لارسن اینڈ ٹوبرومیں بطور اسسٹنٹ پروڈکشن منیجر خدمات انجام دینے والے فاروق نےبی ایم سی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور گزراوقات کیلئےامیٹیشن جویلری کا کام کرتے تھے۔
EPAPER
Updated: September 04, 2023, 2:06 PM IST | Sheikh Akhlaque Ahmad | Mumbai
لارسن اینڈ ٹوبرومیں بطور اسسٹنٹ پروڈکشن منیجر خدمات انجام دینے والے فاروق نےبی ایم سی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور گزراوقات کیلئےامیٹیشن جویلری کا کام کرتے تھے۔
ممبئی کے اردو میڈیم بی ایم سی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے والےملاڈپٹھان واڑی علاقہ میں رہائش پذیر نوجوان انجینئر فاروق احمد نےچندریان۳؍مشن راکٹ لانچر خول کی تیاری میں اہم ذمہ داری ادا کی ہے۔فاروق احمدایل اینڈ ٹی کمپنی میں اسسٹنٹ پروڈکشن منیجر کے طورپر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ لارسن اینڈ ٹوبروکمپنی گزشتہ ۴۰؍سال سےاسرو کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت مختلف خلائی مشن کے لئے درکار آلات کی تیاری کا کام انجام دیتی ہے۔
فاروق احمد نے انقلاب سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میں ہندوستان کے خلائی مشن کا کام انجام دینے والے نامور ادارہ کے لئے بیرونی طور سے پروڈکشن میں شامل رہا۔ایل اینڈ ٹی چاند پر بھیجے گئےسیٹیلائٹ کے لئے راکٹ سائڈبوسٹرکوتیار کرتی ہے جس میں سیٹیلائٹ کو تیزی سے خلاء میں پہچانے کا اہم کام کرتے ہے۔
اپنی ابتدائی تعلیم میں پیش آنے والی دشواریوں کا ذکر کرتے ہوئے فاروق احمد نے کہا کہ میری والدہ ہم ۳؍ بھائیوں کو اترپردیش کے اپنے آبائی گاؤں جون پور سے ممبئی، ملاڈ (مغرب)کی چھوپڑ پٹی کی ایک چال میں لے آئیں تاکہ ہمیں بہتر تعلیم دلوائی جاسکے،وہاں گاؤں میں رہ کر یہ ممکن نہیں تھا۔ میری والدہ روزانہ کے کھانے پینے کے اخراجات اور ہم تینوں بھائیوں کی پرورش کے لیےچال میں ایمیٹیشن جیویلری کا کام کرتی تھیں اور آس پاس کےبچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی تھیں ۔کم آمدنی کی وجہ سے ہم تینوں بھائیوں نے بی ایم سی اسکول میں داخلہ لیا۔ہم تینوں بھائی صبح اسکول جا تے اور شام کو پارٹ ٹائم بریزنگ/ امیٹیشن جیویلری کا کام کرتے تھے تاکہ ہماری روزمرہ کی خوراک/ رہائش اور تعلیم کی ضروریات پوری ہو سکیں ۔ لیکن میری والدہ کا خواب تھا کہ ان کاکم از کم ایک بچہ انجینئریا ڈاکٹربنے۔میرے والد سلطان احمد کو نشہ کی لت تھی جو ہماری کفالت نہیں کرتے تھے نہ کوئی کام کرتے تھے اور نہ ہی ان کےپاس اپنے خاندان کیلئےکوئی وژن تھا۔ میرا معمول میرے بھائیوں جیسا ہی تھا،بی ایم سی اسکول میں صبح کی پڑھائی اور اس کےبعد نقلی زیورات بنانے اور پیکنگ جیسے کام انتہائی معمولی اور کم آمدنی پر کرنا تھا۔ اسکول کی پڑھائی کے ساتھ گھر میں کام کی وجہ اور دیگر مسائل کی وجہ سے مجھے۹؍ویں جماعت میں ۲؍ مضامین میں کم مارکس حاصل ہونے کی وجہ سے گریس مارکس کےساتھ اگلی کلاس میں پروموٹ کیا گیا۔ جسکا والدہ کو بہت افسوس ہوا۔اس مرحلے پر میری والدہ نے مجھے کسی ایک بچےکے ڈاکٹریا انجینئر بننے کے خواب کے بارے میں بتایا اور کہا کہ وہ اسی لئے گاؤں چھوڑکر ممبئی آئی ہے اورروزانہ ۱۵؍تا ۱۶؍گھنٹے کام کرتی ہیں ۔ان سب باتوں نے میرے اندر یہ چنگاری بھڑکا دی کہ مجھےکسی طرح سے انجینئر یا ڈاکٹر بننا ہے تاکہ والدہ کا خواب پورا کرسوں اور اپنےخاندان کو کچی آبادی سے نکال سکوں ۔
عزم مصمم کے ساتھ دسویں جماعت کی تیاری شروع کی اور روزانہ ۱۰؍ تا ۱۲؍ گھنٹے پڑھتا تھا۔ گھر میں نقلی زیورات تیار کرنے کےبعد ہر روز پڑھائی کرتا اور بتدریج پڑھائی کے اوقات میں اضافہ کرتا تاکہ بہتر نمبرات سے کامیابی حاصل ہو۔دوستوں سے انکی کی کتابیں ، جرنل مانگتا خاص طور سےایک دوست میری پڑھائی میں مدد کرتا اور میں اسے ریاضی سکھایاکرتاتھا۔اکثر ہم دونوں ساتھ مل کر گروپ اسٹڈی کرتے۔ میں اس سال کو کبھی نہیں بھلا سکتاکیونکہ وہ سال میری زندگی کے سفرکا ٹرننگ پوائنٹ بنا۔اسکول میں کسی کو یقین نہیں تھا کہ ایک طالب علم جس کو گریس مارک کے ساتھ پروموٹ کیا گیا ہو وہ دسویں جماعت میں تمام میڈیم (ہندی/ مراٹھی/ اردو) میں ٹاپر بن سکتاہے۔میرا نام اسکول بورڈ پر ٹاپر طلباء کی فہرست میں رقم کیا گیا۔
دسویں کے بعد کے تعلیمی سفر سے متعلق فاروق احمد نے کہا کہ اس کےبعد میں ایک چھوٹے سےگالے میں تانبے کی بریزنگ پر کل وقتی کام کرنا شروع کر دیا۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظورتھا۔میرے اسکول کے ساتھی اکبر علی نے انجینئرنگ ڈپلوما کے لیے درخواست درج کروائی تھی، اور اس کا اصرار تھا کہ میں بھی آگے کی تعلیم جاری رکھوں ۔ اس نے درخواست کی کہ تمہارےنمبر بہت اچھے ہیں تمھیں اتنے اچھے نمبروں کے ساتھ انجینئرنگ میں داخلہ مل جائے گا۔ تاہم، مجھے اس بات کی فکر تھی کہ فیس اور تمام متعلقہ اخراجات (پروجیکٹ، لیب، سرگرمیاں ، وغیرہ)کی ادائیگی کیسے کر سکوں گا۔میں نے اپنی والدہ اور بڑے بھائی سےاس کا ذکر کیا۔ گھر والوں نے میری ہمت باندھی اور کہا کہ، تم داخلہ لو، فیس کا خیال ہم رکھیں گے۔
میں نے ایک ہی کالج یعنی ایم ایچ صابو صدیق کالج میں داخلہ درخواست دی اور بغیر کسی ڈونیشن کے میکانیکل انجینئرنگ برانچ میں میرا داخلہ ہو گیا۔ ہم سب گھر والوں نے اس سال میرا ساتھ دیا، ہم سب نےمیری کالج فیس ادا کرنے کے لیے بہت زیادہ اضافی کام کرنا شروع کیا۔۳؍ سال کے ڈپلوماکی معیاد میں روازانہ میں لائبریری میں مطالعہ کرتا، دوستوں سےکتابیں لیتا اور نوٹ تیارکرتا رہا۔ہم صرف کالج فیس کے پیسے کا انتظام کر سکیں گے اور ملاڈ سے ممبئی سینٹر تک میرا ٹرین پاس، گھر سے ریلوےاسٹیشن اور ریلوے اسٹیشن سے کالج تک پیدل چلنا تھا۔ میرا۳؍سالہ روٹین کالج میں پڑھائی پھر پارٹ ٹائم جاب اورپھر رات۱۲؍بجےتک پڑھائی اور اتوار کے آدھے دن کی پڑھائی کرتا رہا۔فائنل ائیر میں مجھے کالج کیمپس پلیسمنٹ کا بے صبری سےانتظار تھا۔ میں نے۷؍انڈسٹریز کے لیے اپلائی کیا تھا اور تمام انٹرویوزپاس کیے تھے۔ میرے اساتذہ اور خاندان نے ایل اینڈ ٹی میں جاب کرنے کا مشورہ دیا۔ بدقسمتی سے ہم کرائے کےمکان میں رہ رہےتھے مکان بدلنے اور ایڈریس شفٹ ہونےکی وجہ سے میرا ایل اینڈ ٹی پلیسمنٹ لیٹر ریٹرن چلا گیا۔ لیکن میراانٹرویو بہت اچھا ہوا تھا اس لئے ایل اینڈ ٹی کے افسران نے دوبارہ صابو صدیق کالج کے پلیسمنٹ انچارج سے مل کر مجھے جوانٹ کرنےکی سفارش کی۔سرنےمیرے بیچ میٹ کے ذریعے مجھے تلاش کیا۔میں نے ایل اینڈ ٹی میں بطور جونیئر انجینئرشمولیت کی۔۷؍سال تک سپلائی چین منیجرکے عہدے پر کام کرتا رہا۔ اس کے بعد سےمجھے فیبریکیشن پروڈکشن منیجربنایا گیا ہوں میری ماتحتی میں ۹۵؍افراد کام کرتے ہیں ۔
راکٹ کا لانچ وہیکل ۴؍اسٹیج میں بنتاہے۔ اس کا فرسٹ اسٹیج سالڈفیوئل (ایندھن) کےکام آتا ہے۔ اس ایس ۲۰۰؍ اسٹریپون بوسٹر موٹر کیسنگ فیبریکیشن کاخول تیار کرنے کی ذمہ داری ایل اینڈ ٹی انجام دیتی ہے،الحمد للہ اس شعبہ کا میں پروڈکشن منیجر ہوں ۔طلباء کے نام پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی۱۰۰؍ فیصدکوشش کریں ، کامیابی آپ کو ملے گی۔