جب آپ اپنے بچوں کو رات کا کھانا کھانے کے بعد دسترخوان اٹھانے یا ڈائننگ ٹیبل صاف کرنے یا پھر جب انہیں میلے کپڑے واشنگ مشین میں ڈالنے کے لئے کہتی ہیں تو ان کا ردِعمل کیا ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: January 16, 2023, 11:07 AM IST | Mumbai
جب آپ اپنے بچوں کو رات کا کھانا کھانے کے بعد دسترخوان اٹھانے یا ڈائننگ ٹیبل صاف کرنے یا پھر جب انہیں میلے کپڑے واشنگ مشین میں ڈالنے کے لئے کہتی ہیں تو ان کا ردِعمل کیا ہوتا ہے۔
جب آپ اپنے بچوں کو رات کا کھانا کھانے کے بعد دسترخوان اٹھانے یا ڈائننگ ٹیبل صاف کرنے یا پھر جب انہیں میلے کپڑے واشنگ مشین میں ڈالنے کے لئے کہتی ہیں تو ان کا ردِعمل کیا ہوتا ہے۔
اگر وہ اپنے ردِعمل میں بیزاری، چڑچڑا پن یا پھر شور مچانا شروع کردیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں گھر کے کام بورنگ لگتے ہیں۔ تاہم، آپ کو بچوں سے گھر کے چھوٹے موٹے کام کروانے چاہئیں۔ جاننا چاہتی ہیں کیوں؟ کیونکہ جو بچے گھر کا کام کرتے ہیں وہ آگے چل کر کامیاب شخص ثابت ہوتے ہیں۔
جولی لیتھ کوٹ ہائمز نامی محقق کے مطابق، جن بچوں سے گھر کا کام کروایا جاتا ہے ان میں یہ احساس پیدا ہونے لگتا ہے کہ یہ کام زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔
جب والدین ان کے حصے کا کام کرتے ہیں تو بچوں کے ذہن میں یہ بات گھر کرنے لگتی ہے کہ اگر کوئی دوسرا ان کے کام کرے تو اس میں کوئی حرج یا بری بات نہیں اور یوں وہ اس بات کو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ گھر کے کام کس قدر اہمیت رکھتے ہیں اور یہ کہ کس طرح ’تمام افراد کی بھلائی‘ کے لئے ہر ایک کو گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا چاہئے۔
جولی کے مطابق، ’’جو بچے گھر کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں وہ آگے چل کر اچھے ملازمین ثابت ہوتے ہیں، ان کا اپنی ٹیم کے ساتھ بہتر تعاون قائم رہتا ہے اور دیگر افراد کی طرف ہمدردانہ رویہ پیدا ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ انہیں تن تنہا مختلف کاموں کا ذمہ اٹھانے میں کسی قسم کا ڈر بھی محسوس نہیں ہوتا۔‘‘
چنانچہ بچوں کی تربیت کے دوران انہیں گھر کے چھوٹے موٹے کاموں سے دور نہ رکھیں۔ بچوں کی تربیت کا یہ طریقہ بچوں کو اپنے اندر صلاحیتیں پیدا کرنے اور ان میں نکھار لانے سے روک سکتا ہے۔
جو والدین اپنے بچوں کی زندگیوں یا ان کی پرورش میں زیادہ عمل دخل نہیں کرتے، ان پر اکثر لوگوں کی توجہ مرکوز رہتی ہے۔ بالکل ایسا ہونا چاہئے لیکن ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ جو والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بار بار عمل دخل کرتے ہیں اور جو یہ مانتے ہیں کہ بچے اس وقت تک کامیاب انسان نہیں بن سکتے جب تک والدین ہر موڑ پر ان کا تحفظ اور غلطیوں سے باز نہ رکھیں تو ایسے والدین بھی ایک طرح سے لاشعوری طور پر بچوں کی شخصیت کو کافی نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں کیونکہ ایسے بچے، کسی بھی کام کو تنہا انجام دینے سے گھبراتے ہیں۔
فکریں تو تمام ہی والدین لاحق ہوتی ہیں لیکن بچوں کو ہر جگہ آپ کے حد سے زیادہ تحفظ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر آپ کا بچہ کوئی چیلنج قبول کرنا چاہتا ہے تو انہیں ایسا کرنے دیں اور انہیں چیلنجز کا سامنا کرنے دیں۔ اپنے بچوں کو تحفظ ضرور دیں مگر انہیں حالات کا سامنا کرنا بھی ضرور سکھائیں۔ اگر والدین ہمیشہ بچے کی ڈھال بنے رہیں گے تو وہ زندگی کے سرد و گرم کا سامنا نہیں کر پائیں اور ہمت ہار جائیں گے۔ لہٰذا انہیں زندگی کے اہم اسباق کا درس دیں۔ یہی آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔