• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بزرگوں کی تنہائی دور کرنے والی۲؍ ہند نژاد بہنیں

Updated: January 12, 2023, 12:10 PM IST | MUMBAI

ہند نژاد ۲؍ امریکی بہنیں دُنیا بھر کے بزرگوں کو خط لکھ کر ان کی تنہائی دور کر رہی ہیں۔ وہ کورونا وباء کے آغاز سے اب تک ۱۵؍ لاکھ خطوط لکھ چکی ہیں۔

Through their letters, Shreya and Safran tried to instill hope in lonely elders; Photo: INN
شریا اور سیفران نے اپنے خطوط کے ذریعے تنہائی کا شکار بزرگوں میں اُمید جگانے کی کوشش کی; تصویر:آئی این این

ہند نژاد ۲؍ امریکی بہنیں دُنیا بھر کے بزرگوں کو خط لکھ کر ان کی تنہائی دور کر رہی ہیں۔ وہ کورونا وباء کے آغاز سے اب تک ۱۵؍ لاکھ خطوط لکھ چکی ہیں۔ دراصل میساچوسٹس سے تعلق رکھنے والی شریا پٹیل اور ان کی چھوٹی بہن سیفران ۲۰۲۰ء کی ابتداء میں کورونا کے دوران اپنے دادا دادی سے دور رہیں۔ اس دوران ان دونوں بہنوں نے اپنے دادا دادی کو خوش رکھنے کے لئے ویڈیو کال کرنا شروع کیا لیکن شریا کو احساس ہوا کہ کہیں کوئی کمی ہے۔
اَگینسٹ آئسولیشن نامی تنظیم کا آغاز
 شریا کہتی ہیں کہ ’’ہم روزانہ دادا دادی کو کال اور میسیج کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ خود کو تنہا محسوس کرتے تھے۔ ایک دن میری دادی کی ایک سہیلی نے انہیں خط لکھا۔ یہ وہ خط تھا جس نے ’’لیٹر اَگینسٹ آئسولیشن‘‘ تنظیم کی شروعات میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تنظیم نے ۷؍ ممالک میں ۵؍ لاکھ سے زائد لوگوں کو خط لکھنے کی ترغیب دی۔ گزشتہ ۲؍ برسوں میں ان کی تنظیم نے ۱۵؍ لاکھ خطوط بھیجے ہیں۔ اس کام کیلئے انہیں ۲۰۲۲ء میں ’’ڈائنا ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔
ایک ہفتے میں ۲۰۰؍ بزرگوں کو خط لکھے
 شریا کہتی ہیں کہ ’’ہم نے محسوس کیا کہ خطوط کے ذریعے ہم تنہائی کا شکار بزرگوں میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اولڈ ایج ہومز اور کیئر ہومز میں رہنے والے بزرگوں کو خطوط، آرٹ ورک اور مثبت پیغامات بھیجنا شروع کر دیئے۔ جلد ہی وہ بزرگوں میں مقبول ہوگئیں۔ شریا کہتی ہیں، ’’ایک ہفتے کے اندر ہم نے ۲۰۰؍ سے زیادہ بزرگوں کو خط لکھے تھے۔ پھر ہمیں مدد کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔‘‘
 وہیں جن لوگوں کو یہ خطوط ملے ان کی زندگی اور جینے کے انداز بدل گئے۔ شریا مزید کہتی ہیں، ’’اس دوران ہمیں معلوم ہوا کہ یہ بزرگ نہ صرف خطوط سنبھال کر رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھاتے ہیں۔ وہ انہیں اپنے گھروں میں سجاتے ہیں، انہیں بار بار دیکھتے ہیں اور پڑھ کر ان سے تحریک حاصل کرتے ہیں۔‘‘
 دونوں بہنوں کی مہم کامیاب رہی۔ ابتداء کے ۲؍ ماہ میں ان کے خطوط نے امریکہ کی ۱۱؍ ریاستوں کے بزرگوں میں اُمیدیں جگائیں۔ ان دونوں بہنوں کی بڑھتی مقبولیت کے سبب انہوں نے اپریل ۲۰۲۰ء میں’’لیٹر اَگینسٹ آئسولیشن‘‘ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
دائرہ وسیع ہوتا گیا
 اب اس تنظیم کے پوری دنیا میں ۴۰؍ ہزار سے زیادہ رضاکار ہیں۔ ان کے ذریعے تنہائی کا شکار بزرگوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہے۔ امریکہ کے علاوہ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور اسرائیل میں ۱۰؍ لاکھ سے زائد جبکہ دیگر ممالک میں ۵؍ لاکھ بزرگ خطوط موصول ہونے کے بعد اپنے اندر مثبت تبدیل محسوس کر رہے ہیں۔
 شریا کہتی ہیں، ’’فی الحال پوری دنیا کی صورتحال تبدیل ہوئی ہے۔ اب بزرگ آزادی سے لوگوں کے ساتھ گھل مل رہے ہیں لیکن تنہائی کا مسئلہ اب بھی برقرار ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جو کورونا سے پہلے بھی ہمارے درمیان موجود تھا اور آگے بھی رہے گا۔ اس پہل کے بعد شریا اور سیفران ملک اور دنیا میں مشہور ہوگئی ہیں۔ وہ امریکی صدر بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کی افتتاحی کمیٹی کی تقریبات کی میزبانی کر چکی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے بھی انہیں مدعو کیا ہے۔ یہ تنظیم تیزی سے بلندی کی جانب جا رہی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے ’’اسٹامپ فنڈ‘‘ کا آغاز کیا ہے تاکہ رضاکاروں کو پیسوں کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ بزرگوں کو خط لکھتے رہیں۔
ڈائنا ایوارڈ
 اس انوکھی مہم کو دنیا کے ۲۵؍ اعلیٰ ترین عالمی اخبارات جیسے نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ وغیرہ نے سراہا ہے۔ جانسن اینڈ جانسن جیسی بڑی کمپنیاں اب دونوں بہنوں کے ساتھ تقریبات منعقد کرتی ہیں۔ معاشرے کیلئے اس بے مثال تعاون کی وجہ سے شریا پٹیل کو ۲۰۲۲ء کیلئے ’’ڈائنا ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ واضح ہو کہ ہر سال شہزادی ڈائنا کی یاد میں یہ ایوارڈ ان بچوں اور نوجوانوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے معاشرے کیلئے کچھ اچھا کیا ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK