اس عمر کے بچے ذہنی اور جسمانی مسائل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بات کسی سے کہہ نہیں پاتے۔ ایسے میں ان کی باتوں کو ان کے مسائل کو پوری توجہ سے سنیں، انہیں تسلیم کریں اور ان کے مسائل کے حل میں ان کی مناسب مدد کریں۔ خاص طور پر اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ بڑے ہورہے ہیں اسلئے ان کے ساتھ بڑوں جیسے رویہ اپنائیں۔
بچے کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کریں۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے بچے کو قریب کیا جا سکتا ہے۔تصویر: آئی این این۔
بچوں کی بڑھتی عمر نہ صرف والدین کیلئے ایک پیچیدہ مسئلہ ہے بلکہ بچوں کیلئے بھی یہ ایک انتہائی نازک دور ہوتا ہے۔ نوعمر بچوں میں جہاں جسمانی تبدیلیاں ہوتی ہیں وہیں نفسیاتی اور جذباتی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں۔ جو بچوں کو ذہنی طور پر پریشان رکھتی ہیں۔ پل پل میں ان کے ارادے بدلتے ہیں۔ کبھی وہ خوش نظر آتے ہیں تو کبھی سوچوں میں گم۔ انہیں گروپ میں رہنا اچھا لگتا ہے تو کبھی تنہائی میں۔ ایسے میں والدین بھی بچے میں ہونے والی ان تبدیلیوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور وہ ان کی صحیح رہنمائی نہیں کر پاتے۔ جس کی وجہ سے بچوں کے مزاج میں چڑچڑا پن شامل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دوسرے مسائل بھی سر اٹھانے لگتے ہیں جیسے:
اپنی ذات کی اہمیت میں کمی اور زیادتی جسے ’سلیف اسٹیم‘ بھی کہتے ہیں، تناؤ اور ڈپریشن، تعلیمی مسائل، برقی آلات کا زیادہ استعمال، ہم عمر گروپس میں رہنا، مقابلہ بازی کی طرف مائل ہونا، ہم عمر بچوں کا دباؤ، گروپس کی قیادت کرنے کا رجحان، بڑے ہونے کا رعب جمانا، تحکم بھرے لہجے کا استعمال، اپنی بات منوانے کا رجحان، عبادت اور دینی کام میں کوتاہی، اپنی مرضی کو فوقیت دینا، پسند اور نہ پسند کا اظہار کرنے میں ہچکچانا، شرم محسوس کرنا۔ ایسی کئی تبدیلیاں نوعمر بچوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جس سے والدین، خاص طور پر ماؤں کو پریشانی ہوتی ہیں اور بچے خود بھی اپنے آپ میں ہونے والی ان تبدیلیوں سے ذہنی طور پر اذیت محسوس کرتے ہیں ۔ لیکن وہ سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ یہ عمر کے لحاظ سے ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ ایسے میں والدین کی ذمہ داری بہت بڑی ہے۔ خاص کر مائیں بچوں کی ان تبدیلیوں سے پریشان ہوتی ہیں کیونکہ بچوں کا سامنا ماں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اسلئے مائیں نوعمر میں بچوں کی تربیت اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کا بغور مشاہدہ کریں اور ان کی مثبت رہنمائی کریں:
آپسی رشتہ مضبوط بنائیں
اس عمر میں بچے کو ان کے جسم میں آنیوالی تبدیلیوں اور ان کے متعلقہ شرعی احکامات سے آگاہ کریں۔ ان کے ذہن کو ان تبدیلیوں کا مناسب طریقے سے سامنا کرنا سکھائیں تاکہ وہ ان سے خوف زدہ ہو کر کسی ذہنی الجھن کا شکار نہ ہو۔ بچے کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کریں۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے بچے کو قریب کیا جا سکتا ہے۔
بچوں کے مسائل کو سنیں
نوعمر بچے ذہنی اور جسمانی مسائل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بات کسی سے کہہ نہیں پاتے۔ ایسے میں ان کی باتوں کو ان کے مسائل کو پوری توجہ سے سنیں، انہیں تسلیم کریں اور ان کے مسائل کے حل میں ان کی مناسب مدد کریں۔
بڑے ہونے کا احساس دلائیں
نوعمر بچوں میں یہ مسئلہ کافی پیچیدہ ہے۔ اس عمر میں بچے اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ اب انہیں بچہ نہ سمجھا جائے بلکہ بڑا گردانا جائے۔ اس حالت میں والدین کو چاہئے کہ ان کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان سے بڑے جیسا سلوک کریں۔ گھر کے چھوٹے بچوں سے انہیں بڑا کہلوائیں، اس سے کافی مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔
ان کی بات کو اہمیت دیں
اس عمر میں بچوں کو لگتا ہے کہ ان کی بات مانی جائے۔ اس لئے والدین اس بات کا خیال رکھیں کہ گھر کے یا دیگر کام کے مشوروں میں انہیں شامل کریں، ان کی رائے معلوم کریں، ان کو عزت دیں اور احترام سے پیش آئیں، اس سے ان میں بھی عزت و احترام کا جذبہ پروان چڑھے گا۔ جس کے کافی مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
ذمہ داری سونپیں
گھر میں چونکہ بہت کام ہوتے ہیں اس لئے انہیں مخصوص کام کی ذمہ داری دیں جیسے سودہ سلف لانا، بل جمع کرانا، کسی تقریب کی شاپنگ کا کہنا وغیرہ۔ شروع میں ان سے غلطی ہوسکتی ہے۔ اسے نظر انداز کریں۔ اس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی۔ وہ کسی نتیجے پر پہنچنا سیکھے گا، ساتھ ہی احساس ذمہ داری بھی پیدا ہوگی۔
حوصلہ دیں، تنقید سے بچیں
اکثر والدین بچوں کے کئے گئے کام کی ستائش نہیں کرتے۔ یہ ایک اہم اور ضروری عمل ہے۔ نوعمر بچوں کی حوصلہ افزائی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔ ساتھ ہی ان کی پسند، نا پسند اور دوستوں کے ساتھ مثبت برتاؤ کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
بچوں کی ذہنی صحت کا خیال رکھیں
والدین کو چاہئے کہ وہ بچے سے پیار و محبت و شفقت والا رویہ اختیار کریں۔ جہاں تک مناسب ہے وہاں تک ہر بات کو محبت سے حل کرنے کی کوشش کریں، بچے کی بے جا فرمائش کو رد بھی کریں، انہیں بتائیں کہ ہر خواہش پوری نہیں ہوتی، مناسب سختی بھی ضروری ہے۔ اس کہاوت کی طرح بچوں کو کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ سے۔ نوعمر بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کا معاملہ ان کی ذہنی صحت پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔