بیمار چاہے جو ہو پریشانی تو گھر کے سبھی افراد کو ہوتی ہے۔ لیکن اگر بیماریاں بچوں پر حملہ آور ہوں تو سب سے زیادہ پریشان مائیں ہوتی ہیں۔ ایسے میں اُن کی توجہ کا مرکز یہی تجربہ کار عمر رسیدہ خواتین ماں يا ساس کے روپ میں ہوتی ہیں۔ اِن کے بتائے ہوئے نسخوں میں وہ اپنا سکھ چین ڈھونڈتی ہیں۔
بزرگ خواتین کے بتائے نسخوں کے ذریعے آج بھی مائیں اپنے نومولود کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ تصویر: آئی این این۔
جنریشن گیپ ہر دور کا مسئلہ رہا ہے۔ اِس کے باوجود سمجھدار خواتین نے جہاں دیدہ افراد کی رہبری سے فائدہ حاصل کیا۔ آج ہم بات کر رہے ہیں اُن زمانہ شناس تجربے کار خواتین کی جنہوں نے حالات، واقعات اور مشاہدات کی روشنی میں ذاتی تجربات سے علم اخذ کیا اور دوسروں تک پہنچایا۔
ہمارے گھر اور اطراف میں موجود یہ دانا و بینا ہستیاں وہ ہیں جنہیں ہم نانی، دادی، خالہ، پھوپھو اور ممانی جان کے نام سے جانتے ہیں۔ اِن میں مائیں، ساسیں اور بڑی بہنیں بھی شامل ہیں۔ خونی رشتوں کے علاوہ ہمارے آس پڑوس میں کچھ ایسی مخلص خواتین بھی مل جاتی ہیں جو خدمت خلق کا جذبہ رکھتی ہیں اور دکھ بیماری میں اپنی بے لوث خدمات سے دوسروں کی تکالیف کا ازالہ کرتی ہیں۔ بیماریوں کے آسان گھریلو حل اور اُن سے چھٹکارے کی سبیلیں دراصل ہمارے بزرگوں کے بیتے ادوار کا ماحصل ہے۔ بیماریاں کبھی بول کر نہیں آتیں۔ یہ کہیں بھی کسی پر بھی نازل ہو جاتی ہیں۔ اِس لئے ان کا مقابلہ کرنے کی ہمت، درد کے مداوے کا ہنر اور نجات کا علم ہر بشر کو ہونا چاہئے۔ یہ اور اِس طرح کی معلومات ہماری کہنہ خواتین کے گنجینۂ خزانے میں موجود ہوتی ہیں۔ ہمیں اُن کے ذاتی طریقوں کا مناسب استعمال اور اُن کے اخذ کردہ علم پر عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ مشکل بالکل بھی نہیں ہوتا۔
روزمرہ کی عام بیماریاں : جیسے کہ بخار کھانسی، سردی زکام، پیٹ درد، سر درد، پیچس، قبض، چکر، متلی، الرجی وغیرہ وغیرہ.... جن کا سامنا اکثر و بیشتر سبھی کو کرنا پڑتا ہے۔ اِن کے زیر اثر افراد مختلف پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں اِس لئے فوری علاج پر زور دیا جاتا ہے۔
وجوہات: عام طور پر یہ بیماریاں انفیکشن سے پھیلتی ہیں۔ اِن کے لاحق ہونے کی کچھ نمایاں وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاً دھول مٹی، گرد و غبار، گندے پانی کا استعمال، ٹھنڈے مشروبات پینا، کھٹی ترش چیزوں کا حد سے زیادہ استعمال، بارش میں بھیگنا اور باہر کی کھلی چیزیں کھانا پینا وغیرہ بخار اور کھانسی کا سبب بنتے ہیں۔ یہی عناصر سردی زکام میں بھی مبتلا کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو کھانا اور کھاتے رہنا بہت پسند ہوتا ہے۔ حد سے زیادہ کھانا یا پھر جراثیم زدہ کھانوں کے استعمال سے بدہضمی پیدا ہوتی ہے۔ بسیار خواری طبیعت کو مضمل کرنے کی عام وجہ بنتی ہے۔ اِن کےعلاوہ بدلتا موسم، موسم کی شدت، نیا ماحول اور نئی فضا اِنسانی جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سر درد، بے چینی، چڑ چڑاپن اور اضمحلال وغیرہ اِس کی چند مثالیں ہیں۔
اثرات: اِس طرح کی بیماریاں مریض کے حواس خمسہ کو متاثر کرتی ہیں۔ آنکھ اور ناک سے پانی بہنا، کان میں درد، سانس لینے میں دشواری، گلے میں خراش، چکر آنا، بلڈ پریشر کا بڑھنا یا کم ہوجانا اور خارش وغیرہ ہونا۔
تدارک: بیماری چھوٹی ہو یا بڑی علاج میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ ڈاکٹری علاج کے ساتھ ہم اُن رہنما خواتین کے مشوروں پر عمل کرکے آسان طریقوں سے مرض کی شدت کو کم کرسکتے ہیں۔
بزرگوں کے آسان نسخے: سردی زکام ہونے پر شہد، ہلدی، لونگ، ادرک، سونٹھ اور اجوائن وغیرہ کا استعمال کرکے مرض کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اِن اشیاء کا علاحدہ علاحدہ اِستعمال شہد کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ کھانسی کے مرض میں شہد کا استعمال مفید ہے۔ ہلدی ملے گرم دودھ کی افادیت سے سبھی واقف ہیں۔ یہ گلے کی خراش میں مرہم کا کام کرتا ہے۔ پودینے کے پتوں کی بھاپ ہمارے سر درد کی شکایت کو دور کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ اکثر متلی اور قے ہونے پر لیموں کا عرق پلایا جاتا ہے یہ جلد اثر اور فائدے مند ثابت ہوتا ہے۔ گرمیوں میں تو اِس کا استعمال اکسیر مانا جاتا ہے۔ خارش کھجلی ہونے پر نیم کے پتوں سے نہانے کا چلن بھی برسوں پرانا ہے۔ اسکے علاوہ رسوئی گھر میں پائی جانے والی بیشتر اشیاء جیسے گوند، نیم، تلسی، گڑ، ملٹھی، دار چینی، ہینگ، سونف، دھنیا، وغیرہ وغیرہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ادویات کے طور پر بلا کسی پس و پیش کے استعمال ہوتی آئی ہیں۔ یہ اور اس طرح کے دیگر کارآمد چیزوں سے بنائے جانے والے نسخے فائدے مند اور راحت رساں ہوتے۔ اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو ہمیں اِن گھریلو اشیاء کی ایک لمبی فہرست دیکھنے کو ملے گی۔ جن کے استعمال اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ آج بھی چھوٹے بچوں کی بہتری اور نگہداشت میں جائفل اور شہد کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ بند ناک اور سینے کی جکڑن کیلئے ہماری دائی مائیں بچوں کو خصوصاً نومولود کیلئے زائفل، ملٹھی، سونف، اجوائن جیسی اشیاء کا استعمال کرتی ہیں۔ اس سے پیٹ پھولنا، گیس جیسی بیماریوں سے تحفظ مل جاتا ہے۔ اب تو کبھی کبھی ڈاکٹرز بھی اِن گھریلو ترکیبوں کے استعمال کی صلاح دیتے ہیں۔ ان میں سے زکام میں سادے پانی سے بھاپ لینا بھی شامل ہے۔ اِس طرح کے گھریلو علاج ہمارے بزرگوں نے ہمیں وراثت میں دیئے ہیں جو سلسلہ در سلسلہ جاری و ساری ہے۔
احتیاط: اِن بیماریوں سے نپٹنے کیلئے اور بزرگوں کے نسخوں پر عمل کرنے میں بھی سمجھداری کی ضرورت ہے۔ یہ نہ ہو کہ بنا سوچے سمجھے بس تقلید کرتی چلی جائیں۔ جن چیزوں یا باتوں کو عقل تسلیم نہ کرے اُنہیں چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔ ایسے حالات میں ایک طرح سے یہ ہماری بہوؤں، بیٹیوں کی ذہنی آزمائش ہوتی ہیں جنہیں یہ دیکھنا اور سمجھنا ہوتا ہے کہ وہ کتنا اور کس حد تک اپنے بڑوں کے تجربوں سے استفادہ کرسکتی ہیں۔ اِن محسن خواتین کے نسخوں کو بروئے کار لانا اور اِن پر عمل کرنا دراصل یقین کامل کا معاملہ ہے۔ اگر کسی بات کو تسلیم کرنے میں دِل و دِماغ آمادہ نہ ہوں تو در گزر کریں۔ لیکن خیال رہے کہ شائستگی اور ادب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اپنے بڑوں کا ادب کرنا ہماری تہذیب میں شامل ہے۔
یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہر بیماری کا علاج گھر ہی میں ہو جائے یہ ممکن نہیں لیکن بیماری کے بہانے ہی صحیح اگر اُن مہربان بزرگوں کو یاد کر لیا جائے جنہوں نے راتوں کی نیند اور دن کا چین کھو کر ہمارے لئے آسانیاں رکھ چھوڑی ہیں تو یہ اُن کے لئے خراج تحسین و عقیدت ہوگا۔