلہ ذاکر حسین (ساکی ناکہ، ممبئی)
بظاہر مَیں مطمئن نظر آتی ہوں لیکن
کچھ لوگوں کے جذبات چہرے ہی سے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ البتہ کچھ لوگ اپنے چہرے کے تاثرات سے کبھی کسی پر کچھ بھی ظاہر ہونے نہیں دیتے۔ دراصل ایسے لوگ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بہت مضبوط ہیں۔ ان کے اندر ٹھہراؤ ہوتا ہے۔ میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں جب وہ اپنے تعلیمی سفر پر گھر سے نکلتے ہیں تو ان کو رخصت کرتے ہوئے میں اندر سے بہت پریشان ہو جاتی ہوں لیکن اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتی ہوں۔ اس وقت مَیں مشکل میں پڑ جاتی ہے۔ بظاہر مَیں مطمئن نظر آتی ہوں لیکن دل میں ایک طوفان ہوتا ہے۔ بے چینی محسوس ہوتی رہتی ہے لیکن مَیں کسی پر کچھ بھی ظاہر نہیں کرتی۔
ایس خان (اعظم گڑھ، یوپی)
بتا نہیں سکتی تھی کہ کن حالات سے گزر رہی تھیں
جب میرا پہلا آپریشن ہونے والا تھا تب میری چھوٹی بیٹی ڈھائی سال کی تھی۔ اس کے تقریباً ۹؍ سال بعد میرا دوسرا آپریشن ہونے والا تھا۔ یہ میری اوپن ہارٹ سرجری تھی۔ مَیں بتا نہیں سکتی کہ اس وقت میری کیفیت کیا تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دوبارہ اپنوں کو دیکھ پاؤں گی یا نہیں! ایک عجیب سی کیفیت تھی دونوں آپریشن کے دوران۔ جاتے وقت ایک حسرت بھری نگاہ سے سب کو دیکھا اور رب کریم سے دعا کی کہ اللہ تو مجھے اپنے حفظ و امان میں رکھ۔ مَیں سارے معاملات اللہ کے سپرد کرکے آپریشن کیلئے روانہ ہوگئی۔ یہی وہ کیفیت تھی جس کا اظہار کرنا میرے لئے بہت دشوار تھا۔ میں بتا نہیں سکتی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا تھا اور میں کن حالات سے گزر رہی تھیں۔ الحمدللہ دونوں ہی بار میرے اللہ نے مجھے صحت و تندرستی کے ساتھ شفائے کاملہ سے نوازا۔ میں اپنے اللہ تعالیٰ کی بے انتہا شکر گزار ہوں۔
طلعت شفیق (دہلی گیٹ، علیگڑھ، یوپی)
اپنے جذبات کو بیان کرنے سے قاصر تھی


میرے خیال میں ایسا وقت ہر کسی کی زندگی میں ضرور آتا ہے۔ کبھی بہت زیادہ خوش ہونے پر انسان اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا تو کبھی بہت زیادہ غمگین ہونے پر۔ بات اس وقت کی ہے جب میں انجمن خیرالاسلام ڈی ایڈ کالج سے اپنا کورس کر رہی تھی اور اسی دوران ایک مقابلہ منعقد ہوا جو دینی معلومات پر تھا اور یہ مقابلہ تمام ڈی ایڈ کالجز کے درمیان تھا۔ ہم سبھی نے اس میں حصہ لیا اور خوش قسمتی سے اس خاکسار کو اول انعام سے نوازا گیا۔ جب مجھے اسٹیج پر انعامات اور سرٹیفکیٹ دیا گیا اس وقت میری حالت ایسی ہی تھی منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا، اور اپنے جذبات کو بیان کرنے سے قاصر تھی۔ اس وقت جذبات کی شدت سے میں کچھ بھی نہ کہہ سکی۔
نسیم رضوان شیخ ( کرلا ، ممبئی)
وہ میری زندگی کا بہترین وقت تھا


۲۶؍ جنوری ۲۰۱۹ء، دن ہفتہ۔ وقت صبح ۹؍ بجے۔ اسکول کا میدان۔ میدان میں اساتذہ، طلبہ اور مہمانان خصوصی۔ پرچم کشائی ہوچکی تھی۔ بچوں نے قومی ترانہ گایا۔ تقاریر پیش کیں۔ پھر اس کے بعد گزشتہ سال کے ایس ایس سی امتحان میں نمائندہ کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کو اعزازات سے نوازا گیا۔
 اناؤنسر نے مائیک اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اور اعلان کیا: اس تعلیمی سال کے لئے بہترین استاد (بیسٹ ٹیچر) کا ایوارڈ دیا جا رہا ہے مسز ناہید محمود خان کو۔ آپ پلیز اسٹیج پر تشریف لے آئیں۔ وہ میری زندگی کا بہترین وقت تھا۔ اپنے جذبات کا اظہار کیسے کروں سمجھ سے پرے تھا۔ اپنے پیشے سے عقیدت کی حد تک لگاؤ ہوگیا۔
ناہید رضوی (جوگیشوری، ممبئی)
جذبات اور زبان کے درمیان جنگ
انسانی زندگی جذبات و احساسات سے بھری ہوئی ہے، انسان ہر موڑ پر ہر لمحے کسی نئے جذبے کا اظہار چاہتا ہے، لیکن کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جب یہ جذبات دل کی گہرائیوں میں چھپ جاتے ہیں اور انہیں زبان پر لانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ہم کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ہم کہنے سے ڈرتے ہیں۔ جذبات کا اظہار چاہےوہ محبت کا ہو، دکھ کا ہو یا شکایت کا، اکثر یہ دشوار مرحلہ بن جاتا ہے۔ محبت کا احساس سب سے پیارا جذبہ ہوتا ہے، جب کسی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں لیکن دل کی بات زبان تک لانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے، دل چاہ رہا ہوتا ہے کہ سب کہہ دیا جائے لیکن خوف ہوتا ہے کہ شاید سامنے والا سمجھ نہ پائے یا شاید رشتوں کی ڈور ٹوٹ جائے۔ جذبات اور زبان کے درمیان یہ جنگ محبت تک محدود نہیں بلکہ اکثر دوستی، رشتہ داری، اور دکھ بھرے لمحات میں بھی محسوس ہوتی ہے۔ کئی دفعہ ہم اپنے قریبی رشتہ داروں اور گھر والوں سے بھی اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پائے، کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ یہ الفاظ رشتوں میں دوری نہ بڑھا دے، شاید ہم اپنی بات صحیح طور پر سمجھا نہ پائے۔ یہ ڈر ہمیں خاموش رہنے پر مجبور کرتا ہے، دل بھر جاتا ہے لیکن چپ رہتے ہیں۔ شاید ہم اس امید میں ہوتے ہیں کہ سامنے والا ہمارے جذبات کو بنا کہے سمجھ جائے۔
نغمہ نشاط فاطمی (مظفرپور، بہار)
اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی....
ہر انسان کی شخصیت مختلف جذبات و احساسات کا مجموعہ ہوتی ہے جنہیں وہ مختلف انداز میں ظاہر کرتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی اظہار مشکل ہوجاتا ہے اور ایسے میں انسان خاموش ہوجاتا ہے یا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے۔ تقریباً ۲۳؍ سال قبل جب مجھے پہلی بار حضرت محمدؐ کے دربار میں حاضری نصیب ہوئی تو دل انتہائی شرمندہ و غمزدہ تھا۔ زندگی بھر کی بے عملی اور گناہ یاد آرہے تھے۔ آقاؐ کی ذات پر زندگی لٹا دینے کی تمنّا تھی۔ آپؐ کے وسیلے سے رب کریم سے دین و دنیا کی بھلائی مانگنا چاہتی تھی گناہوں کی بخشش کروانا چاہتی تھی لیکن دل و دماغ ہوش و خرد قابو سے باہر ہوگئے تھے ایسے میں جذبات کا اظہار مشکل تھا آخر مَیں نے ہاتھ ادب سے باندھ لئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہاں سے رخصت ہوتے وقت دل کو سکون تھا کہ بے شک اللہ بخشنے والا ہے!
شیخ رابعہ عبدالغفور (ممبئی)
مَیں بے اختیار اپنے رب کے حضور جھک گئی


پچھلے سال موسم گرما کی تعطیلات میں میرے شوہر نے اچانک ارادہ کرلیا کہ بچوں کو دبئی کی سیر کروائی جائے۔ مجھے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی لیکن پتہ نہیں دل کے اندر کہیں بے چینی سی تھی۔ خوشی خوشی تیاریوں میں لگ گئے مگر بس دل مکمل طور پر خوش نہیں ہو پارہا تھا اور نہ اس بے قراری کی وجہ سمجھ میں آرہی تھی۔ ابھی ٹکٹ وغیرہ بک نہیں ہوئے تھے کہ ایک شام آفس سے واپسی پر میرے شوہر نے مجھے اکیلے میں بلا کر کہا کہ تم ناراض نہ ہونا لیکن مَیں نے دبئی کا پروگرام ملتوی کر دیا ہے۔ مجھے یہ سن کر کسی قسم کا کوئی دکھ نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا مَیں سوچ رہا ہوں کہ دبئی نہ جاکر ہم چاروں عمرہ کیلئے جائیں۔ یہ سننا تھا کہ میرا دل جو اتنے دنوں سے مضطرب و بے قرار تھا اس کو یوں قرار آگیا جیسے صحراؤں میں چپکے سے چلے باد نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے۔ مجھے سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ اتنی خوشی اپنے جذبات کا اظہار کس طرح کروں بس میری آنکھوں میں مارے مسرت کے آنسو آگئے اور مَیں بے اختیار اپنے رب کے حضور جھک گئی۔
رضوی نگار اشفاق (اندھیری، ممبئی)
فرسٹ کلاس پاس ہوئی ہو!
دسویں کا نتیجہ آیا تھا۔ مَیں خاندان کی پہلی لڑکی تھی جو اس مقام تک پہنچی تھی۔ بھائی دوڑتے ہوئے آیا اور پرنٹ بڑھاتے ہوئے کہا، فرسٹ کلاس پاس ہوئی ہو! اس وقت کچھ بھی کہہ نہیں پائی۔
مومن روزمین (کوٹر گیٹ، بھیونڈی)
بعض دفعہ ہم تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں


اپنوں سے سبھی کو محبت ہوتی ہے لیکن کچھ لوگ اپنے جذبات کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے رشتوں میں کئی قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس لئے رشتہ چاہے کوئی بھی ہو، اس کی مضبوطی کے لئے دوسروں کے سامنے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے رہنا چاہئے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم لوگ اپنے جذبات اور اپنے خیالات کو بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن کر نہیں پاتے یا تو ڈر جاتے ہیں یا پھر ہمیں اپنے جذبات کو بیان کرنا نہیں آتا اس طرح ہم سوچ کر ہی رہ جاتے ہیں یا پھر ہمیں یہ لگتا ہے کہ پتہ نہیں وہ میری بات کو سن کر کیا سوچے گا! اس طرح ہم سب اپنے جذبات کو اپنے اندر ہی چھپا لیتے ہیں اور اظہار نہیں کر پاتے۔ رشتوں میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا بے حد ضروری ہے۔ بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں جہاں پر انسان کو اپنے جذبات کا اظہار کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اپنے جذبات کو بیان کرنا بھی ایک فن ہے جو سبھی کو نہیں آتا جسے یہ فن آتا ہے وہ اپنے دل کی ساری باتیں کہہ سکتا ہے۔ رشتے احساسات و جذبات کا نام ہے مگر اسے برقرار رکھنے کے لئے ہمیں قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی قربانی لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔ احساسات و جذبات کا اظہار نہ کیا جائے تو دوسرا انسان ان کو سمجھ نہیں پاتا اور وہ اندر ہی اندر گھٹ کر رہ جاتا ہے بلکہ انسانی سوچ اور زندگی پر بھی اثر ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ اسی وجہ سے تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
نشاط پروین (شاہ کالونی، مونگیر، بہار)
ہم اپنے ہی جذبات کے ساتھ الجھ جاتے ہیں
زندگی میں کبھی کبھار ایسے لمحات آتے ہیں جب ہم اپنے جذبات کا صحیح طور پر اظہار نہیں کر پاتے۔ خاص طور پر خواتین کے لئے یہ ایک چیلنج ہوسکتا ہے، جب وہ اپنے دل کی بات کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔ یہ ہچکچاہٹ مختلف وجوہات کی بنا پر ہوسکتی ہے، جیسے کہ معاشرتی توقعات، خوف کہ دوسروں کی رائے کیا ہوگی، یا پھر اپنے جذبات کے اظہار میں ناکامی کا خوف۔ کبھی کبھار یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہی جذبات کے ساتھ الجھ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ انہیں الفاظ میں منتقل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسے وقت میں، ایک مؤثر راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے احساسات کو تحریر کی صورت میں بیان کرنے کی کوشش کریں۔ لکھنے سے ہمیں اپنے جذبات کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جب ہم اپنی سوچوں کو کاغذ پر اُتارتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم کس قدر گہری احساسات کے حامل ہیں اور ہم اپنے آپ کو بہتر طور پر سمجھنے لگتے ہیں۔ اس طرح، جذبات کے اظہار میں دشواریوں کا سامنا کرنے کے باوجود، ہم خود کو ایک نئے انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔ 
نصرت سمیع (شہر کا نام نہیں لکھا)
بیک وقت خوشی اور غم
ویسے تو میں ایک ایسی لڑکی ہوں جو بآسانی اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہوں چاہے خوشی ہو یا غم۔ لیکن میری عائشہ صدیقہ شریعت کالج سے فراغت کے وقت ایک طرف تو دوستوں سے جدائی کا غم تھا اور دوسری طرف عالمہ، فاضلہ بننے کی خوشی بھی بہت تھی۔ ایک ساتھ اس خوشی اور غمی کے موقع پر میرے لئے اپنے جذبات کا اظہار کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ میں ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ میں نہیں روؤں گی لیکن جس وقت میری سند میرے ہاتھوں میں دی گئی خود بخود آنکھوں سے آنسو آنا شروع ہوگئے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح ردعمل ظاہر کروں۔ اس کے بعد میں خوب روئی۔ بس میری زندگی کا یہی ایک لمحہ تھا جب مجھے اپنے جذبات کے اظہار میں دشواری ہوئی۔
ادیبہ رفیق (جوکھن پور، بہیری، بریلی)
اس وقت والدین سے کچھ کہہ نہیں پائی
شادی کے بعد حالات بدترین تھے۔ اس وقت والدین سے کچھ کہہ نہیں پائی۔ بہت کوشش کی لیکن ڈرتی تھی۔ ۳؍ سال کے بعد جب والدین کو حقیقت معلوم ہوئی تب انہوں نے اس رشتے کو ختم کر دیا۔
ایس انصاری (ممبئی)
تب اللہ سے کہہ دیتی ہوں


جذبات تو انسان کے انسان ہونے کی دلیل ہیں۔ آج انسان روبوٹ بن رہا ہے لیکن اس میں جذبات کی شمولیت سے قاصر ہے۔ جذبات ہماری زندگی میں رنگ بھرتے ہیں اس لئے ہمیں دوسروں کے بھی جذبات کا احساس کرنا چاہئے اور موقع محل کے اعتبار سے اپنے جذبات کا اظہار بھی کرنا چاہئے۔
الحمداللہ! اللہ نے مجھے ہمت عطا کی ہے کہ جذبات کے اظہار میں دشواری نہیں ہوتی۔ کسی نے کچھ اچھا كام کیا تو اسے سراہنا يا کسی کی نا انصافیوں پر تنبیہ کرنے میں مشکل نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی کچھ مواقع ایسے بھی آئے ہیں کہ پہلے میں نے اللہ سے رجوع کیا ہے پھر کسی معاملے میں رائے یا جذبات کا اظہار کیا ہے۔
ارجینا روش دھورو (بھیونڈی، تھانے)

جس کی وجہ سے طبیعت میں سنجیدگی آگئی


ہمارے دور میں زمانہ اتنا ایڈوانس نہیں تھا۔ والدین اور بچوں کے درمیان ’لحاظ‘ کی دیوار تھی۔ ہم براہِ راست اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرپاتے تھے جس کی وجہ سے طبیعت میں سنجیدگی آگئی۔ اس معاملے میں آج کا دور نہایت روشن خیال ہے۔ بچے بلا جھجک اپنے جذبات والدین سے شیئر کرتے ہیں اور مطمئن نظر آتے ہیں۔
انصاری یاسمین محمد ایوب (بھیونڈی، تھانے)
میری سمجھ میںنہیں آرہا تھا کہ....
بچپن سے لے کر اب تک کی زندگی میں مجھے جذبات کے اظہار میں ہمیشہ دشواری پیش آئی ہے۔ مَیں نے کبھی بھی کھل کر ان کا اظہار نہیں کیا ہے۔ خاص کر اپنے والد کی وفات پر۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں رؤں یا یوں ہی خاموش بیٹھی رہوں۔ اس وقت بہت پس و پیش میں تھی، ان سے جو شکایتیں تھیں اس کا اظہار کروں یا ان کی مغفرت کے لئے دعا مانگوں۔ یہ وقت میرے لئے بہت عجیب تھا۔ میں عجیب ہی کہہ سکتی ہوں۔ کیونکہ وفات کے بعد ہی سے نہیں بلکہ بچپن سے لے کر وفات تک بھی میں ان کی محبت اور شفقت سے محروم رہی ہوں۔ ایسے میں میں کسی بھی جذبے کے اظہار سے قاصر تھی۔
فردوس انجم (بلڈانہ، مہاراشٹر)
معاشرتی دباؤ اور ثقافتی توقعات
کئی معاشروں میں، خاص طور پر روایتی معاشروں میں، جذبات کے اظہار کو کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، مردوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مضبوط رہیں اور اپنے جذبات کو دبائیں، جبکہ خواتین کو اکثر یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے جذبات کو دوسروں کی خوشنودی کیلئے دبائیں۔ یہ معاشرتی دباؤ لوگوں کو اپنے حقیقی جذبات کا اظہار کرنے سے روکتا ہے۔ جذبات کا اظہار نہ کر پانا ایک عام مسئلہ ہے جس کے معاشرتی، نفسیاتی، اور ذاتی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ تعلقات اور خود شناسی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ جذباتی شعور کی ترقی، معاشرتی حمایت اور ماہرین سے مشاورت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے اور ایک خوشحال اور متوازن زندگی کی طرف قدم بڑھایا جاسکتا ہے۔
بنت مولانا اسرار الحق یوسفی (سیتامڑھی، بہار)
میری تعلیم اور شادی کی تیاری


میری شادی ۱۰؍ ویں کے بعد ہی طے ہوگئی تھی۔ مجھے آگے پڑھنا تھا اس کیلئے میں اپنے والدین سے کہنا چاہتی تھی کہ وہ ابھی شادی نہ کریں لیکن ان لوگوں کی خوشی اور تیاری دیکھ کر مَیں کچھ بول نہیں پائی۔ البتہ شادی کے بعد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
الوداعی تقریب کا منظر


۱۹۹۴ء کا سال یاد آرہا ہے۔ اسکول میں ۵؍ سال کی میعاد مکمل کرنے کے بعد وہاں سے دوسرے زون کے اسکول میں تبادلہ ہوگیا تھا۔ یہ لڑکیوں کا اسکول تھا اور کلاس کی ۴۰؍ سے بھی زائد بچیاں اپنے میں انوکھی تھیں۔ نئی ٹیچر ایک ہفتہ بعد میری جگہ چارج سنبھالنے والی تھیں۔ کلاس کی بچیوں کو جب میرے تبادلہ کا علم ہوا تو وہ اس قدر جذباتی ہوگئیں کہ اُن میں سے بیشتر آبدیدہ تھیں۔ میرے اعزاز میں ایک مختصر سی الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ پرنسپل اور ساتھی اساتذہ نے اپنے اپنے انداز میں میری اور میرے کام کی تعریف کرتے ہوئے تقاریر کیں۔ آخر میں مجھ سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے کہا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ میری نظریں اپنی کلاس کی بچیوں پر پڑیں اور بالخصوص جب ان کی آنکھوں کی جانب دیکھا تو میرے لئے کچھ بھی بولنا بہت ہی مشکل ہوگیا تھا۔ میری ساتھ بیٹھی میری ایک ساتھی نے اس کیفیت کو بھانپ لیا اور مجھےاشارہ کرکے فوراً باخبر کیا اور کچھ بولنے کیلئے کہا۔ خود کو سنبھال کر میں نے مختصر الفاظ میں اپنے احساسات کا اظہار کیا اور بچیوں کو آگاہ کیا کہ نئی ٹیچر ان کیلئے میری ہی طرح شفیق اور معاون ثابت ہوں گی۔ وہ کچھ لمحے تھے جب اپنے جذبات کا اظہار کرنا مشکل ہوگیا تھا۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
بوڑھی امّاں کی حالت


مَیں سڑک کے کنارے سے جارہی تھی۔ میری نگاہ ایک بوڑھی عورت پر پڑی۔ اس کی حالت بہت خراب تھی۔ مَیں اس کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن میرے اس تک پہنچنے ہی سے قبل اس کا انتقال ہوگیا۔ وہ بیچاری درد کی شدت کی تاب نہ لاسکی۔ اس وقت کوئی بھی اس کی مدد کیلئے آگے نہیں آیا۔ البتہ اس کے مرنے جب اس کے سامان کا جائزہ لیا گیا تو اس کے پاس کافی رقم ملی۔ نوٹوں کی گدی نظر آنے کے بعد کئی وارث سامنے آگئے۔ مَیں کہنا چاہتی تھی کہ تم لوگ کہاں تھے جب اس بوڑھی اماں کی حالت خراب تھی۔ اب لٹیرے آگئے ہیں اپنا حق جتانے۔ لیکن مَیں مجبور تھی اس لئے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرپائی۔ بس رب کریم سے دعا مانگی اور اپنی راہ لی۔
قاضی شازیہ رفیع الدین (دھولیہ، مہاراشٹر)
دل کی کیفیت آنسو میں بدل جاتی


ضلع پریشد کے ایک اسکول پر میرا تقرر ایک گریجویٹ ٹیچر کے طور پر ہوا ہے۔ ہر دوسرے سال مجھے جماعت ہفتم کے کلاس ٹیچر کے فرائض انجام دینے ہوتے ہیں۔ سال بھر میں مجھے بچوں سے اور بچوں کو مجھ سے بے حد لگاؤ ہوجاتا۔ جب میری طالبات اسکول چھوڑ کر دوسری درسگاہوں کا رخ کرتیں تو الوداعی تقریب کا وقت وہ وقت ہوتا جب مجھے اپنے جذبات کے اظہار میں سخت دشواری ہوتی۔ وہ وقت میرے لئے ایک عجیب سی اداسی سے بھرا ہوتا۔ ان کی معصوم مسکراہٹیں، چمکتی آنکھیں، اور وہ بے فکری کے لمحات جب کلاس روم میں وہ شور مچاتے یا سوالات کرتے، سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا۔ میں چاہتی تھی کہ اپنے دل کی گہرائیوں سے ان کیلئے دعائیں، نیک تمنائیں اور محبت کا اظہار کروں لیکن زبان ساتھ نہ دیتی۔ دل کی کیفیت آنکھوں کے راستے آنسو بن کر نکلنے لگتی۔ وہ لمحہ جب مجھے ان سے رخصت ہونا پڑتا، میرے لئے ایک نہ ختم ہونے والے دکھ کا سبب بن جاتا۔ وہ درد جو میرے دل میں گھر کر جاتا شاید کبھی لفظوں میں بیان نہیں ہوسکا۔
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)
بے حد دشواری پیش آئی


غم، نقصان اور نادانی کا مقابلہ کرنا ایک مشکل اور خوفناک عمل ہے لیکن اس سے زیادہ مشکل اس وقت در پیش ہوتی ہے جب ایسا کرنے کیلئے ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے، خواہ یہ نادانی ہم دوسروں کے بہکاوے میں آکر کر گزریں کیونکہ شیطان ہمارا ازلی دشمن ہے۔ غم کسی ایک احساس پر مشتمل نہیں ہوتا۔ یہ مختلف احساسات کا مرکب ہے۔ جیسے: صداقت کو تسلیم نہ کرنا، غصہ یا جذبات کو قابو میں نہ رکھنا، شاک لگنے یا حیران کن حالات سے خود کو باہر نہ نکال پانا، جرم اور نادانی سرزد ہو جانے کی صورت میں احساس ندامت اور شرمندگی محسوس نہ کرنا۔ یہ سب بے حد صبر آزما اور آزمائش کے دور سے گزارنے والا عمل ہے۔ ہمارا کسی ایسے شخص کے ربط میں چلے جانا جس کے سبب آپ کے دل و جان سے قریب کسی اپنے کو صدمہ پہنچے اور لامحالہ خود کے جذبات مجروح ہوں اور اس کے اظہار میں دشواری محسوس ہو بہت تکلیف دہ عمل ہے۔ میری زندگی میں بھی ایسے حالات اور واقعات رونما ہوئے ہیں جن کے اظہار کی ہمت نہیں ہوئی۔ ایسے حالات اور جذبات کو ظاہر کرنے میں احساس ندامت، خفت اور شرمندگی محسوس ہوئی۔ مجھے اعتراف جرم میں بے حد دشواری پیش آئی۔
ناز یاسمین سمن (پٹنہ، بہار)
نمایاں کامیابیاں اور خوشی کے جذبات


۲۰۱۰ء میں موبائل فون کا اتنا زیادہ استعمال نہیں تھا البتہ وہ پہلا ایسا سال تھا جب ایس ایس سی کا آن لائن نتیجہ دیکھا گیا تھا۔ میرے گھر والے میرا نتیجہ دیکھنے کیلئے بے تاب تھے۔ خوشی کی بات یہ تھی مَیں نے نہ صرف نمایاں کامیابی حاصل کی تھی بلکہ پورے ضلع میں اول مقام حاصل کیا تھا۔ یہ میری تعلیمی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی تھی مگر مَیں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرپائی۔ تعلیمی میدان میں مزید کامیابیوں کے سبب مجھے ۲؍ مرتبہ نیشنل سطح کے اعزاز سے نوازا گیا۔ لیکن اس وقت بھی مَیں اپنے جذبات کے اظہار سے قاصر تھی۔ حالانکہ میری اس کامیابی پر میرے سبھی اساتذہ فخر محسوس کررہے تھے لیکن مَیں نے صرف مسکراہٹ پر اکتفا کیا۔ اکثر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کرنا مشکل ہوتا ہے۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
ہر بیٹی اس لمحے سے گزرتی ہے


زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب جذبات کا اظہار مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب دل میں ہزاروں باتیں ہوتی ہیں مگر انہیں زبان پر لانا مشکل ہوتا ہے۔ یہ لمحے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ بعض اوقات خاموشی ہی سب سے بہتر ذریعہ ہوتا ہے اپنے اندر کے جذبات کا احترام کرنے کا۔ ہندوستانی معاشرہ میں ہر بیٹی اس لمحے سے گزرتی ہے۔ یہ لمحے تب آتے ہیں جب وہ کسی کے سامنے اپنی محبت، غم، یا خوشی کا اظہار کرنا چاہتی ہے مگر خوف، شرم یا معاشرتی توقعات اسے روک دیتی ہیں۔ کبھی کبھار، وہ اپنے والدین یا دوستوں کے سامنے اپنے خوابوں اور خواہشات کا اظہار نہیں کر پاتی کیونکہ اسے خوف ہوتا ہے کہ شاید وہ اسکی باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیں یا اسکے جذبات کو سمجھ نہ پائیں۔ یہ وقت لڑکی کیلئے نہایت نازک ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے اندر ایک طوفان محسوس کرتی ہے مگر اسے زبان پر لانے میں دشواری محسوس کرتی ہے۔ ایسے لمحات میں، اسے صبر اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے جذبات کو خود سمجھ سکے اور وقت کیساتھ انہیں مناسب انداز میں بیان کرسکے۔
تسنیم کوثر انصار پٹھان (کلیان، تھانے)
ابّا کا پوچھنا: ’’سب خیریت؟‘‘


جب پہلی بار سسرال سے واپس میکے آئی تو ابو نے جانچتی ہوئی نظر سے بہت اپنائیت سے پاس بٹھا کر پوچھا، سب خیریت؟ اور مَیں انہیں کیا بتاتی کیونکہ یہ کماتے نہیں تھے۔ اور رشتے کے وقت بتایا گیا تھا کہ جاب کرتے ہیں۔ لیکن میں ابو کو بتا نہیں پائی۔ ابو کا بھرم قائم رکھتے ہوئے مَیں نے انہیں کہا ہاں الحمدللہ بہت خوش ہوں۔ اور اللہ رب العزت نے اس صبر کا بدلہ مجھے بہت جلد عطا کیا، آج میرے شوہر اچھے عہدے پر فائز ہیں۔
عظمیٰ تجمل بیگ (مہاراشٹر)
۲؍ واقعات
میری زندگی میں دو بار ایسا وقت آیا کہ جذبات کے اظہار میں دشواری ہوئی۔ (۱) عید کا کپڑا آیا تھا۔ میں نے چپکے سے دو میٹر کپڑا قمیص کا اپنی سہیلی کے لئے الگ رکھ دیا۔ صبح جب امی نے دیکھا تو اس حرکت کے بارے میں گھر میں سب سے پوچھا، جب میرا نمبر آیا تو جذبات کے اظہار میں بہت دشواری ہوئی۔
(۲) اسکول کا زمانہ تھا۔ ایک دن اسکول بند کا بہانہ بنا کر گھر واپس آگئی۔ پھوپھا گھر پر تھے، ہم دو بہنوں سے (ایک پھوپھی ذات)  بولے، ابھی واپس چلو، دیکھتے ہیں کس لئے بند ہے۔ بہت مشکل وقت تھا۔ ڈر سے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پائی۔
سلمہ صلاح الدین (دربھنگہ، بہار)
زندگی کے نئے موڑ پر


زندگی میں کئی مواقع ایسے آتے ہیں جب انسان کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ کبھی یہ حالات کی نزاکت کی وجہ سے ہوتا ہے تو کبھی یہ اندرونی کمزوریوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اکثر لوگ اپنے جذبات کو دبائے رکھتے ہیں تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے یا وہ ان کے خیالات کا اندازہ نہ لگا سکیں۔ اس قسم کی صورتحال میں، جذبات کو الفاظ میں ڈھالنا ایک چیلنج بن جاتا ہے، اور اکثر اوقات ہم وہ نہیں کہہ پاتے جو ہم حقیقت میں محسوس کرتے ہیں۔ شادی کے بعد زندگی کے نئے تقاضے اور معاشرتی دباؤ جذبات کے اظہار میں مزید رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
نئے رشتوں میں توازن قائم کرنا، زندگی کے نئے موڑ پر خود کو ایڈجسٹ کرنا اور دوسرے شخص کے احساسات کو سمجھنا اکثر چیلنجنگ ہوتا ہے۔ ایسے میں اپنے دل کی بات کھل کر کہنا مشکل ہوسکتا ہے، کیونکہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں رشتے پر منفی اثر نہ پڑے۔ ان حالات میں جذباتی اظہار کی کمی سے رشتے میں دوری یا غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ 
شبنم سلمان پٹھان (پونے، مہاراشٹر)
جب ہم میاں بیوی منیٰ میں بچھڑ گئے


حج ۲۰۲۴ء کا معاملہ ہے۔ ہم میاں بیوی دونوں جمرات پر رمی کرکے ساڑھے ۹؍ بجے منیٰ آگئے تھے اور وہاں اپنا خیمہ تلاش کرتے کرتے تھک کر چور ہوگئے تھے۔ کوئی ہمیں خیمہ کا صحیح پتہ بتانے والا نہیں تھا۔ دونوں بھٹکتے بھٹکتے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے تھے۔ میرے شوہر شوگر کے مریض ہیں اور راستے میں ان کو کافی چوٹیں بھی لگ چکی تھیں اور میں بھی تھکتے تھکتے چور ہوگئی تھی اور مجھے کوئی راستہ بتانے والا نہیں تھا۔ میں تنہا ہی بھٹکتی رہی۔ پھر مجھے مہاراشٹر کے کچھ نوجوان ملے جنہوں نے مجھے بڑا احترام دیا اور مجھے دلاسہ دیا کہ اماں اپ پریشان نہ ہوں ہم آپ کو آپ کے خیمے میں پہنچائیں گے۔ میں شوہر کے بارے میں سوچ سوچ کر کافی پریشان تھی۔ ان بچوں کے سوالات کا صحیح سے جواب بھی نہیں دے پا رہی تھی اور غنودگی طاری تھی۔ اسی طرح سے انہوں نے مجھے وہیل چیئر پر بٹھایا اور میرے خیمے پر چھوڑ کے آئے۔ اس وقت میں اتنی زیادہ تھک چکی تھی اور جذباتی ہوچکی تھی کہ میں اپنے جذبات کو بیان نہیں کرسکتی تھی۔ اللہ اللہ کرکے میں اپنے خیمے میں رات کو سوا بارہ بجے پہنچی اور پتہ چلا کہ میرے شوہر بھی تھوڑی دیر پہلے بھٹکتے بھٹکتے وہاں پہنچ چکے ہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔
نجمہ طلعت (جمال پور، علی گڑھ)
آنکھوں میں صرف آنسو تھے
مَیں ایک ایسی لڑکی ہوں جو کبھی اپنے جذبات کو کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرپاتی اور میری اسی عادت کی وجہ سے بعض دفعہ لوگ مجھے غلط بھی سمجھ لیتے ہیں۔ جذبات کا اظہار نہ کر پانا انسان کو بعض دفعہ بہت مشکل میں ڈال دیتا ہے، انسان اندر ہی اندر گھوٹنے لگتا ہے جس کے سبب ذہن، صحت سب متاثر ہوتے ہیں۔ میں اپنے والدین سے بے انتہا محبت کرتی ہوں لیکن افسوس میں ۲۲؍ برس کی ہوچکی ہوں لیکن ان ۲۲؍ برسوں میں میں ان سے اپنی اس محبت کا اظہار کبھی نہیں کرسکی۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں مگر مَیں کبھی ان سے اظہار نہیں کرسکی۔ میں نے کئی دفعہ سوچا کہ میں ان سے کہوں، میں نے اپنی شادی کے وقت بھی سوچا کہ انہیں بتا دوں گی کہ میں آپ دونوں سے محبت کرتی ہوں مگر میری رخصتی کے وقت میرے آنکھوں میں صرف آنسو تھے۔ میں ان کو گلے لگا کر خوب روئی لیکن اپنی محبت کا اظہار نہیں کرسکی۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ضروری تو نہیں کہ ہر جذبات کا اظہار کیا جائے!
فائقہ حماد خان (ممبرا، تھانے)
مشکل ترین مرحلہ
ایک امتحان کے لئے بہت محنت سے تیاری کی مگر اس میں بیماری کے سبب شرکت نہیں کر پائی۔ اس وقت مجھے اپنے جذبات کو ظاہر کرنے میں دشواری پیش آئی تھی۔ کالج میں داخلہ لینے کیلئے تاخیر ہو جانے پر مجھے اپنے پسندیدہ کالج میں داخلہ نہ مل سکا۔ یہ ایک عام بات ہے مگر میرے لئے وہ وقت ایسا تھا جب میں کسی سے شکوہ نہیں کرسکتی تھی اور وہ وقت میرے لئے اپنے جذبات کو ظاہر کرنا ایک مشکل مرحلہ بن گیا تھا۔ زندگی میں کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے اپنے آپ کو ایسی جگہ پر پایا جہاں جذبات کا اظہار میرے لئے مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے اور کوشش کرنے کے باوجود میں اس مرحلہ کو پار نہیں کر پاتی ہوں۔
مریم مجاہد ندوی (اورنگ آباد، مہاراشٹر)
جب میرا داخلہ ہوا
۱۵؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کی وہ شام، جب بڑے بھائی کا فون آیا کہ جلدی سے اپنے سرٹیفکیٹ وغیرہ بھیجو تمہارا گریجویشن میں داخلہ کرانا ہے اور آج آخری تاریخ ہے، بہت ہی خوبصورت شام تھی۔ اگرچہ یہ کورس مکمل طور پر آن لائن رہا مگر پھر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اب مکمل ہوچکا ہے لیکن میرے لئے آگے بڑھنے کے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ جذبات کے اظہار کے لئے آنکھوں کا نمکین پانی میرا ساتھ بہت کم دیتا ہے لیکن بہرحال میری دیرینہ خواہش پوری ہونے پر بے انتہا خوشی کا موقع تھا جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔
بنت رفیق (جوکھن پور، بریلی)
کہنے سے گھبراتی تھی


بات جب جذبات کے اظہار کی آتی ہے تو بچپن سے لے کر بیس سال کی عمر کا دور ذہن میں تازہ ہوجاتا ہے۔ چار بھائیوں میں اکیلی بہن ہونے کی وجہ سے میرا پہناوا، شوق اور عادتیں بھی لڑکوں والی تھی۔ لڑکیاں آپس میں کیا بات کرتی ہیں یہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ میں بھی ان کے جیسا بننا چاہتی تھی۔ من میں تو بہت کچھ ہوتا تھا مگر کہنے سے گھبراتی تھی۔ اسکول میں اکثر میرے کلاس کی کچھ لڑکیاں میری ہنسی بھی اڑاتی تھیں۔ کبھی میں خاموش رہتی کبھی چھپ کے روتی تھی۔ اپنے جذبات بیان کرنے میں مجھے جھجک محسوس ہوتی تھی۔ دل کو ایک ہی آس تھی: ’’کاش! کوئی میری خاموشی کو سمجھتا۔‘‘ جب انہی جذبات کا بوجھ بڑھنے لگا تو میں نے ڈائری کا سہارا لیا اور اپنا دل ہلکا کر لیا۔
ہما انصاری (مولوی گنج، لکھنؤ)
اگلے ہفتے کا عنوان: معمر والدین کے ساتھ وقت گزارنا کیوں ضروری ہے؟ اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK