جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا کے اسسٹنٹ پروفیسر وقار تیلی کا کہنا ہے کہ عصری اور دینی تعلیم کے درمیان کوئی دیوار نہیں کھڑی کی جانی چاہئے
EPAPER
Updated: August 09, 2022, 12:55 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا کے اسسٹنٹ پروفیسر وقار تیلی کا کہنا ہے کہ عصری اور دینی تعلیم کے درمیان کوئی دیوار نہیں کھڑی کی جانی چاہئے
قارئین کرام!روزنامہ انقلاب کے تحت جاری ’تعلیم نامہ‘ کی اس سریز کی چھٹی قسط کے ساتھ ہم آپ کے روبرو ہیں۔ اس سلسلے کے تحت ہم مختلف تعلیمی موضوعات ، تعلیمی اداروں کے تعارف اور تعلیمی شخصیات کے ساتھ آپ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ ہمارے مہمان ہیں ہندوستان کے معروف تعلیمی ادارے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم ، اکل کوا کے اسسٹنٹ پروفیسر وقار اویس تیلی صاحب۔ اس گفتگو میں وقار صاحب نے نہ صرف اپنے ادارے میں جاری تعلیمی سرگرمیوں اور ادارے کے سربراہ مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کے عزائم کا ذکر کیا بلکہ طلبہ کو بہت ساری مفید اور کارآمد باتیں بھی بتائیں۔
وقار صاحب! سب سے پہلے میں آپ سے آپ کے ادارے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کی اُن خوبیوں کے بارے میں جاننا چاہوں گا جس کی وجہ سے اس کی شہرت صرف وطن عزیز ہی میں نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پربھی ہے۔
وقار اویس تیلی: جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم دراصل ہمارے بڑے حضرت مولانا غلام محمد وستانوی کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ وہ مسلمانوں میں تعلیم کا کچھ ایسا نظم چاہتے تھے کہ قوم کے نوجوان دین اور دنیا دونوں محاذ پر سرخروئی حاصل کریں۔ان کی پہلی کوشش یہی تھی کہ عصری تعلیم کے ساتھ ہی دینی تعلیم اور دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا انتظام ہو ۔ ہمارے حضرت اگر کوئی خواب دیکھتے ہیں تو دیکھ کر خاموش نہیں رہ جاتے بلکہ اسے حقیقت کی زمین پربھی اُتارنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ان کوششوں میں انہیں اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد بھی حاصل رہتی ہے، اسلئے وہ اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم بنیادی پر ایک مدرسہ کیمپس ہے۔ یہاں پر طلبہ کو دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کا قیام بہت پہلے عمل میں آیا تھا۔ جب اس محاذ پر ادارہ کامیابی کی ایک منزل پر پہنچ گیا توہمارے بڑے حضرت نے عصری علوم کی جانب رُخ کیا۔ اس کے تحت آئی ٹی آئی سے لے کر فارمیسی اور پھر ایم بی بی ایس تک کے ادارے کھولے گئے۔ آج کے زمانے میں ایم بی بی ایس کالج کھولنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم نے یہ بھی کردکھایا۔اسی طرح فارمیسی کے شعبے میں ڈی فارم سے لے کر بی فارم، ایم فارم اور پی ایچ ڈی تک انتظام کیاگیا۔ ٹیکنیکل ایجویشن میں آئی ٹی آئی سے لے کر پالی ٹیکنک اور بی ای انجینئرنگ کے کالج کھولے گئے۔ایجوکیشنل کورسیز میں اردو اور مراٹھی میڈیم سے ڈی ایڈ اور بی ایڈ کے بھی کورسیز شروع کئے گئے۔ مطلب یہ کہ ایک ہی چھت کے نیچے ہر طرح کی تعلیم کاانتظام کیاگیا اور دینی اوردنیاوی تعلیم کو متوازی انداز میں چلایا گیا۔
جامعہ اشاعت العلوم کا جو مشن ہے، وہ بلاشبہ قابل تعریف ہے۔ ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں طلبہ کو ملنے والی کچھ کامیابیاں بھی بتائیں؟
وقار تیلی:ہمارے جو طلبہ مدرسے میں زیرتعلیم ہیں، وہ عربی میں حفظ، عالمیت، فضیلت اور افتاء کی تعلیم کے ساتھ ہی بین الااقوامی اہمیت کے حامل کورس بھی کررہے ہیں۔ اسی طرح ۳۰؍ سال سے زائد عرصے سے آئی ٹی آئی اور ۲۰؍ سال سے پالی ٹیکنک کے کورس چل رہے ہیں۔ یہاں کے فارغ التحصیل طلبہ صرف ملک ہی میں نہیں بلکہ بیرون ملک بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ادارے کے ساتھ ہی ملک و قوم کا نام روشن کررہے ہیں۔
ابھی آپ نے تعلیم کو متوازی انداز میں چلانے کی بات کہی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا ایک طالب علم عالمیت اور فضیلت کے ساتھ ہی انجینئرنگ اور ڈاکٹری کی تعلیم بھی حاصل کررہا ہے ؟ یا کچھ اور کہنا چاہ رہے ہیں؟
وقار تیلی: جی ہاں! اگر کوئی طالب علم عصری تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے کالج میں داخل ہوا ہے تو ذمہ داران اس کی اس بات کیلئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اس کے ساتھ ہی دینی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی طالب علم دینی تعلیم کیلئے آیا ہے تو اس کیلئے عصری تعلیم کا بھی نظم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان طلبہ کیلئے الگ سے ٹائم ٹیبل بنایا جاتا ہے اور ان کیلئے اساتذہ مہیا کرائے جاتے ہیں۔
آج مقابلہ جاتی امتحانات کی بڑی اہمیت ہے، کیا آپ کے یہاں اس کا کوئی نظم ہے یا وہاں کے طلبہ اپنے طورپر ان امتحانات کیلئے خود کو تیار کرتے ہیں؟
وقار تیلی:اس ضرورت کو ہم نے بھی محسوس کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ’بی فارم‘ کے ڈپارٹمنٹ میں ’یو پی ایس سی‘ کی کوچنگ کا اہتمام کیاگیا ہے۔اسی طرح مدرسے میں بھی ورکشاپ کے انداز میں طلبہ کی تربیت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ میں تجارت کا رجحان پیدا کرنے کیلئے ایک اور ورکشاپ کااہتمام کیا جاتا ہے جس میں طلبہ خود تجارت کے مختلف آئیڈیاز پیش کرتے ہیں جس پر وہاں موجود ماہرین ان کی رہنمائی کرتے ہیں اور اُن آئیڈیاز کو قابل عمل بنانے کاطریقہ بتاتے ہیں۔
ہمارے یہاں ایک بڑا مسئلہ معاشی پریشانی کا ہوتا ہے۔ یقینی طور پر آپ کے یہاں زیر تعلیم طلبہ بھی ان مسائل سے جوجھتے ہوں گے۔ کیا ان کیلئے کوئی انتظام ہے؟
وقار تیلی: ہاں بالکل! سرکاری طورپر جتنے بھی اسکالرشپ دستیاب ہیں، ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے طلبہ ان سے بھرپور استفادہ کریں اور اپنی معاشی پریشانیوں کو دور کریں۔ اس کے علاوہ اگر کسی طالب علم کے تعلق سے کچھ اسپیشل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو ہمارے حضرت اس کیلئے بھی انتظام کرتے ہیں اور اس کی فیس میںرعایت کی گنجائش نکالتے ہیں۔
طلبہ کو آپ کچھ پیغام دینا چاہیںگے؟
وقار تیلی:میں طلبہ سے یہی کہنا چاہوں گا کہ وہ اپنی زندگی کا ایک ہدف طے کریں اور پھر اسے حاصل کرنے کی بھرپور جدوجہد کریں۔ جہاں سے اور جس طرح سے بھی علم ملے،اسے حاصل کریں۔ تعلیم میں دین اور دنیا کا امتیاز نہ کریں بلکہ اس کے درمیان کوئی دیوار نہ کھڑی ہونے دیں۔