• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جہیز: ہمارے معاشرے کا رویہ افسوسناک

Updated: December 13, 2023, 12:18 PM IST | Nargis Khan Rizvia | Mumbai

اس کی روک تھام کیلئے معاشرے میں دینی ماحول پیدا کرکے اسلامی احکام کی عظمت و اہمیت دل و ذہن میں اتارنا ضروری ہے۔ اس بات کو پہنچایا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طور پر اپنی دنیا بھی سنواری جائے اور آخرت بھی۔

Instead of spending huge amount on dowry in marriage, prefer simplicity. Photo: INN
شادی میں جہیز پر خطیر رقم خرچ کرنے کے بجائے سادگی کو ترجیح دیں۔ تصویر : آئی این این

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی تعلیمات مشعل راہ ہیں ۔ اسلام نے زندگی کے جملہ شعبہ جات کیلئے نظام اعتدال و توازن پیش کیاہے۔ شریعت اسلام کااحاطہ زندگی کے کسی زاویے یا زمانے تک محدود نہیں بلکہ اس میں پوری انسانی زندگی کے لئے توسع ہے۔ یہی قانون اسلام ہے جس پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنی دنیا اور آخرت سنوارسکتا ہے۔ مگر حیف صد حیف! ہم اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ اس معاشرے کو مغربی تہذیب و تمدن نے اپنی چپیٹ میں لے لی ہے۔ ہمارے معاشرہ کی رگ و پے میں خود غرضی، مطلب پرستی، غیبت وچغلی، جھوٹ و فحش گوئی ہر طرح کی برائیاں گھر کر گئی ہیں ۔ انہی برائیوں میں ایک برائی جہیز ہے۔ بہت ساری لڑکیاں غربت و افلاس کی وجہ سے رشتۂ ازدواج کے بندھن میں نہیں بندھ پاتی۔ جہیز کی رسم ہمارے سماج کے لئے ناسور بن گئی ہے۔ جہیز کے نام پر بیٹیوں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ اسی وبال کی وجہ سے سیکڑوں بیٹیاں گوں نا گوں مصائب سے دوچار ہیں۔
جہیز نہ دینے پر سسرال والے ناراض ہوجاتے ہیں۔ جہیز کم لانے پر بیٹیوں کو زندگی بھر طعنہ دیا جاتا ہے۔ وہ بہوئیں جو زیادہ جہیز لاتی ہیں ان کی سسرال میں کافی عزت کی جاتی ہے۔ انہیں دوسری بہوؤں پر ترجیح دی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے گھر میں نااتفاقی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے گھر میں آئے دن جھگڑے لڑائی ہوتے ہیں۔
علی الصباح اخبار بینی کی جائے تو جلی حرفوں میں دلخراش واقعات آپ کو ملیں گے کہ فلاں جگہ کم جہیز لانے کی بنا پر جسم پر تیل ڈال کر آگ لگادی گئی، تو فلاں مقام پر گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا اور فلاں جگہ انسان نما بھیڑیوں کے مظالم سے تنگ آکر بے قصور و لاچار عورت نے خود ہی موت کے پھندے کو گلے لگا لیا ہے۔ آئے دن ایسے روح فرسا واقعات رونما ہو رہے ہیں اور بنت حوا کی نسل کشی کا یہ سلسلہ زورپکڑتا جا رہا ہے۔ اور یہ بڑے قلق وافسوس کی بات ہے کہ روزبروز جہیز کا مطالبہ بڑھتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے نکاح حد درجہ مشکل امر بنتا جا رہا ہے۔ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جس کی ترغیب قرآن و حدیث میں دی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے، اسے نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچارکھتاہےاور نظر کو بہکنے سے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتا ہے، (بخاری شریف)۔ اسی طرح دوسری جگہ سرور کائناتﷺ نے نکاح کی اہمیت و فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے نکاح کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ جیساکہ ارشاد نبویؐ ہے: جب کوئی بندہ رشتۂ زوجیت سے منسلک ہوجاتا ہے تو وہ نصف ایمان کو مکمل کرلیتا ہے۔
ہر ادنیٰ و اعلیٰ سے عیاں ہے کہ مہنگائی اپنے عروج و فراز پر ہے۔ پسماندہ طبقہ کو دو وقت کی روٹی کے لئے ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں ۔ اور ان کے گھروں میں بہن بیٹیاں بن بیاہی صرف اس لئے بیٹھی ہیں کہ ان کے والدین اور سرپرست کے پاس خطیر رقم نہیں کہ جہیز دےکر رشتۂ ازدواج سے منسلک کریں۔ 
سرورکائناتﷺ نے ارشاد فرمایا:نکاح میری سنت ہے جو میری سنت سے اعراض کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کی روک تھام کے لئے معاشرے میں دینی ماحول پیدا کرکے اسلامی احکام کی عظمت و اہمیت قلوب و اذہان میں اتارنا ضروری ہے۔ اس بات کو دل و دماغ میں راسخ کیا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ خدا کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز وبہتر طور پر اپنی دنیا بھی خوشحال بنائے اور آخرت بھی سنوارے۔
نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو نسل انسانی کی حفاظت و بقا اور انسان کے فطری جذبات کی مناسب تحدید کے لئے وضع ہوا ہے۔
 اس لئے اللہ کے نبیﷺ نے لڑکی کے دین دیکھ کر نکاح کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ مال، خوبصورتی اور خاندان دیکھ کر، کیونکہ دولت و ثروت، حسن وجمال اور حسب نسب پرمبنی رشتہ فتنہ میں مبتلا کرسکتاہے لیکن دیندار عورت ہر محاذ پر شوہر کی فرمانبردار اور وفاداری کرے گی۔ایک اچھامعاشرہ تشکیل پاتاہے۔
 اِن دنوں کئی شادیوں ہو رہی ہیں ۔ یہ مناسب وقت ہے کہ ہم اس مسئلے کی جانب خاص توجہ دیں ۔ ہر کوئی جہیز کے خلاف اپنی آواز بلند کریں ۔ کسی رشتے دار کے یہاں شادی ہے تو اس سے بات کریں۔ انہیں جہیز لینے یا دینے، دونوں سے منع کریں۔ جس شادی میں جہیز کا لین دین ہوتا ہے، وہاں نہ جائیں۔ اپنے طور پر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائیں ۔ ابتدا میں رشتے میں اختلاف پیدا ہوسکتا ہے لیکن دھیرے دھیرے انہیں آپ کی بات ضرور سمجھ میں آئے گی۔ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے ہر شخص اپنی ذمہ داری ادا کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK