Inquilab Logo

ماحولیاتی بحران،نسل نو کی بقا اور ہماری ذمہ داری

Updated: March 21, 2023, 10:33 AM IST | Ansari Ayesha Abshar Ahmad | Mumbai

اگر ماحولیاتی بحران پر قابو نہیں پایا گیا تو ہماری آنے والی نسلوں کی بقا خطرے میں پڑسکتی ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کو ایسی دنیا دے کر جانا چاہتے ہیں جس کی ہوا، پانی، غذا سب کچھ زہر آلود ہو؟ یقیناً نہیں۔ تو ضروری ہے کہ ہم اپنے منصب کو پہچانیں۔ خواتین اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور ماحول کے تحفظ کو یقینی بنائیں

Take the responsibility of protecting the environment as your responsibility and try to save the natural resources
ماحولیات کے تحفظ کی ذمہ داری کو اپنی ذمہ داری سمجھیں اور قدرتی وسائل کو بچانے کی کوشش کریں

زندگی کی بقا کے لئے قدرت نے زمین پر نباتات، حیوانات، انسان اور ان کے ماحول میں ایک توازن قائم کر رکھا ہے۔ پہلے انسان کی ضروریات انتہائی سادہ اور قلیل تھیں اسلئے ماحول پر اس کی سرگرمیوں کے اثرات زیادہ پیچیدہ اور نقصاندہ نہیں تھے۔ آج انسان نے اپنی جسمانی و نفسیاتی خواہشات، آرام و سہولت کی خاطر اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے قدرتی وسائل کو بے دریغ استعمال کر رہا ہے جس سے ماحول کو قابل ِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ جدت، مصنوعات پسندی اور تسخیر کائنات کی دوڑ میں ترقی پسند انسان نے اپنے خمیر اور کائنات کے مزاج کو بھلا دیا اور فطرت کو مصنوعات سے آلودہ کرکے قدرتی توازن کو بگاڑ دیا اور دنیا استحصالِ فطرت اور اس سے آگے بڑھ کر بگاڑِ فطرت کی طرف گامزن ہوگئی۔ چنانچہ آرام پسند اور خود غرض معاشرہ نے اس شعر کو عملی جامہ اس طرح پہنچایا کہ عالم ہی نیست و نابود ہو جائے یعنی ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔‘‘
 صنعتی ترقی، سائنسی اختراعات اور نیوکلیائی تجربات کے نام پر ظالم انسان نے اپنی ہی فضاؤں کو زہر آلود اور مسموم کر رکھا ہے۔ پانی کو زہر آلود اور کثیف کر دیا ہے۔ نظام قدرت سے چھیڑ چھاڑ اور تخریب کاری کا یہ عمل دنیا میں قیامت برپا کرنے کے مترادف ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
زماں چمنیوں کی گھٹاؤں میں ہے
دھواں اب تو تازہ ہواؤں میں ہے
زمیں اب تو سونا اگلتی نہیں
خزاں کی رتوں کو بدلتی نہیں
سموم عناصر کی بہتات ہے
سمندر نہیں جام سقراط ہے
بہت مہرباں اپنے کہسار ہیں
کہ آلودگیوں سے نہ بیزار تھے
کبھی نام کو نہ تھے گرد و غبار
کبھی زندگی یوں نہ تھی اشکبار
یہ مٹی یہ پانی یہ آب و ہوا
بشر نے اسے کیا سے کیا کر دیا
 یہ مسائل اتنے پیچیدہ ہیں اور ان کے حال اتنے دشوار ہیں کہ ساری دنیا کے لوگ اور حکومتیں پریشان ہیں اور دانشور حضرات انتہائی مفکر ہیں اور عوام میں بے چینی ہے۔ انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہے اور ذہنی سکون، اطمینان ِ قلب سے کوسوں دور ہے۔ ایک مفکر کے الفاظ میں سائنس نے انسان کو ہوا میں اڑنا اور پانی میں تیرنا تو سکھا دیا لیکن زمین پر رہنا نہیں سکھایا۔ ہم نے پوری زمین کو آلودہ اور گندا کر دیا ہے۔
 حالیہ خبروں کے مطابق، ممبئی میں فضائی آلودگی   بدترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یہاں کی فضائی آلودگی دہلی سے بھی زیادہ ہے اس کی وجہ سے ممبئی کے لوگوں خصوصاً بوڑھوں اور بچوں کو مختلف بیماریوں کی شکایت ہوگئی ہے۔ ممبئی کے مختلف علاقوں میں فضائی آلودگی کی سطح ۱۴۲؍ ایئر کوالیٹی انڈیکس سے ۲۷۳؍ کے درمیان تھی جو بہت خراب سمجھی جاتی ہے۔ ممبئی شہر کی آلودگی میں ۲۸؍ فیصد دھول مٹی اور ۲۶؍ فیصد گاڑیوں سے پھیلنے والی آلودگی پائی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، فضائی آلودگی دل کی بیماری، کینسر، فالج اور سانس کی بیماری کا باعث بنتی ہے۔ صوتی آلودگی کا شکار لوگوں کو سماعت کے مسائل، ہائی بلڈ پریشر اور نیند میں خلل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں منافع کمانے کی خاطر انسانی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا جاتا ہے جس کے بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہر دس میں سے ۹؍ انسان آلودہ ہوا میں جی رہا ہے جس کی وجہ سے ہر سال ۷؍ ملین انسانوں کی موت ہو جاتی ہے۔
 مادہ پرستی، حرص و ہوس اور پُرتعیش زندگی نے انسانیت کو ماحولیاتی آلودگی کی شکل میں ایک تباہ کن تحفہ دیا ہے اس وقت ہمارا ماحول، ہماری زمین اور اس کے وسائل شدید خطرات کی زد میں ہیں۔ اگر ماحولیاتی بحران کی صورتحال پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو ہماری آئندہ نسلوں کی بقا خطرے میں پڑسکتی ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کو ایسی دنیا دے کر جانا چاہتے ہیں جس کی ہوا، پانی، غذا سب کچھ زہر آلود ہو؟ یقیناً نہیں۔ تو ضروری ہے کہ ہم اپنے منصب کو پہچانیں۔ خواتین اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور ماحول کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ قرآن کہتا ہے کہ انسان کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے اس کی حیثیت امانت کی سی ہے جس کے سلسلے میں وہ خدا کے حضور جوابدہ ہے۔ اس لئے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ فضول خرچی، اشیا پرستی، ماحولیاتی بحران اور عیش پسندی جیسی نحوستوں سے عبارت جدید مغربی لائف اسٹائل کے مقابلہ میں سادگی، جفاکشی، فطرت سے ہم آہنگی، انسان دوستی، اصول پسندی جیسی قدروں سے عبارت اسلامی لائف اسٹائل کو فروغ دیں۔ ہمیں چاہئے کہ کاربن فٹ پرنٹ کم کریں۔ پیدل چلیں، سائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔ بجلی، پانی اور پلاسٹک کا کم استعمال کریں۔ وسائل کا کم اور استعمال شدہ اشیاء کو دوبارہ استعمال میں لائیں۔ توانائی کا کم سے کم استعمال کریں، تبدیلی یقینی آئے گی۔

women Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK